تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     04-05-2020

المیہ!

ابھی چند روز پہلے ہی ''سیاسی اسلام‘ ‘ کے نظریات اور عالمی تحریکوں کا نصاب ختم کیا ہے۔ اس حوالے سے آخری نشست‘ بلکہ آخری کئی نشستیں 'مابعد سیاسی اسلام‘ کی جدید فکر‘ جَدد پسند مفکرین‘ ان کے افکار اور سماجی و سیاسی پس منظر پر مرکوز رہیں۔ اس موضوع پر زیادہ تر تحقیق و تدریس مغربی دانش گاہوں میں ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے یہ خاکسار بہاری ٹرم میں یہ کورس اپنی جامعہ میں پڑھا رہا ہے۔ جو کچھ ہمارے موضوعِ بحث تھا‘ اس کی بات بعد میں ہو گی‘ فی الحال اسی معاملے کی ایک اور جہت کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایران میں مذہب کے حوالے سے کئی اصلاحی تحریکوں نے تقریباً دو دہائیاں پہلے جنم لیا اور ابھی تک ان کا زور ٹوٹا نہیں۔ یہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد کا ذکر ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان کے صحافی‘ دانشور اور مذہبی علوم کے ماہرین بھی ان پر توجہ نہ دے سکے‘ سیاسی لوگوں کو تو چھوڑ ہی دیں کہ پڑھنے لکھنے سے بہت کم دل چسپی رکھتے ہیں۔ کم از کم میں نے تو ایران میں کئی برسوں سے جاری ہر لحاظ سے توانا فکری مباحث کا عکس نہ کسی اخبار‘ رسالے یا ادبی اور فکری مجالس میں دیکھا اور نہ ہی جامعات میں موجود فارسی کے استادوں کو ان موضوعات پر قلم اٹھانے کی مہلت ملی دیکھی۔ فارسی پڑھنا‘ پڑھانا ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے چھوڑ چکے ہیں۔ یہ خود پہ طاری کردہ محرومی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم ایران کے جدید علمی اور ادبی ورثے سے کٹ کے رہ گئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہم میں سے کچھ نے وہاں کے کلاسیکی ادب کو اپنی الماریوں میں سجا رکھا ہے اور گاہے گاہے حافظ شیرازی کے دائمی اشعار‘ سعدی کی حکایات اور مولانا جلال الدین رومی کی رباعیات اور مثنویوں کے حوالے ادھر ادھر صرف نمک مرچ کے طور پر مل جاتے ہیں۔ ایرانی تہذیب کا مطالعہ کرنے والی نسل بھی اب بوڑھی ہو رہی ہے۔ ہم نے فارسی عام سکولوں میں چھٹی جماعت سے لے کر میٹرک تک پڑھی تھی۔ اب نہ سکولوں میں فارسی کے اساتذہ ہیں اور نہ ہی فارسی پڑھنے والے طلبہ۔ ہم اپنی تہذیب کے ماخذ سے دور ہوتے چلے گئے۔ کتابوں کی دکانوں پر جا کر دیکھ لیں‘ آپ کو ایران سے شائع شدہ کوئی کتاب اور نہ ہی کوئی رسالہ بکتا نظر آئے گا۔ فارسی دانوں کیلئے فقط خانہ فرہنگ کے کتب خانے اور وہاں پہ کبھی کبھار منعقد ہونے والے ادبی اور علمی جلسے رہ گئے ہیں۔ اس خاکسار کو بھی ایسے جلسوں میں شرکت کئے کئی برس ہو چکے ہیں۔ ناچیز کو اس محرومی کا احساس ہے مگر روزگار کی بندش نے کئی کھونٹیوں کے ساتھ زنجیر لگا رکھی ہے۔ 
یہ معروضات پیش کرنے کی تپش اس وقت پیدا ہوئی جب میرے ایک طالب علم نے موضوع سے ہٹ کر یہ سوال داغا کہ مولانا طارق جمیل صاحب کے حوالے سے جو بحث اخباروں اور شام کے وقت سیاسی شوز میں چل رہی ہے‘ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ویسے تو مولانا صاحب نے بہت اچھی باتیں کیں اور اتفاق سے میں نے ان کی خطابی دعا کو دیکھا اور سنا بھی۔ میرا مقصد اس بحث میں شامل ہونا ہرگز نہیں‘ کہ میں ان کے مداحوں میں شامل ہو جائوں یا ان نقادوں میں جو مولانا پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ مذہبی افکار اور تحریکوں کے حوالے سے جو معیار وطنِ عزیز میں ہے‘ اس پر ترس آتا ہے‘ اور خوف بھی۔ کہاں ایران کی اعلیٰ پائے کی فکری اور علمی بحثیں اور کہاں یہ عامیانہ اور سطحی باتیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پاس پڑھنے‘ سوچنے اور کہنے کے لئے کچھ نہیں رہ گیا‘ بس آج کی باتیں‘ آج کی خبریں اور آج کے بیانات۔ اگر ڈگر سے ہٹ کے کوئی بات سامنے آ جائے تو کئی دن تک زورِ بیاں چلتا رہتا ہے اور ہمارے دانشور اسے رگڑتے رہتے ہیں۔ چونکہ لکھنا شہادت دینے کا معاملہ ہے‘ تو فقط دو باتیں مولانا صاحب کے حوالے سے کہہ کر اپنے موضوع کی طرف واپس آئوں گا۔ وہ روایتی عالم اور مبلغ ہیں‘ علم میں راسخ‘ اور جیسا ہمارے محترم مجیب الرحمن شامی صاحب نے اپنے پروگرام میں کہا کہ وہ دلوں کو جوڑنے اور تفرقے مٹانے والے ہیں۔ میں بھی اس کی تائید کرتا ہوں۔ وہ سادگی‘ انکساری‘ رزقِ حلال‘ سچائی اور دین داری کے علاوہ خدمت خلق پہ بھی زور دیتے ہیں۔ اپنی دعا میں انہوں نے زیادہ تر یہی باتیں کیں۔ تین باتیں ایسی کیں جو ان کی سادگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ عورتوں کے بارے میں ان کا بیانیہ کم و بیش وہی ہے جو ہر روایتی خطیب‘ جہاں موقع ملتا ہے‘ بیان کرتا ہے۔ نہ تو اس بات کا موقع محل تھا‘ اور نہ ہی مجھے ساری دنیا میں پھیلی وبا اور عورتوں کی ذاتی ترجیہات میں کوئی منطقی تعلق نظر آتا ہے۔ جو ردِ عمل پیدا ہوا‘ وہ پاکستان میں اس وقت کی سیاسی اور سماجی تقسیم کے زاویے سے فطری ہے۔ ان کے خلاف سیاسی طوفان اٹھنے کی وجوہ دو اور بھی ہیں۔ پہلی‘ عمران خان صاحب کی حمایت میں بیانات‘ اور دوسری‘ ماضی کی تمام حکومتوں کو ''اجڑے‘‘ چمن کا ذمہ دار قرار دینا۔ یہ باتیں تو ہم میں سے کچھ کہتے رہتے ہیں‘ لیکن مولانا صاحب پہ جس انداز میں ناقدین چڑھ دوڑے ہیں‘ یہ ان کا معاشرے میں بڑا مقام اور نام ہونے سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لاکھوں لوگ ان کی باتیں دھیان سے سنتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ میرا جواب یہ تھا کہ داعیٔ مذہب کے دائرے میں زندگی بسر کر کے دربار شاہی میں حاضریوں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ مولانا صاحب کی خان صاحب سے ملاقات کی تصویر اخباروں میں دیکھی تو یقین جانئے دکھ ہوا۔ خان صاحب کا اپنے مشیروں‘ وزیروں اور دیگر لوگوں سے ملاقات کرنے کا انداز سب کو معلوم ہے۔ وہ میز کے ایک سرے پر اور ملاقاتی دوسرے سرے پہ۔ یہی حال مولانا صاحب کا تھا۔ اس نوعیت کی ملاقاتوں کے آداب کچھ اور ہیں۔ اور پھر میڈیا کے بارے میں یہ کہنا کہ ''سب جھوٹ بولتے ہیں‘‘ کیا اسے سادگی کہیں‘ غلط فہمی کہیں یا زبان کی پھسلن قرار دیں؟ یہ وہی میڈیا ہے‘ جہاں ہر دن صبح اور شام کسی نہ کسی چینل پر مولانا صاحب جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ میڈیا کا مطلب ہی ذریعۂ اظہار ہے۔ بات تو اس کی کرنی چاہئے جو اسے استعمال کرتا ہے‘ نہ کہ خود ذریعے کو‘ جو سب کے لیے موجود ہے۔ ہمارے مذہبی مباحث میں قدامت پسندی ‘ روایت اور لکیر کا فقیر ہونے کا رنگ غالب نہیں بلکہ اتنا گہرا چڑھا ہے کہ اترتا نظر نہیں آ رہا۔ متبادل فکر اور مفکرین کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔ 
ہمارے برعکس ایران میں مذہبی دانشوروں نے گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں پُر زور تحریک چلائی‘ جس کا مقصد روایتی قدامت پسندی اور سرکاری مذہبی سوچ کے متبادل نئی راہیں تلاش کرنا تھا۔ اس کے متوازی خواتین اور نوجوانوں کی تحریک بھی زور پکڑ چکی تھی۔ علی شریعتی عصرِ حاضر میں جدیدیت کے بانیوں میں سے ہیں۔ شاہ کے زمانے میں ملک بدر ہوئے اور جلا وطنی میں ہی شہید کر دئیے گئے‘ لیکن افکارِ تازہ اور نئی روشنیوں کے کئی چراغ ایران اور اسلامی دنیا میں اپنی تصانیف کی صورت میں جلا گئے۔ سابق صدر محمد خاتمی‘ مہدی بازرگان‘ عبدالکریم سروش اور مرتضیٰ مطہری کے نام ''روشن فکرانِ دینی‘‘ کی فہرست میں شامل ہیں۔ محمد خاتمی کیہان اخبار کے کئی برس ڈائریکٹر رہے۔ اس اخبار کے علاوہ ''گفتگو‘‘ ''بہار‘‘ اور ''سلام‘‘ میں مذہبی اصلاح‘ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق مذہب کی تشریح و توضیح اور مذہبی سوچ کو ڈھالنے کے بارے میں مقالات لکھے گئے‘ مجالس منقعد ہوئیں۔ ایک اور بات‘ ان سب لوگوں کے علاوہ دیگر دانشوروں نے مارکس سے لے کر جان رالز تک تمام کلاسیکی مغربی فلسفے کو باجماعت سٹڈی سرکلز کی صورت میں کھنگال ڈالا۔ ایک عرصہ تک آیت اللہ خامنہ ای کی بھی شمولیت رہی۔ یہ سارے مباحث ایران میں تقریباً بیس برس تک جاری رہے‘ اور میرے نزدیک تمام تر مشکلات کے باوجود دائمی اثر چھوڑ گئے۔ جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ عدم تشدد اور جدید مذہبی افکار آج ایران اور پوری دنیا میں مذہبی دانشوروں کے منشور کا حصہ ہیں۔
برصغیر میں شاہ ولی اللہ نے جو کچھ لکھا کاش ہم اسے آج پڑھ لیتے۔ انہوں نے بھی قرآن اور سنت کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے کی بات کی تھی۔ سر سید احمد خان نے‘ جو ہر لحاظ سے پاکستان کے روحانی بانیوں میں سے ہیں‘ قرآنِ پاک کی تفسیر لکھی اور روایتی مذہبی عقائد کے متبادل نئی سوچ متعارف کرائی‘لیکن جب برداشت اور رواداری ہی نہیں اور متشدد گروہ ہمہ تن تیار رہیں تو متبادل فکر کیسے پیدا ہو گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved