تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     05-05-2020

صحافت کا عالمی دن کشمیریوں کے نام

طبیعت بہت خوش ہے اور خوشی کی وجہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والی خبریں ہیں جو دنیا بھر میں شائع ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہدین کے ساتھ ایک جھڑپ میں بھارت کے ایک کرنل اور میجر سمیت پانچ فوجیوں کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے ‘جبکہ دو حریت پسند مجاہد بھی شہید ہوئے ہیں۔ یہ لڑائی کپواڑہ میں ہوئی‘ جس میں بھارتی فورسز نے حسب ِمعمول کرفیو لگایا اور کشمیریوں پر ظلم وستم تشدد شروع کیا۔ جب معاملہ برداشت سے باہر ہوا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی تو کشمیریوں کی طرف سے بھی طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بھارتی فورسز کی فائرنگ سے بیسیوں کشمیری زخمی ہوئے اور متعدد مکانات کو بھی تباہ کیا گیا ۔مقبوضہ کشمیر میں ایک اور واقعے میں بھی پانچ کشمیریوں کو شہید کیا گیا ۔ بھارتی بربریت کا یہ سلسلہ کچھ عرصے سے زیادہ ہوگیا ہے اور مزاحمتی تحریک بلا خوف و خطر شدت کے ساتھ شروع ہوچکی ہے جسے دبانے کے تمام حربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں ۔نو ماہ کا کرفیو ‘ لاک ڈاؤن‘ گرفتاریاں‘ آبروریزیاں‘ شہادتیں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال‘ اور تو اور پہلے‘ دوسرے اور تیسرے درجے کی کشمیری قیادتوں کی گرفتاریاں اور نظربندیاں بھی کشمیریوں کے جذبے کو کمزور نہ کرسکیں اور کشمیر کی آزادی کی تحریک اب گھر گھر پہنچ چکی ہے۔ جس جس گھر میں‘ جس جس گلی میں‘ جس جس وادی میں بھارتی فوج کے درندے قدم رکھتے ہیں اور کشمیریوں کے ارادوں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ان علاقوں ‘گلیوں اور گھروں میں پہلے سے زیادہ شدت سے جذبۂ حریت جاگ اٹھتا ہے اور انتہا پسند بھارت کو کْچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کیاجائے۔ اندرونی ناکامی کو چھپانے کیلئے لائن آف کنٹرول پر حملے شروع کردیتا ہے‘ جب پاک فوج کی طرف سے مار پڑتی ہے تو پھر دم دبا کر بھاگتا ہے‘ پیچھے موت اور آگے ذلت ورسوائی ‘الغرض تمام کے تمام حربے سو فیصد ناکام ہوچکے ہیں اور کشمیریوں نے ایک بارپھر ثابت کردیا ہے کہ انہیں نہ بیرونی امداد چاہیے‘ نہ ہی ان کو کسی قیادت کی ضرورت ہے‘ بلکہ اب کشمیریوں کا ایک ہی نصب العین اور ماٹو ہے کہ کشمیری جہاں ہے‘ جیسے ہے وہ آزادی کی تحریک کا حصہ ہے اور اپنی اپنی استطاعت اور سکت کے مطابق‘ اپنے اپنے شعبے میں رہتے ہوئے تحریک ِحریت کا سپاہی ہے۔ وہ قلم سے بھی جہاد کرے گا ‘وہ فکری جہاد بھی کرے گا‘ وہ اپنا تن من دھن‘ جان مال اور آبرو سب کْچھ لگائے گا‘ لیکن بھارتی دہشت گردوں کی غلامی قبول نہیں کرے گا اور نو ماہ کا جبروتسلط بھی کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا۔
مجھے یاد ہے جب گزشتہ برس اگست میں بھارت کی دہشت گرد حکومت نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے وادی پر قبضہ جمانے کا اقدام اٹھایا تو بڑے بڑے نامور دانشوروں نے ببانگ دہل یہ کہنا شروع کردیا کہ کشمیر کا تنازعہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہے اور جلد یا بدیر موجودہ لائن آف کنٹرول کو ہی حتمی تقسیم کا درجہ دے دیا جائے گا اور یہ کہ اب کشمیریوں کو اپنی قسمت پر سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔ایسے تمام دانشور یہ سب کْچھ اس بنیاد پر کہہ رہے تھے کہ اطلاعات یہ تھیں کہ امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت اور اسرائیل سمیت تمام بڑوں نے کشمیر کے مستقبل بارے فیصلہ کرلیا ہے اور بھارت کا پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو تمام سٹیک ہولڈرز ماسوائے کشمیریوں کے سب کی تائید حاصل ہے اور یہ فیصلہ اقتدار کے عالمی ایوانوں میں کیاگیا ہے‘ خاص طور پر پینٹاگون کے کردار کا بڑا چرچا رہا۔دہلی نے اس اقدام سے پہلے متعلقہ ممالک کے سفیروں کو بھی بریف کر دیا تھا اور مزید یہ اطلاع بھی تھی کہ انڈیا نے اس بارے میں تین عرب ممالک ‘جن کے ساتھ انڈیا کے گہرے تجارتی تعلقات ہیں ‘کو بھی پیشگی آگاہ کردیا تھا اور ان ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں پاکستان اور انڈیا کی ٹی وی نشریات بھی پانچ اگست سے پہلے ہی بند کردی تھیں تاکہ مقبوضہ کشمیر بارے بھارت کے غاصبانہ اقدام سے پیدا ہونے والی کشیدگی سے ان کے ہاں امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ ہو‘ کیونکہ ان تینوں عرب ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی اور پاکستانی کام کرتے ہیں اور ان ممالک نے مستقبل میں بھارت میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رکھے ہیں‘ تاہم ہر ذی شعور کا یہی خیال تھا کہ ستر سال سے جاری تحریکِ حریت کو بند کمروں میں بیٹھ کر دبایا نہیں جاسکتا کیونکہ ستر برسوں میں شاید ہی ظلم کی کوئی ایسی شکل ہو جس سے کشمیری محفوظ رہے ہوں۔سب سے زیادہ تکلیف ہماری بہنوں‘ بیٹیوں اورماؤں کی عصمت دری تھی‘ جو بھارتی درندوں نے کی اور میرا ایمان ہے کہ پاکباز خواتین کی آہ و بکا عرشِ معلی تک جاتی ہے اور شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
پاکستان کے بارے میں شکوک وشبہات بھی پھیلائے گئے‘ لیکن بھارت کے غاصبانہ کردار میں پاکستان کے کسی بھی قسم کے کردار کی نفی وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر نے کردی اور جس طرح پوری دنیا کے ہر فورم پر وزیرعظم عمران خان نے مقدمۂ کشمیر پیش کیا اور اس کوہٹلر کے ظلم و ستم اور یہودیوں کی نسل کشی سے لنک کیا اس بیانیے سے یقینامودی سرکار کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ہر گزرتے لمحے بھارت کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہیں‘ کیونکہ پانچ اگست کے اقدام سے پہلے کشمیر کا تنازعہ عالمی بے حسی کا شکار ہوچکا تھا۔اللہ سے دعا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق ملے وہ حق جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ 
تین مئی کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آزادیٔ صحافت کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمارے ہاں بھی ایک مخصوص گروپ نے ایک طوفان بپا کیااور یہ تاثر دینے کی بے جا کوشش کی کہ پاکستان میں صحافت آخری سانس لے رہی ہے اور وطنِ عزیز میں بڑی گھٹن پائی جاتی ہے ۔ان کے ہمنواؤں میں بعض ایسے نام نہاد دانشور بھی تھے جو آج کل نوکری کی تلاش میں ہیں۔ درحقیقت یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہوں نے اس دن کو یومِ خود ملامتی اور یوم ماتمِ گرفتاری کے طور پر منایا‘کیونکہ ان کے بیانیے اور رونے دھونے میں صحافت کے ان بیسیوں شہیدوں کا دور دور تک تذکرہ نہ تھا ‘جو گزشتہ بیس برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور ان شہیدوں کا بھی تذکرہ نہیں تھا جو بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔صحافت کی آزادی کے دن انہوں نے صفِ ماتم بچھائی ہوئی تھی‘ جن کے گْرو صحافت کو ایک دھندہ اورکاروبار کہتے ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو راہِ ہدایت دکھائے اور نورِ ہدایت سے منور کرے‘لیکن ہم صحافت کی آزادی کا عالمی دن بھی ان شہید کشمیری صحافیوں کے نام کریں گے ‘جو گزشتہ چند برسوں میں آزادی کی آئینی و قانونی لڑائی لڑتے ہوئے درندہ صفت بھارتی فوجی غاصبوں کے ہاتھوں اپنے وطن پر قربان ہوئے ۔ان شہیدکشمیری صحافیوں میں شبیر احمد ڈار‘مشتاق علی‘ غلام محمد لون‘ غلام رسول آزاد‘ محمد شعبان وکیل‘ پرویز محمد‘ سلطان شجاعت بخاری‘ علی محمد مہاجن‘ سید غلام نبی ‘الطاف احمد فکتو‘ سید شفیع طارق‘ احمد عبدالماجد بٹ ‘جاوید میر اور ایک خاتون کشمیری صحافی آسیہ جیلانی بھی شامل ہیں۔اگر یہ دانشور واقعی آزادی ٔصحافت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ان صحافیوں کو سلام پیش کرنا چاہیے ‘جو میدانوں میں قلم کے ساتھ حقیقی جہاد کررہے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں‘ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہم آزادی کی اس عظیم نعمت کا ادراک اور شعور نہیں رکھتے۔ کاش! ہم اس آزادی کی قدر کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved