کہتے ہیں کچھ لوگ شہابِ ثاقب کی طرح ہوتے ہیں‘ ان کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن ان کے افکار کی روشنی مدتوں ذہنوں کے افق اجالتی رہتی ہے۔علی شریعتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ان دنوں یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سمسٹر بریک تھی اس دوران ہاسٹل تقریباًخالی ہو جاتا تھا ۔مانچسٹر میں میرا ایک ہی دوست تھا‘ پروفیسر راج‘ جس کے ہمراہ میرا زیادہ وقت گزرتا تھا ۔وہ سوشیالوجی کا پروفیسر تھا اور سوشل تھیوری اس کا پسندیدہ موضوع تھا‘ یہی ہماری دوستی کی بنیاد تھی۔ اُس کا تعلق ساؤتھ انڈیا سے تھا‘ لیکن اب اس نے مانچسٹر ہی کو ہمیشہ کے لیے ٹھکانہ بنا لیا تھا جہاں اس نے دو کمروں کا چھوٹا سا گھر کرائے پر لے رکھا تھاجو فرنیچر کے بجائے کتابوں سے آباد تھا ۔میں ان دنوں برٹش کونسل کے سکالرشپ پر انگریزی میں ایم اے کر رہا تھا اورسوشیالوجی سے میری دلچسپی کو راج نے بڑھا دیا تھا ۔اکثر شام کو مانچسٹر کے وٹ ورتھ پارک میں سیر کرتے ہوئے ہم مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے‘ بلکہ سچ تو یوں ہے کہ زیادہ وقت راج گفتگو کرتا اور میں اس کی گفتگو کو سنتا رہتا ۔اب ان دنوں کی یاد آتی ہے تو مجھے مانچسٹر کی شامیں یاد آ جا تی ہیں اور پھر وٹ ورتھ پارک میں پروفیسر راج کی باتیں جن کا موضوع اکثر معاشرہ ہوتا کہ معاشرے کس طرح نمو پاتے ہیں؟ معاشرے میں تبدیلی کیسے آتی ہے ؟ سماجی برتاؤ سے کیا مراد ہے ؟ معاشرے میں طاقت کا تصور کیا ہے؟ سماجی انقلاب کیسے آتے ہیں؟ جدیدیت کسے کہتے ہیں؟ مثالی معاشرت کا تصور کیا ہے؟ سماجی ادارے کیسے خیالات اور تصورات کی پرورش کرتے ہیں؟ فرد اور معاشرے کا کیا تعلق ہے؟ کیسے کیسے موضوعات تھے جو ہماری گفتگو کا محور ہوتے ۔ان دنوں میرا دل تو سوشل تھیوری میں اٹکا رہتا تھا‘ جس میں کتابوں سے زیادہ راج کی محفلوں کا اثر تھا‘ یہیں میں پہلی بار راج کی بدولت فوکو (Foucault)کے نام سے آشنا ہوا ۔ جب راج نے اپنے گھر کی چھوٹی سی لائبریری سے فوکو کی کتاب Discipline and Punish مجھے پڑھنے کے لیے دی تھی جس کے مطابق سزا کا قدیم تصور ‘جس کا مرکز طبعی جسم ہوا کرتا تھا‘ اب بدل گیا ہے اور دورِ حاضر کے انسان کے ٹارچر کا تعلق جسم سے زیادہ ذہن کے ساتھ ہے۔ اب میں اکثر سوچتا ہوں کاش میں ان دنوں کی ڈائری لکھتا رہتاجس میں راج کی گفتگو ہوتی۔ میر ا ایک سال کا ایم اے ختم ہو رہا تھا‘مانچسٹر چھوڑنے کا وقت آ رہا تھا ۔راج سے آخری ملاقات میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی وہ بول رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اب شاید یہ گفتگو میں کبھی نہ سُن سکوں گا۔اُس روز راج نے مجھ سے پوچھا ''تم نے علی شریعتی کا نام سُنا ہے؟ ‘‘ پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی کہنے لگا تم واپس اپنے وطن جاؤ گے تو کتابوں سے دوستی مت چھوڑنا اور وقت ملے تو علی شریعتی کے بارے میں پڑھنا۔
پاکستان واپس آکر میں کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔ایک روز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں شیلف پر پڑی کتابیں دیکھ رہا تھا کہ ایک کتاب دیکھ کر رُک گیا‘ یہ کتاب علامہ اقبال کے بارے میں تھی اور مصنف کا نام علی شریعتی تھا۔اچانک میرے ذہن میں پروفیسر راج سے آخری ملاقات کا منظر روشن ہو گیا‘جس میں اس نے علی شریعتی کا ذکر کیا تھا۔اس شام میں علی شریعتی کو جاننے کے سفر پر نکلا تو حیرتوں کے در کھلتے گئے۔ علی شریعتی کی تحریروں کو انقلابِ ایران کا والٹئر (Voltaire)کہا جاتا ہے ۔وہ 1933ء میں پیدا ہواتھا‘ اس کے والدایک عالمِ دین اور استاد تھے ‘ بیٹے نے بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے استاد بننے کا فیصلہ کیا۔تربیتِ اساتذہ کے کالج میں قیام کے دوران علی شریعتی نے طبقاتی فرق کو بہت قریب سے دیکھا ۔وہ اکثر سوچا کرتا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک ہی معاشرے میں کچھ لوگ انتہائی ثروت مند اور کچھ بہت مفلس ہوتے ہیں۔طبقاتی فرق کا یہ ابتدائی مشاہدہ آخر دم تک علی شریعتی کی انقلابی سوچ کی بنیاد رہا۔وہ اسلامی ممالک کے معاشروں کے مسائل کو ایک نئے رُخ سے دیکھ رہا تھاجس میں مذہب‘فلسفہ اور عمرانیات کے زاویے اس کی رہنمائی کر رہے تھے۔اس کی سیمابی طبیعت میں قرار نہیں تھا ۔ایک طرف وہ مارکس اور فرائڈ کا مطالعہ کر رہا تھا‘ دوسری طرف علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی کی تعلیمات سے متاثر تھا ۔وہ نظریے کو عمل میں ڈھلتا دیکھنا چاہتا تھا۔1952ء میں جب وہ ہائی سکول میں استاد مقرر ہوا تو اس نے اسلامک سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی ۔اگلے ہی سال حکومت کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے پر اُسے گرفتار کر لیا گیا۔یہ وہی وقت تھا جب ایرانی وزیرِاعظم محمد مصدق کو برطرف کر دیا گیا تھا۔یہ علی شریعتی کی پہلی گرفتاری تھی جس نے اس کے ارادوں کو اور پختہ کر دیااور وہ نیشنل فرنٹ کا ممبر بن گیا۔اسی دوران میں علی شریعتی نے مشہد یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کر لی۔1957ء میں اسے ایک بار پھر National Resistance Movementکے سولہ ارکان کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔قید سے رہائی کے بعد بھی علی شریعتی متحرک رہا۔1964ء میں علی شریعتی کو پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے پیرس میں داخلہ مل گیا۔پیرس میں قیام کئی حوالوں سے اہم تھا۔یہیں اس کا رابطہ الجیرین نیشنل لبریشن فرنٹ سے ہوا‘یہیں پر اس کا تعارف Frantz Fanonکی تحریروں سے ہوا۔یوں لگتا تھا یہ تحریریں اس کے دل کی دھڑکن بن گئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس نے ان تحریروں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔پیرس میں قیام کے دوران ایک طرف تو اس پر علم کے نئے دریچے کھل رہے تھے اور دوسری طرف اس کے سیاسی شعور کی پرورش ہو رہی تھی۔علی شریعتی دونوں مواقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہا تھا۔یہ جنوری 1961ء کی بات ہے جب کانگو کے مقبول رہنما Patrice Lumumba کو 17جنوری کو قتل کر دیا گیا۔اس روز لوگ اس قتل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ علی شریعتی بھی مظاہرین میں نمایاں تھا۔اس روز گرفتار ہونے والوں میں وہ بھی شامل تھا۔پیرس میں اس ہنگامہ خیز قیام کے دوران 1962ء میں علی شریعتی نے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔اسی دوران اس کی ملاقات معروف فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر سے ہوئی۔پیرس میں زندگی کا ایک متحرک دور گزارنے کے بعد 1964ء میں علی شریعتی نے ایران واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ایران میں ان دنوں رضاشاہ پہلوی کی حکومت تھی‘جس کیلئے علی شریعتی کے انقلابی خیالات قابلِ قبول نہ تھے‘یوں ایران آتے ہی علی شریعتی کو گرفتار کر لیا گیا۔کچھ ہفتوں بعد رہائی ہوئی تو علی شریعتی نے مشہد یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔
علی شریعتی مذہب کے حرکی تصور کے قائل تھے۔وہ مغربی ثقافت اور سیاست کے روایتی تصور کو چیلنج کرتے تھے۔ان کے نزدیک ہماری ثقافت اور پہچان مذہب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ‘اس لیے سرمایہ داری نظام کا مقابلہ مذہب کو ایک طرف رکھ کر نہیں کیا جا سکتا۔مغربی ثقافت کی کڑی تنقید اور اپنی اصل شناخت کی بازیا فت ان کے اور علامہ اقبال کے درمیان قدرِمشترک تھی۔وہ اس مغربی تصور ِجمہوریت کے خلاف تھے جس کی بنیاد ان کے بقول زر‘زور اور تعزیر پر ہے۔جس میں معاشرے کے افراد کو مینج کیا جاتا ہے۔وہ ایک ایسے انقلابی نظام کے داعی تھے جس میں معاشرے کے افراد کی رہنمائی کی جا سکے۔مشہد یونیورسٹی کے کچھ عرصہ بعد تہران کے حسینیہ ارشاد انسٹی ٹیوٹ میں لیکچرز کا آغاز کیا۔علی شریعتی کے ان انقلابی لیکچرز میں لوگ جوق درجوق آنا شروع ہو گئے اور رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا۔اس دفعہ گرفتاری کی مدت ڈیڑھ سال تھی۔آخر علی شریعتی کیلئے ایران میں رہنا ناممکن بنا دیا گیا‘وہ انگلینڈ کے شہر ساؤتھمپٹن چلے گئے جہاں تین ہفتے بعد پراسرار حالات میں ان کی موت واقع ہو گئی‘ اس وقت ان کی عمر صرف تینتالیس برس تھی ۔ان کی وفات کے دو سال بعد جب لوگ ایران کی سڑکوں پر فتح کا جشن منا رہے تھے تو بہت سے ہاتھوں میں علی شریعتی کے مسکراتے ہوئے چہرے والی تصویریں تھیں۔ وہ اپنے محسن کو نہیں بھولے تھے کہ جس کے افکار نے اس انقلاب کا راستہ ہموار کیا تھا۔ کہتے ہیں کچھ لوگ شہابِ ثاقب کی طرح ہوتے ہیں ان کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن ان کے افکار کی روشنی مدتوں ذہنوں کے افق اجالتی رہتی ہے‘علی شریعتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔