تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     05-05-2020

درانتی

گھٹا دیکھ کر عاشق اور کسان دونوں خوش ہوتے ہیں یا اداس!
عاشق تو شہروں میں پائے جاتے ہیں‘ مگر کسان کے مسائل شہر والوں کو نہیں معلوم! 
گندم کٹ چکی ہے۔ کچھ کاٹی جا رہی ہے۔ ابھی ابھی فون پر گائوں بات ہوئی۔ بارش ہو رہی ہے اور موسلا دھار ہو رہی ہے۔ گندم کھڑی ہو یا کٹی ہوئی‘ بھیگ جائے تو اسے سکھانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے کم از کم چار پانچ دن کی تیز دھوپ درکار ہوگی۔ اس کے بعد ہی تھریشنگ ہو سکے گی۔ یہ بارانی علاقوں کی بات ہو رہی ہے۔ خشک کیے جانے کے باوجود گندم کی کوالٹی اور مقدار... دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان بہر طور پہنچ چکا ہے۔
تھریشنگ کا لفظ لکھتے وقت دل میں کسک اٹھی ہے۔ وہ جو اقبالؔ نے کہا ہے: ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات 
تو اس کا صحیح مفہوم کوئی ہمارے جیسا دیہاتی ہی پا سکے گا۔ بہت سے لوگوں کے لیے شہر اور ایسی بہت سی باتیں ترقی کے خلاف ہیں۔ اس زمانے میں رہنا! اور مشینوں اور آلات کے خلاف بات کرنا! عجیب نہ لگے تو کیا لگے!ہم جو گائوں سے آ کر شہر میں بسے‘ ہماری یادوں کے خزانے تو اُس وقت سے مربوط ہیں جب گندم کاٹنے کی مشین تھی نہ بھوسہ الگ کرنے کی! درانتی تھی جس سے گندم کاٹی جاتی تھی۔ اب تو پنجاب کے مغربی اضلاع میں افغان مشقتی مل جاتے ہیں جو مزدوری کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں اور ضرورت مندوں کو دیہاڑی پر میسر آ جاتے ہیں۔ ہمارے دوست ملک سعید اختر کو ایک افغان فیملی خوش قسمتی سے ہاتھ آ گئی ہے۔ محنتی‘ جفا کش اور دیانت دار! ان کی زمینوں کو تھوڑے عرصے ہی میں گل و گلزار کر دیا ہے۔ مگر جس عہد کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت یہ لگژری موجود نہیں تھی۔ دیہاڑی پر کام کرنے کا تصوّر بھی دیہات میں مفقود تھا! جس کی گندم کاٹنے کی باری ہوتی تھی‘ اس کی برادری‘ دوست‘ احباب‘ گھر کے افراد... سارے مل کر ہاتھ بٹاتے تھے۔ اپریل کے آخر اور مئی کی کڑاکے کی دھوپ! چلچلاتی‘ آگ برساتی!!
عورتیں اور مرد مل کر گندم کاٹتے جاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کٹے ہوئے پودوں کے ڈھیر چھوڑتے جاتے۔ کبھی کبھی کوئی ترنگ میں آتا تو تان اڑاتا‘ آواز دور تک جاتی‘ اس کی لے پر درانتیاں اور تیز چلنے لگتیں۔ ساری خوشحالی‘ ساری امید‘ سارا مستقبل... درانتی کے اردگرد گھومتا۔ درانتی کیا تھی‘ صرف اوزار نہیں‘ علامت تھی‘ زندگی کو رواں رکھنے کی! احمد ندیم قاسمی نے درانتی پر جو نظم لکھی‘ اس عہد کی اور اس عہد کی امیدوں کی گویا بایو گرافی لکھ ڈالی۔ اس نظم سے لطف اندوز بھی وہی ہو سکتے ہیں جنہوں نے درانتیاں چلتی دیکھی ہیں : ؎ 
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہل کی یہ الہڑ‘ جوان‘ نورِ نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
تو ایک گیت اٹھے گا مسلسل اور دراز
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ایک طرف جھلساتی‘ شعلے برساتی دھوپ‘ دوسری طرف گندم سے اٹھنے والی تیز ''ہواڑ‘‘ (نہیں معلوم اسے اردو میں کیا کہیں گے)۔ بس یوں سمجھیے ایک عجیب سی‘ ہوا سے ملتی جلتی گرم شے جو فصل سے اٹھتی ہے۔ یہ سب مل کر کچھ کاٹنے والوں کو بخار میں مبتلا کر دیتیں۔ مگر بخار ہو جانے کے بعد گھر جا کر لیٹ جانے کا تصور تک عنقا تھا۔ محاورہ تو یہ تھا کہ گندم کاٹنے کے دنوں میں کسان کی ماں مر گئی تو اس نے اسے یوں ہی چھوڑ دیا۔ مطلب یہ کہ شدید ترین مصروفیت! شدید ترین سے بھی زیادہ!!پھر کٹے ہوئے گندم کے پودوں کو گٹھوں کی صورت میں باندھا جاتا۔ یہ گٹھے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پڑے کھیتوں میں یوں دکھائی دیتے جیسے آسمان پر امید کے ستارے! پھر انہیں کھلیان میں پہنچایا جاتا۔ باریاں مقرر ہوتیں کہ کس کھلیان پر کس دن کسی کی گندم کو بھُوسے سے الگ کیا جائے گا۔ اس عمل کو ''گاہ‘‘ کہتے۔ سب کے گاہ بیک وقت اس لیے نہیں ہو سکتے تھے کہ وہی برادری‘ وہی دوست‘ وہی رشتہ دار تو سب کے کام آنے ہوتے۔ جس کی باری گاہ کی ہوتی‘ وہ دن اس کے اور اس کے اہلِ خانہ کے لیے عید سے کم نہ ہوتا۔ تیاریاں کی جاتیں۔ پوری برادری کو اور کچھ تو پورے گائوں کو کھانا کھلاتے۔ کھانا کیا ہوتا! بکرے کا گوشت اور گندم کے موٹے آٹے کا حلوہ! گوشت پکانے کے لیے مٹی کے کٹوے ہوتے‘ (سمجھنے کے لیے یوں جانیے جیسے مٹی کی دیگیں)! زمین میں نالی کھودی جاتی۔ جس میں ایندھن جلتا۔ اس پر کٹووں کی قطاریں! مٹی کے کٹووں میں پکے ہوئے اس گوشت کا ذائقہ منفرد تھا۔ لسّی اُس دن پورا گائوں‘ اُسی گھر والوں کو بھیجتا کہ لسّی کی بہت بڑی مقدار کی ضرورت پڑتی۔ گوشت‘ تنور کی روٹیاں‘ گندم کے آٹے کا حلوہ اور لسّی یہ ہوتے ضیافت کے مندرجات!
گندم کے گٹھے کھول دیئے جاتے۔ کھلیان یعنی بڑے میدان میں گندم کے پودے‘ دائرے کی شکل میں پھیلا دیئے جاتے۔ پھر ان پر بیل دوڑتے۔ انہیں روندتے‘ پامال کرتے‘ کرتے رہتے یہاں تک کہ گندم کا ایک ایک دانہ اپنے غلاف سے باہر آ جاتا۔ اس کے بعد اگلا کام ان دانوں کو بھوسے سے الگ کرنا ہوتا۔ اس کے لیے لکڑی کا ایک لمبا ڈنڈا استعمال ہوتا۔ ڈنڈے کے آخر میں لکڑی ہی کی تین لمبی انگلیاں ہوتیں۔ اس ڈنڈے کو ترینگل کہتے۔ اسے ترے (تین) انگل(انگلی) سمجھ لیجیے۔شاید ٹرائی اینگل (Triangle) کے شروع میں جو ٹرائی کا لفظ ہے‘ وہ بھی وہی ''ترے‘‘ ہے جو مغربی پنجاب میں تین کے لیے بولا جاتا ہے۔ دانوں اور بھوسے کو الگ کرنے کے لیے ہوا کا کردار مرکزی ہوتا۔ وہ مواد جو گندم کے دانوں اور بھوسے کے آمیزے پر مشتمل ہوتا‘ اسے ترینگل پر اٹھا کر ہوا میں اڑایا جاتا۔ دانے گر پڑتے اور ہوا بھوسے کو اڑا کر‘ ذرا سے فاصلے پر ڈھیر کرتی جاتی۔ پھر گندم کو بوریوں میں بھرا جاتا۔ یہ بوریاں گھر پہنچتیں تو کمروں میں دیواروں کے ساتھ لگا دی جاتیں۔ جو گندم بوریوں سے بچتی‘ وہ مٹی کے بنے ہوئے سٹور میں بھر دی جاتی۔ اسے ''سکاری‘‘ کہا جاتا۔ پھر بعد میں ایلومینیم سے بنے ہوئے بھڑولے آ گئے۔ کسانوں کے کمروں میں کہیں کہیں یہ بھی ہوتا کہ کمرے میں ایک طرف گندم بھری بوریاں دیوار سے لگی ہوتیں اور دوسری طرف چارپائیاں بچھی ہوتیں جن پر دن کو بیٹھا اور رات کو سویا جاتا۔یہ وہ زمانہ تھا جب لالچ‘ حسد اور سازش نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہر شخص کو معلوم تھا کہ فلاں کی اتنے من گندم ہوئی ہے اور فلاں کی اتنی بوریاں! بڑے زمینداروں کی سینکڑوں بوریوں کے حساب سے‘ چھوٹوں کی پچاس‘ سو یا دو سو! مگر لبوں پر برکت کی دعائیں ہوتیں۔ زبانوں پر غیبت کے بچھو تھے نہ سینوں میں حسد کے سانپ!اب درانتی ہے نہ ترینگل! اب ایک مشین کاٹتی ہے‘ دوسری تھریش کرتی ہے۔ دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو رہا ہے۔ مشینیں پھیل گئی ہیں۔ زندگی سکڑ گئی ہے۔ حسد نے دلوں میں چھائونیاں ڈال لی ہیں۔ برکت اٹھ گئی ہے: ؎
جبیں سے بخت آخر اُڑ گیا یہ کہہ کے اظہارؔ
یہاں اب ختم میرا آب و دانہ ہو رہا ہے
بات بارش سے شروع ہوئی تھی۔ ابھی ابھی کھنڈہ کے ملک فرح یار سے بات ہوئی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ گندم کو فنگس (پھپھوندی) لگ گئی ہے۔ پیداوار آدھی رہ جائے گی۔ پنجاب حکومت کو بارانی علاقوں پر خصوصی نظرِ کرم کرنا ہوگی۔ کسانوں کو مالی امداد کی ضرورت ہے۔ خدا اس کسان کو شاد آباد رکھے جو ہمارا پیٹ بھرتا ہے۔ گمنام سپاہی! Un-Sung ہیرو!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved