تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     06-05-2020

کورونا اور تالا بندی میں رمضان

بھارت میں بھی مسلمان رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں۔ تسلی کی بات یہ ہے کہ کئی مولانا حضرات اور مسلم لیڈروں نے اس پورے مہینہ میں لوگوں سے احتیاط برتنے کی گزارش کی ہے۔ نماز پڑھنے کے لیے مساجد میں اکٹھے ہونے کے بجائے لوگ اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں گے۔ وہ افطار پارٹیاں بھی نہیں کریں گے۔ جیسا رمضان دنیا میں اس بار آیا‘ پہلے کبھی نہیں آیا۔ رمضان کے مہینوں میں مجھے پاکستان‘ افغانستان اور ایران جیسے کئی مسلم ممالک میں رہنے کا موقع ملا ہے‘ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ عبادت تنہائی میں اچھی ہوتی ہے۔ اللہ اور بندے کے بیچ کا رشتہ تنہائی میں بہتر قائم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ افطار کی پارٹیوں میں لوگوں کو میں نے اتنا زیادہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے کہ روزے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا۔ روزے جیسی عبادت ہر انسان کے لیے تیس دن چلتی ہو‘ ایسا میں کسی اور مذہب میں نہیں دیکھا۔ جینیوں کے روزے سب سے مشکل ہوتے ہیں‘ لیکن وہ رمضان کی طرح نہیں ہوتے۔ بھارت کی کئی مسلم تنظیموں نے رمضان المبارک کے دنوں میں تالا بندی جاری رکھنے کی درخواست کی ہے‘ پھر بھی کچھ نادان اور کٹر لوگ اسے نہیں مانیں گے‘ مگر وہ اپنا ہی نقصان کریں گے‘ کورونا ہی پھیلائیں گے۔ اس کا خمیازہ غریب ٹھیلے والے‘ رکشے والے‘ مزدور اور دیہاڑی دار مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر مکہ اورمدینہ جیسی جگہوں پر اتنی احتیاط برتی جا رہی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں برتی جا سکتی؟ رمضان کے دوران زکوٰۃ دینے کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہ کارِ ثواب ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس لاک ڈائون میں کروڑوں غریبوں‘ مزدوروں اور مریضوں کا پیٹ بھرنے سے بڑا ثواب کا کام کیا ہو سکتا ہے؟ ضرورت مند آدمی کسی بھی مذہب‘ کسی بھی ذات یا کسی بھی ملک کا ہو‘ اس کی مدد کرنے سے بڑی کوئی خدا کی عبادت نہیں ہو سکتی۔ سرکار نے دکانیں کھولنے اور دوسرے صوبے کے مزدوروں کو ان کے گھر پہنچانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ صوبائی سرکاریں ان معاملات میں پہل کر رہی ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ اس ہفتے بھارت میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر دکھائی دینے لگیں۔ اگر رمضان المبارک کے دوران مسلمان لمبی چوڑی افطار پارٹیوں سے بچیں اور ان پر خرچ ہونے والے مال کو غریب اور مستحقین لوگوں پر قربان کریں تو کورونا کی لڑائی میں ان کا تعاون دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن جائے گا۔
کورونا کا جلد توڑ پلازما ہے 
جونہی تالا بندی اعلان ہوا گروگرام کے کچھ دوست ڈاکٹروں اور حکیموں نے مجھے طرح طرح کے مشورے دیے۔ کچھ ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سے کہیے کہ وہ پلازما تھراپی کو موقع دیں۔ میں نے کئی وزرائے اعلیٰ سے بات کی‘ لیکن دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی اور مجھ سے کہا کہ میں ابھی ڈاکٹروں کی بیٹھک بلاتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ پلازما کا ٹیسٹ شروع کریں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ابھی تک ساری دنیا کے ڈاکٹر جس کورونا کا توڑ نہیں نکال پائے ہیں‘ اس کا توڑ ہمارے ڈاکٹروں نے نکال لیا ہے۔ دلی کے ڈاکٹروں کی اس کھوج پر انڈین کونسل آف میڈیسن نے بھی اپنی مہر لگا دی ہے۔ کورونا کے مریضوں کو یہ تین سے چار دن میں ٹھیک کر دیتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کو کسی ویکسین یا کونین جیسی گولی کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا‘ لیکن یہ پلازما ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ نہیں دیا جا سکتا‘ کیونکہ یہ ان لوگوں کے خون میں سے نکالا جاتا ہے‘ جو پہلے کورونا کے مریض رہ چکے ہوں اور اب بالکل ٹھیک ہو چکے ہوں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک مریض کا پلازما زیادہ سے زیادہ تین لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ بھارت میں کورونا کے مریض ہزاروں میں ہیں اور ٹھیک ہونے والے مریضوں کی تعداد ایک چوتھائی بھی نہیں ہے اور ان میں سے اپنا پلازما دینے کی شرط آدھے لوگ بھی پوری نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ جو آدمی ایک بار کورونا کے چکر سے بچ نکلا ہے‘ وہ ہسپتال کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ جو ٹھیک ہوئے مریض اپنا پلازما دینے کی پیشکش کر رہے ہیں‘ میں انہیں مبارک دیتا ہوں۔ وہ چھوٹے موٹے فرشتے ہیں۔ وہ بزدل نہیں ہیں۔ ان میں سچی انسانیت ہے‘ کیونکہ یہ پلازما کس کی جان بچائے گا‘ اس کا انہیں کچھ پتا نہیں۔ یہ تو ڈاکٹر طے کریں گے کہ کس کا پلازما کس کو دیا جائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کے دوستوں یا رشتہ داروں کو ہی دیا جائے۔ یہ اور بھی بڑی خوش خبری ہے کہ تبلیغ جماعت میں شامل ہوئے نظام الدین کے تین سو لوگ ٹھیک ہونے کے بعد اپنا پلازما بطور عطیہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا پلازما سبھی کے کام آئے گا‘ وہ چاہے ہندو ہو یا مسلم‘ سکھ یا عیسائی! جب پلازما ذات‘ مذہب‘ زبان‘ رنگ یا نسل میں فرق نہیں کرتا تو ہم انسان ہو کر یہ فرق کیوں کرنے لگتے ہیں؟ ان پلازما دینے والوں کی وجہ سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔ رمضان کے دنوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ثواب کیا ہو سکتا ہے؟ 
کورونا کے دور میں خارجہ پالیسی 
کورونا کے اس دور میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا کیا حال ہے؟ اس میں شک نہیں کہ بھارت کی وفاقی اور صوبائی سرکاریں کورونا سے لڑنے میں جی جان سے جٹی ہوئی ہیں۔ ابھی تک پڑوسی ملکوں کے مقابلے بھارت میں کورونا سب سے زیادہ پھیلا ہے؛حالانکہ مردم شماری کے حساب سے وہ زیادہ نہیں ہے۔ پھر بھی جہاں تک بھارت کی خارجہ پالیسی کا سوال ہے‘ وہ کافی حد تک مثبت اور کامیاب رہی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ پڑوسی سارک اور برکس ممالک کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی نے اجتماعی طور پر گفتگو کی اور ذاتی حیثیت سے ان کے لیڈران سے فون پر بات بھی کی۔ ان ممالک کو کونین کی دوائی بغیر فیس کی بھجوائی اور سارک کے خزانے کے لئے مالی امداد بھی دی۔ نیپال‘ مالدیپ اور کویت میں ہماری فوج کی ڈاکٹر بھی گئے۔ امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کے صدور نے بھارت کا احسان مانا ہے اور کہا ہے کہ ہم بھارت کی جانب سے کی گئی مدد کبھی نہیں بھولیں گے۔ بھارت نے چینی کٹ کو رد کر دیا‘ اس کے باوجود چین کے ساتھ تعلقات نارمل ہیں۔ مودی نے لگ بھگ تین درجن ملکوں کے لیڈروں سے اس بیچ سیدھی بات چیت بھی کی ہے۔ ان ممالک میں امریکہ اور یورپ کے ملک تو ہیں ہی افریقہ‘ مغربی ایشیا اور مغرب کے ملک بھی شامل ہیں۔ تبلیغی جماعت کے معاملے کو لے کر کچھ ملکوں میں بھارت کے خلاف عوامی رائے کو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘ لیکن ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ان کے لیڈروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ کویت سے جاری ہوئے بیان اور ٹویٹس کی جانچ پر معلوم پڑا کہ وہ نقلی تھے۔ وزیر اعظم اور آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ کسی جماعت کی غلطیوں کے سبب ملک کی اقلیتوں کے سر نہیں پھوڑنے چاہئیں۔ میرا اندازہ ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ دوستی کا خیال ہی ہے‘ جس کے سبب مولانا سعد کی ابھی تک گرفتاری نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ بھارت نے چین کے ووہان اور ایران میں پھنسے لوگوں کو واپس لانے کے حوالے سے مستعدی دکھائی ہے۔ میری رائے میں کورونا کے اس دور میں بھارت اربوں کھربوں کمانے کا موقع ضائع کر رہا ہے۔ اگر وہ اپنی ہون کے سامان اور کاڑھے کا پرچار اور تجارت کرتا تو ساری دنیا اس کے قدموں میں پڑ جاتی۔ اس وقت خلیج کے ممالک میں 80 لاکھ بھارتی نژاد لوگ ہیں۔ اکیلے کیرل کے چار لاکھ لوگوں نے گھر واپسی کی درخواست ڈال رکھی ہے۔ ان لوگوں کو مناسب روزگار مل سکے اور بھارت کی اکانومی سنبھل سکے‘ اس کے لیے بھارت سرکار ان سب کمپنیوں کو کھینچنے میں جٹ گئی ہے اور جو چین سے وداع ہو رہی ہیں۔ آئندہ برسوں میں عالمی سیاست میں بھارت کی حیثیت کچھ بڑھنے کا امکان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کورونا کے وقت جو لاک ڈائون ہوا ہے‘ اسے بھارت سرکار کس چابی سے کھولتی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved