صحافت کے اساتذہ کہتے ہیں کہ صحافی ہونا آسان نہیں‘ تاہم میں کہتی ہوں کہ خاتون صحافی ہونا بالکل بھی آسان نہیں۔ہمارے معاشرے میں خواتین کو اپنا آپ منوانے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے؛پروفیشنل کیرئیر کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھانا پڑتی ہیں‘ انہیں آفس کے کام اور گھرکے کام میں کوئی رعایت نہیں ملتی ہے۔ شعبۂ صحافت میں خواتین پوری لگن اور محنت سے کام کررہی ہیں اور بطورِ اینکر‘نیوز کاسٹر‘پروڈیوسر‘این ایل ای ایڈیٹر‘رپورٹر‘انجینئر ‘کیمرہ پرسن ‘ایڈیٹر‘کالم نگار‘اسائمنٹ ہیڈ‘ایچ آر ہیڈ ‘ میڈیا منیجرز‘میک اپ آرٹسٹ‘ٹائپسٹ‘سکرپٹ رائٹر اور دیگر بہت سے میڈیا کے شعبوں میں کام کررہی ہیں۔میں نے 2008 ء میں جب الیکٹرانک میڈیا جوائن کیا تو اس وقت چند خواتین رپورٹرز ترقی کرکے اینکرز بن چکی تھیں ۔انہیں دیکھ کراچھا لگتا تھا کہ مردوں کے ساتھ خواتین بھی اب پرائم ٹائم کا حصہ ہیں۔میں پہلے جس ادارے کے ساتھ منسلک تھی ‘ وہاں ایک کو لیگ کو کڑی محنت کرتے دیکھا۔ وہ سنگل مدر ہونے کے ناتے اکثر اپنے دونوں بچے بھی ساتھ لائی ہوتی تھی۔ ان کا ایک پاؤں سٹوڈیو میں‘ ایک ایم سی آر میں ہوتا تھا۔وہ بیک وقت ایک ماں‘ اینکر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر کے فرائض انجام دے رہی ہوتی تھی‘اسی طرح جب میں نے دوسرے ادارے میں کام شروع کیا‘ وہاں اسائنمنٹ ڈیسک‘ پروڈکشن‘ رپورٹنگ میں کل ملا کر سات لڑکیاں تھیں‘ہم سب ہی ایک دوسرے کے ساتھ کام میں تعاون کرتیں؛ چونکہ میں سب سے چھوٹی تھی تو مجھے سب سے خصوصی شفقت ملتی۔میں نے اپنی تعلیم بھی دوران ِکیرئیر مکمل کی اور میرے سینئرز نے مجھے اس بات پر اکثر سراہا کہ دو کام ایک ساتھ کرنا مشکل ہوتاہے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ فی میل رپورٹرز شادی کے بعد میڈیاکو خیر باد کہہ دیتی ہیں تو کچھ گھر اور کیرئیر دونوں کو خوش اسلوبی سے نبھاتی ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ آج سے دس سال پہلے نئی آنے والی خواتین رپورٹرز کو بڑی بیٹ(Beat) نہیں دی جاتی تھیں۔ اب‘ کھیل ہو یا سیاست‘ دفاع ہو یا وار رپورٹنگ‘صحت ہو یا معیشت کی بیٹ خواتین صحافی مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔بہت سے ادارے خواتین اور مردوں کو یکساں مواقع دیتے ہیں اور ان میں صنفی امتیاز نہیں کرتے۔ ان کو سیلری پیکیج بھی اچھے ملتے ہیں۔خواتین کو پک اینڈ ڈراپ بھی دیا جاتا ہے۔ان کی گھریلو ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے رات دیر تک ان کی ڈیوٹیاں نہیں لگائی جاتیں۔میں خود اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ روزنامہ ''دنیا‘‘ نے مجھے ادارتی صفحہ پر جگہ دی اور پاکستان کے بڑے بڑے کالم نویسوں کے ساتھ میرا کالم بھی شائع ہوتا ہے۔
فیلڈ میں بھی خواتین صحافی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں‘ کبھی ان کی شکل پر لوگ جملے کستے ہیں‘ کبھی ان کے گرد ہجوم بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔کچھ جگہوں پر ان کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے‘ تاہم وہ بہادری سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔خواتین صحافی کام کی جگہ کے علاوہ اب آن لائن سوشل میڈیا پر بھی مشکلات کا سامنا کررہی ہیں۔صبح گھر کے کام کاج کرکے آفس آنااور سارا دن وہاں کام کرکے جب فراغت میں خواتین صحافی اپناکام پوسٹ کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا رخ کرتی ہیں‘ تو وہاں مشکلات کی الگ دنیا ان کیلئے موجود ہوتی ہے۔سوشل میڈیا ٹرولز ان کی کردار کشی کیلئے جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں اور ان کاسوشل میڈیا پر بات کرنا اور سوشل میڈیا کو یوز کرنا مشکل بنادیتے ہیں۔کچھ خواتین صحافیوں نے عارضی طور پر اپنے ٹویٹر اور فیس بک بند کردیئے ہیں‘ تاکہ وہ یکسوئی سے اپنے کام پر توجہ دے سکیں۔ٹرولز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ خواتین صحافیوں کی تصویریں فوٹو شاپ کرکے پھیلائی جائیں اور ان کے کردار کو متنازع بنایا جائے‘ تاکہ وہ سیاسی جماعتوں اور اداروں پر مثبت تنقید نہ کرسکیں‘بلاگرز‘ پروڈیوسرز‘ اینکرز‘رپورٹرز‘ کالم نگار‘فوٹوگرافرز خواتین اپنے کام کی بناء پر ٹویٹر‘ فیس بک ‘یوٹیوب اور انسٹاگرام کا استعمال کرتی ہیں‘تاہم شر پسند عناصر کی کوشش ہوتی ہے کہ صحافی خواتین کو بددل کیا جائے اور وہ اپنے فرائض انجام نہ دے پائیں۔خواتین اینکرز صحافیوں اور بلاگرز کے کام پر تنقید کے ساتھ ساتھ ان پر ذاتی نوعیت کے حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ان کو مختلف پارٹیوں کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس پر باقاعدہ ٹرولز ٹیمیں کام کرتی ہیں‘ جن کے پاس کئی سو جعلی اکاونٹس موجود ہوتے ہیں۔خواتین صحافیوں کو چاہیے کہ ایسے اکاونٹس کو بلاک اور ان کی رپورٹ کریں‘تاہم اگر ان کو جان سے مارنے کی دھمکی آئے‘ تو اس کو سائبر کرائمز ونگ میں ضرور رپورٹ کیا کریں‘ کیونکہ یہ نظر انداز کرنے والی بات نہیں۔ہر شعبے کی طرح صحافت میں ایک دوسرے کے موقف کو برداشت کرناچاہیے۔ پولیٹیکل پارٹیز کو رواداری اور برداشت کا کلچر عام کرنا ہوگا۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو آزادی رائے کی اجازت بھی دیتا ہے‘ مگر کبھی کبھی رائے‘ اگر پریشر گروپس یا مافیاز کے منافی ہو تو خواتین صحافیوں کیلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ مگر ہمارے ہاں‘ کیونکہ سزا کا عمل موثر نہیں ‘ قوانین ہیں تو سہی ‘لیکن یہ نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ کوئی بھی خوار نہیں ہونا چاہتا۔
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر بحث کی آزادی ختم ہوتی جارہی ہے۔لوگ اپنے سیاسی موقف کی بناء پر اختلاف کرنیوالے کو دھمکیاں دینے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔میں خود ٹویٹر‘فیس بک انسٹاگرام اور یوٹیوب کا استعمال کرتی ہوں‘ لہٰذا میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ٹرولز اور فیک اکاونٹس کی بڑی تعداد موجود ہے‘ جنہیں میں بلاک کردیتی ہوں‘تاہم ان تمام تر مشکلات کے باوجود خواتین صحافی سچ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ تمام خواتین صحافت کی روشن کرنیں ہیں۔