بارہویں پارے کے مضامین
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے ‘وہ اُس کے قیام کی جگہ (اس سے مراد باپ کی پُشت یا ماں کا رَحم یا زمین پر جائے سکونت ہے)اورسپردگی کی جگہ(اس سے مراد مکان یا قبرہے )‘سب کچھ روشن کتاب میں مذکور ہے‘ مزید فرمایا: تخلیق ِکائنات کا مقصد انسان کے خیر وشَر کی آزمائش ہے ‘پھر انسان کی خودغرضی کوبیان فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی نعمت عطاکرے ‘تو اُس پر شکر گزار نہیں ہوتا‘لیکن نعمت چھن جانے پر نااُمید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مصیبت کے بعد کوئی نعمت ملے ‘تو انسان اتراتاہے اور شیخی بگھارتاہے؛ البتہ جو ہرحال میں صابر وشاکر رہیں اور عمل ِ صالح کریں تو اُن کیلئے بخشش اوربڑااجر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی تسلی کیلئے فرمایاکہ کُفّار طرح طرح کی فرمائشیں کرتے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل کیاگیا‘ آپ کی تائید کیلئے فرشتہ کیوں نہ اُترا ‘ آپ اس پر تنگ دل نہ ہوں ‘آپ کا کام تو صرف لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا ہے ۔اس سورت میں بھی قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کرنے والوں کو چیلنج دیاگیاکہ اپنے تمام حامیوں کو ملاکر اس جیسی دس سورتیں بنالاؤ۔آیت 23میں بتایاکہ جو ایمان لائے اورجنہوں نے نیک کام کئے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کی ‘تویہ لوگ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ۔ آیت 25 سے پھر نوح علیہ السلام اور اُن کی قوم کے حالات بیان ہوئے۔ نوح علیہ السلام کو حکم ہواکہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنایئے۔ وہ کشتی بنانے لگے ‘جب اُن کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے تو اُن کا مذاق اُڑاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ہمارا حکم ِ عذاب آپہنچا اور تندور ابلنے لگا ‘ تو ہم نے نوح علیہ السلام سے کہا : آپ خود اپنے گھروالوں کے ساتھ اس کشتی میں سوار ہوجائیں اور اہلِ ایمان کو بھی سوار کرلیں اور ہرچیز کے جوڑے (یعنی نَر ومادہ)کو سوار کرلیں اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ کشتی اُنہیں پہاڑ جیسی موجوں میں لئے جارہی تھی کہ نوح علیہ السلام نے الگ کھڑے اپنے بیٹے سے کہا : اے بیٹے! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو ۔اُس (پسر ِ نوح کنعان)نے کہا: میں کسی پہاڑ کی پناہ میں آجاؤں گا ‘جو مجھے پانی سے بچالے گا‘ نوح علیہ السلام نے کہا: آج اللہ کے حکم کے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔ سوائے‘ اُس کے جس پر اللہ رحم فرمائے‘ پھر اُن دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوب گیا۔ اللہ کی طرف سے حکم ہو ا: اے زمین اپناپانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک ہوگیا ‘اللہ کا فیصلہ نافذ ہوگیا اور کشتی کوہِ جودی پر ٹھہر ی‘ پھر طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد وہ سلامتی کے ساتھ اُتر گئے ۔آیت 50 سے قومِ عاد کا ذکر ہے کہ اُن کی طرف دعوتِ توحید دینے کے لئے حضرت ہود علیہ السلام کو بھیجا ۔قومِ عاد نے دعوتِ حق کو رَد کردیا۔ قوم عاد نے اللہ کی نشانیوں اور رسولوں کو جھٹلایا اور دنیاو آخرت میں لعنت کے حقدار قرارپائے ۔آیت 61 سے حضرت صالح علیہ السلام اوراُن کی قوم ثمود کے حالات کو بیان کیاگیا ۔صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاکہ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے اِسے چرنے کیلئے آزاد چھوڑو‘اسے تکلیف نہ پہنچاؤ ‘ورنہ تمہیں عذاب پہنچے گا ‘اُنہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں‘ پھر ایک چنگھاڑ نے اُن کو آدبوچا اور وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے رہ گئے۔ آیت 69 سے اس بات کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے بشری شکل میں آئے اور اُنہیں بیٹے کی بشارت دی۔ اللہ فرماتاہے کہ بیٹے کی بشارت سن کر ابراہیم علیہ السلام کا خوف دُور ہوگیا اور وہ قومِ لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایاکہ اے ابراہیم ! اس عرضداشت سے گریز اں رہیں کہ اس کا یقینی فیصلہ ہوچکاہے اور ان پرنہ ٹلنے والا عذاب نازل ہوکررہے گا ۔آیت 77 سے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم (اہلِ سدوم)کی بداَعمالیوں اورحضرت لوط علیہ السلام کے اپنی قوم کی بداَعمالیوں کے باعث فرشتوں کی آمد پر مضطرب ہونے کا ذکر ہے۔ جب اللہ کا عذاب آیا تو اُس نے بستی کے اوپر کے حصے کو نیچے کردیا اور قومِ لوط کے اوپراللہ کی طرف سے لگاتارنشان زدہ پتھر برسائے گئے۔آیت 84 سے حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم اہلِ مَدیَن اور اُن کے جرائم کو بیان کیا گیا‘جب اہلِ مَدیَن پر حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتوں کا اثر نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بھی عذاب سے ہلاک فرمادیا۔ حضرت شعیب اور اُن پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا گیا اور ظالموں کو ایک زبردست چنگھاڑ نے پکڑلیا ۔ آیت 123میں فرمایا:آسمانوں اور زمینوں کے سب غیب اللہ ہی کے ساتھ مختص ہیں ‘ہرکام اُسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ آپ اُسی کی عبادت کیجئے ‘اُسی پر توکل کیجئے اور آپ کا رب لوگوں کے اَعمال سے غافل نہیں ۔
سورۂ یوسف
جیساکہ نام سے ظاہر ہے ‘اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہے اور قدرِ تفصیل کے ساتھ ہے ۔قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کو ''حسین ترین قصہ‘‘ قرار دیاہے۔ سب سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکرہے‘ اُنہوں نے دیکھا: ''سورج ‘چانداور گیارہ ستارے اُن کو سجدہ کررہے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے اپنا یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیان کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُنہیں یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے باہمی مشورے سے ایک سازش کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کو اُن کے والد سے جدا کردیااور ایک گہرے کنویں میں ڈال دیا۔ بالآخر تکالیف اور مصائب کے بعد آپ غلام کی حیثیت سے عزیزِ مصر کے دربار میں پہنچے۔ عزیزِ مصر نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو عزت سے رکھو‘اسے ہم اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں ۔جب یوسف علیہ السلام پُختہ عمر کو پہنچے تو عزیز ِ مصر کی بیوی نے (جس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے) اپنے گھر میں دروازے بندکرکے اُنہیں دعوتِ گناہ دی ۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنے مُربّی کی احسان کُشی نہیں کرسکتا۔ یوسف علیہ السلام دروازے کی طرف دوڑے اور پیچھے سے عزیزِ مصر کی بیوی نے اُن کی قمیص پکڑی‘ جو پھٹ گئی ۔ اسی اثنا میں اُس کا شوہر سامنے آیا اور عزیزِ مصر کی بیوی نے ساراالزام یوسف علیہ السلام پر لگادیا اور وہ قید کر دیئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اُس عورت نے اُن سے (گناہ کا)قصد کیا اور اُنہوں نے اُس سے بچنے کا قصد کیا ؛اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے (تومعاذاللہ )گناہ میں مبتلا ہوجاتے۔ جب یہ چرچا ہواکہ عزیزِ مصر کی بیوی ایک نوجوان غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے ‘تو عورتوں نے اُس پر طعن کیا اور کہا: کہاں تیر ا مَنصب اور کہاں ایک زَر خرید غلام؟چنانچہ عزیزِ مصر کی بیوی نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اُن عورتوں کو بلاکر اُن کے ہاتھوں میں پھل کاٹنے کیلئے چھریاں پکڑادیں اور اچانک اُن کے سامنے یوسف علیہ السلام کو پردے سے باہر لے آئی ‘ جب اُن عورتوں کی نظرحضرت یوسف علیہ السلام پر پڑی ‘تو حسنِ یوسف نے اُن کے ہوش اُڑادیئے ‘ اُنہوں نے پھلوں کی بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہا : حاشاللہ یہ بشر نہیں‘ یہ تو کوئی مُعزز فرشتہ ہے ‘پھر عزیزِ مصر کی بیوی نے کہا کہ یہی تو وہ پیکرِ جمال ہے ‘جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ یوسف علیہ السلام نے کہاکہ اے پروردگار !گناہ میں مبتلاہونے سے قید کی مُشقت میرے لئے بہتر ہے اور تیرے ہی کرم سے مجھے اس عورتوں کی سازش سے نجات ملی ‘پھر جب حضرت یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈال دیاگیا تو اللہ کا کرنا ایساہواکہ اُن کے دوقیدی ساتھیوں نے اُن کے سامنے اپنا اپنا خواب بیان کیا ۔آپ نے اُن کے خوابوں کی یہ تعبیر بتائی : ایک سے کہاکہ تم دربارمیں پہنچوگے اور اپنے آقاکو شراب پلاؤ گے اور دوسرے کو بتایاکہ تمہیں سولی دی جائے گی اورپرندے تمہاراگوشت نوچ کر کھائیں گے اور بالآخر ایساہی ہوا۔ آپ نے دونوں کو دعوتِ توحید دی ‘پھربادشاہ نے ایک خواب دیکھاکہ سات تندرست گائیں ‘سات دُبلی گائیوں کو کھارہی ہیں اور فصل کے سات خوشے سرسبزہیں اور سات خشک۔ بادشاہ نے اپنے درباریوںسے خواب کی تعبیر پوچھی ‘لیکن وہ نہ بتا سکے‘ پھر یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھی کے ذریعے جو اب بادشاہ کا ساتھی بن چکاتھا‘ یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر میں مہارت کا علم ہوا؛چنانچہ آپ سے رجوع کیاگیا ۔آپ نے تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تم پر سرسبزی اور شادابی کے آئیں گے اور پھر سات سال قحط سالی کے آئیں گے۔ تمہیں چاہیے کہ آبادی کے سات برسوں میں فاضل پیداوار کو خوشوں میں ہی محفوظ رکھنا‘تاکہ خشک سالی میں تمہارے کام آئے ۔