تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     05-05-2020

انصار مدینہ کا ایثار!

انصار سراپا سخاوت وایثار تھے۔ آج جس وبا نے پوری دنیا‘ بالخصوص وطن عزیز کومصائب میں دھکیل دیا ہے‘ اس کا اولین تقاضا ہے کہ ہر شخص انصار کے جذبے سے سرشار ہو کر ضرورت مندوں کی طرف دستِ تعاون بڑھائے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا حجِ اکبر سے زیادہ بڑا ثواب ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ جس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اوراس کا پڑوسی بھوکا ہو‘ وہ اپنے ایمان کی خیر منالے۔ ہم ایثار سے کام لیں گے‘ تو اللہ تعالیٰ عذاب کو ٹال دے گا۔ 
آنحضورؐ کا سفر ہجرت پہلے قدم سے آخری گام تک معجزات وآیات سے مالا مال ہے۔ قبا سے جمعہ کے روز آپ اپنی ناقہ پر سوار ہو کر یثرت کی طرف روانے ہوئے۔ راستے میں انصار کے جس خاندان اور قبیلے کے گھر آئے‘ انہوں نے اصرار کیا کہ آپؐ انہی کی پاس قیام فرمائیں۔ آپؐ نے سب سے یہی فرمایا: میری اونٹنی کو اس کی منزل بتا دی گئی ہے‘ اسی لیے میں نے اس کی زمام اس کے شانے پر چھوڑ دی ہے۔ بنونجار کے محلے میں ایک کھلے میدان میں ناقہ بیٹھ گئی‘ مگر آپؐ اترے نہیں‘ اونٹنی اٹھی اور ایک چکر لگا کر پھر اس مقام پر آکر بیٹھ گئی۔ یہاں پر گھروں کے سامنے ایک کھلا اور ہموار میدان تھا۔جہاں ناقۂ رسولؐ بیٹھی ‘وہاں سامنے حضرت ابوایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔ آنحضورؐ اب اونٹنی سے اتر آئے۔ حضرت ابوایوبؓ نے آگے بڑھ کر اونٹنی کا پلان اتارا اور اسے اپنے گھر میں رکھ دیا۔ پھر آنحضوؐر سے درخواست کی کہ آپؐ ان کے گھر میں تشریف لائیں۔ اونٹنی ہدایاتِ ربّانی کے مطابق‘ وہاں آکر بیٹھی تھی۔ سیدنا ابوایوب انصاریؓ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آنحضورؐ ان کے گھر میں اس وقت تک مقیم رہے جب تک مسجد نبوی اور آپؐ کے اپنے حجرے تعمیر نہیں ہوگئے۔ حضرت ابوایوبؓ اور ان کی اہلیہ حضرت ام ایوبؓ دونوں ہی انتہائی عظیم المرتبت شخصیات تھیں۔ حضرت ابوایوبؓ کے گھر کی دو منزلیں تھیں۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ پر وحی نازل ہوتی ہے اور جبریلؑ آپ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ ہم اگر اوپر ہوں گے تو یہ وحی الٰہی کی بے ادبی ہوجائے گی۔ اس لیے آپؐ اوپر کی منزل میں قیام فرمائیں اور ہم نیچے مقیم رہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں میں نیچے رہوں گا‘ آپؐ اوپر چلے جائیں۔ اس میں کوئی گستاخی اور بے ادبی نہیں‘ پھر فرمایا: میرے لیے نیچے رہنے میں یہ سہولت ہے کہ مجھ سے ملنے کے لیے آنے والے صحابہؓ اور دیگر لوگ آسانی سے آسکیں گے اور میرے لیے بھی ان سے نیچے ملاقات کرنا سہولت کا باعث ہوگا۔ حضرت ابوایوبؓ اور ان کی اہلیہ نے آپؐ کی خاطر مدارات کا حق ادا کردیا۔ اللہ ان کے کھانے میں اتنی برکت دے دیتا تھا کہ بعض اوقات کئی کئی صحابہؓ اس کھانے سے پیٹ بھر لیتے تھے۔ حضرت ابوایوبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ہمارا مٹی کا گھڑا‘ جس میں پانی بھرا ہوا تھا‘ اوپر کی منزل میں ٹوٹ گیا تو ہمیں بڑی فکر لاحق ہوئی کہ پانی چھت کے سوراخوں میں سے نیچے گرے گا اور آپؐ کو تکلیف ہوگی۔ ہم نے گھر میں موجود کپڑوں سے اس پانی کو خشک کیا۔ 
حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر میں آنحضورؐ کے لیے سب سے پہلا کھانا حضرت زیدبن ثابتؓ کی والدہ نے بھجوایا۔ حضرت زید اس وقت بالکل نوخیز بچے تھے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے ثرید تیار کیا‘ جس میں گندم کی روٹی کے ٹکڑے‘ گھی اور دودھ ڈالا گیا تھا۔ جب میں یہ ثرید کا ڈونگا لے کر آنحضورؐ کے پاس حاضر ہوا تو عرض کیا: یارسول اللہ! یہ آپ کی خدمت میں میری والدہ نے بھیجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تیری والدہ کو بھی برکت عطا فرمائے اور تجھے بھی اپنی برکات سے نوازے‘ پھر آپؐ نے اپنے صحابہ کو دعوت دی اور انہوں نے آپؐ کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ میں نے واپس جانے کے لیے جوں ہی دروازہ کھولا تو حضرت سعد بن عبادہؓ کے گھر سے آپؐ کے لیے ثرید اور بھنا ہوا گوشت آپ کی خدمت میں آگیا۔ 
نبی اکرمؐ کا سب سے پسندیدہ کھانا ثرید تھا۔ حضرت ابوایوبؓ کے گھر سعد بن عبادہؓ کے علاوہ اسعد بن زرارہؓ بھی ہر رات کو کھانا بھیجا کرتے تھے۔ ان کا یہ معمول آنحضورؐ کے اہل وعیال کی مدینہ آمد اور حجروں کی تعمیر کے بعد بھی جاری رہا۔ وہ وقتاً فوقتاً آنحضورؐ کے پسندیدہ کھانے آپؐ کے گھر بھیجتے رہتے تھے۔ ان کھانوں میں روٹی‘ دودھ‘ گھی‘ شہد‘ زیتون اور سرکہ ہوا کرتا تھا۔ (السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۲‘ ص۱۱۱-۱۱۲)۔ 
انصارِ مدینہ مزاج شناسانِ رسول تھے۔ آپ ؐکے پسندیدہ کھانے ہر صاحب ِ حیثیت صحابی کے گھر سے وافر مقدار میں آپؐ کی خدمت میں بھیجے جاتے اور تمام شرکا بھی اس ضیافت سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ حضرت زیدبن ثابتؓ کو آپؐ نے برکت کی دعا دی‘ جس کے اثرات صحابہ کرام زندگی بھر محسوس کرتے رہے۔ حضرت زیدؓان انصاری بچوں میں سے تھے ‘جن کو اسیران بدر کے ذریعے لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلائی گئی۔ نبی اکرمؐ نے ان کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے فرمایا: زید! عبرانی زبان سیکھو۔ یہ یہودیوں کی زبان تھی اور یہودیوں کے فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے اس زبان کا جاننا ضروری تھا۔ حضرت زیدؓ نے اس زبان میں مہارت حاصل کی۔ علامہ ابن کثیر کے مطابق ‘انہوں نے پندرہ دن میں یہ زبان سیکھ لی‘ جو ان کے کمالِ ذہانت کا ثبوت ہے۔ صحیحین میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ آنحضورؐ نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے فرائض کو سب سے زیادہ جاننے والا زید بن ثابت ہے۔ اس حدیث میں آنحضورؐ نے دیگر صحابہ کے مناقب بھی بیان کیے ہیں۔ حدیث کا پورا متن یہ ہے: ارحم امتی بامتی ابوبکر‘ واشدہم فی دین اللّٰہ عمر‘ اصدقہم حیاء عثمان‘ واقضاہم علی بن ابی طالب‘ واعلمہم بالحلال والحرام معاذ بن جبل‘ واعلمہم بالفرائض زید بن ثابت‘ ولکل امۃ امین‘ وامین ہذہ الامۃ ابوعبیدۃ بن الجراح۔ (جامع الترمذی‘ حدیث۳۷۹۰)
میری امت کے تمام لوگوں میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان اور رحیم ابوبکرؓ ہیں‘ دین کے معاملات (اورحدوداللہ) کے بارے میں سب سے مضبوط عمرؓ ہیں‘ حیا کے شعبے میں سب سے زیادہ بلند پایہ عثمانؓ ہیں‘ سب سے بہترین فیصلہ صادر کرنے والے علیؓ ہیں۔ حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذبن جبلؓ ہیں۔ فرائض کے باب میں سب سے زیادہ ثقہ زید بن ثابتؓ ہیں۔ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور (میری) اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراحؓ ہیں۔ حضرت زید بن ثابتؓ قرآن کے حافظ اور عالم تھے۔ جب قرآن پاک کو ایک کتاب کی صورت میں مدوّن کرنے کا فیصلہ ہوا تو خلیفۂ رسولؐ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انہیں یہ کام کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا: اے خلیفۂ رسول! اگر آپ مجھے احد پہاڑ کو کھود کر دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ اس کام سے آسان ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں زید! تمہی کو یہ کام کرنا ہے۔ حضرت زیدؓ نے یہ اہم اور کٹھن ذمہ داری اس خوبی کے ساتھ نبھائی کہ سب صحابہؓ اش اش کر اُٹھے۔ ایک مصحف کی صورت میں کتاب مقدس کو جمع کرنے اور لکھنے کے اس کام میں حضرت زید نے دیگر صحابہ سے بھی مدد لی‘ مگر بنیادی طور پر یہ انہی کا کارنامہ ہے۔ یہ قیامت تک ان کے حق میں صدقہ جاریہ ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۱۱۱۴-۱۱۱۵)۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ انصار میں سے ہر شخص خوبیوں کا مرقع تھا۔ ان کی مہمان نوازی اور دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دینے کا تذکرہ تو خود قرآن نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(اور وہ مال فَے ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جوان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں ‘جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے‘ اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں‘ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے ہیں ‘وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الحشر۵۹:۹)۔
نبی رحمتؐ نے انصار کے بڑے مناقب بیان فرمائے ہیں‘ اگر ان کا تذکرہ کیا جائے تو پوری کتاب بن جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ابوالقاسم ؐنے ارشاد فرمایا: اگر سب لوگ مختلف گھاٹیوں اور وادیوں میں چلنے لگیںتو میں اس وادی یا گھاٹی کو اختیار کروں گا‘ جس میں انصار چل رہے ہوں گے۔ ایک حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: میں اس کے ساتھ صلح کروں گا‘ جس کے ساتھ انصار کی صلح ہوگی اور اس کے ساتھ جنگ کروں گا ‘جس کے ساتھ انصار جنگ کریں گے۔ (صحیح بخاری الجزء الخامس‘ ص۳۹-۴۰)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved