تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-05-2013

پہچان

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں ایک عجیب و غریب الزام لگایا ہے کہ خیبر پختون خوا میں یہودی سازش کامیاب ہو چکی ہے اور اگر وہ چاہیں تو چند لمحوں میں اس صوبے کو الجزائر بنا کر رکھ دیں۔ شاید ان کا اشارہ کچھ سال قبل الجزائر میں ہونے والے انتخابی نتائج کے بعد وہاں کی انتہا پسند مذہبی قوتوں کی طرف سے کی جانے والی مسلح بغاوت کی جانب تھا جس کے نتیجے میں کئی ہزار مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مولا نا فضل الرحمان کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں انہوں نے بار بار ہزاروں کے مجمع کے سامنے فتویٰ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ووٹ دینا حرام ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس ان تقاریر کی سی ڈیز موجود ہیں اور اس کے وضع کردہ وہ قوانین بھی موجود ہیں کہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر ووٹ مانگنا خلاف قانون ہے۔ لیکن سب کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا رہا‘ کسی کو کچھ نظر نہ آیا۔ مولانا فضل الرحمان کے ارشادات گرامی اور ان کی سیا سی طرف داریاں ہمیشہ بڑے اور طاقتور حکمرانوں کے مفاد میں رہی ہیں۔ اس دفعہ شاید انہیں یقین ہو چکا تھا کہ خیبرپختونخوا کے عوام کی سوچ میں تبدیلی آ چکی ہے اور وہاں کے نوجوان کوئی اور فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنے کے باوجود انتخابی نتائج آنے کے بعد انہوں نے بہت کوشش کی کہ جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا لیں لیکن انہیں اس میں نا کامی ہوئی۔ ان کا ایم ایم اے کی طرز پر پانچ جماعتوں کے اتحاد کا منصوبہ جماعت اسلامی کی دُوراندیشی کی وجہ سے پروان نہ چڑھ سکا۔ مولانا کو شاید خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی کامیابی کا دکھ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے کہ اب انہوں نے خونی بغاوت کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ تحریک انصاف اور ملکی اداروں کو ان کے عزائم پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ مولانا پانچ سال تک جنرل مشرف کے ساتھ رہے‘ ان کی طرف سے کی گئی ہر آئینی ترمیم میں با قاعدہ حصہ دار بنے رہے۔ مولانا کو یاد ہو گا کہ جنرل مشرف کی عنایات کی وجہ سے اکرم خان درانی صوبہ سر حد کے وزیراعلیٰ بنے۔ انہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں زمینیں الاٹ کرنے کی فائل اُن تک پہنچی تو وہ فائل کیوں اُن کے پاس رکی رہی؟ اگر انہیں یاد نہیں ہے تو ہم یاد کرائے دیتے ہیں کہ چالیس ایکڑ سے زائد کمرشل اور رہائشی زمین اُن کے وزیر اعلیٰ نے کچھ’’ خاص آدمیوں ‘‘ کے نام کرانے کے بعد اس کا این او سی دیا۔ کہیں مولانا کو یہ ڈر تو نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اُن سے اربوں روپے کی وہ زمین واپس لیتے ہوئے یہ انکوائری بھی کروائے گی کہ یہ زمین کن لوگوں کو الاٹ کی گئی اور کیوں؟ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کا یہ بھی فرما نا تھا کہ مغرب نے اپنی تہذیب پختونوں میں پھیلانے کے لیے تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں اکثریت دلوائی ہے۔ مولانا کی خدمت میں بڑی معذرت سے گزارش ہے کہ آپ کے اپنے دورِ حکومت سمیت آپ کی آنکھوں کے سامنے کتنی حکومتیں آئیں اور گذر گئیں‘ کیا شراب‘ جسم فروشی سمیت دوسری تمام برائیاں آپ کی نظروں سے اوجھل تھیں؟ کیا اس وقت بھی یہ سب برائیاں مغربی تہذیب کا حصہ نہیں تھیں؟ کیا نیٹو سپلائی، امریکی فوجوں کی آمدو رفت اور ہر قسم کے اسلحہ کی فراہمی آپ کے وزیراعلیٰ کی موجودگی میں جاری وساری نہیں رہی؟ جب ایم ایم اے کی تمام جماعتوں سمیت دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے فیصلہ کر لیا کہ جنرل مشرف کو دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے سے روکنے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دیں گے تو آپ نے اس کی مخالفت کیوں کی؟ کیا آپ اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ تمام سیا سی جماعتوں کی مخالفت کے با وجود جنرل مشرف پی پی پی اور آپ کی وجہ سے دوسری بار صدر منتخب ہوئے؟اسے بد قسمتی کہا جائے گا کہ بزعمِ خود دین کے بعض علمبرداروں کے قول و فعل کے تضاد کی وجہ سے نوجوان نسل اور سادہ لوح عوام میں فرقہ وارانہ منافرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور بہت سے لوگ ان سے برگشتہ بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں کامیابی کو مولانا کی طرف سے یہودیت کی کامیابی سے تشبیہ دینے سے نہ جانے کے پی کے کتنے پابند صوم صلوٰۃ مرد و خواتین اور نوجوانوں کی دل آزاری ہوئی ہوگی۔ کیا یہودیت یہ ہے کہ آپ کو اس بار ہزارہ اور پختونوں کی اکثریت نے ووٹ نہیں دیے؟ یہودیت کی طرف داری تو یہ ہے کہ قوم کو فرقوں میں تقسیم کردیا جائے‘ دوسرے فرقے کے لوگوں کو کا فر قرار دے کر ان کے قتل کے فتوے جاری کیے جائیں اور بزرگان دین کے مزارات تباہ کیے جائیں۔ بزرگان دین اور علمائے کرام کا ہمارے ہاں ایک خاص مرتبہ و مقام ہے۔ حقیقی علمائے کرام کی ظاہری پہچان کا سوال اکثر آج کل کے نو جوانوں کے ذہنوں میں اٹھتا رہتا ہے کیونکہ جس طرف نظر دوڑائیں علم کم اور دکانداری زیا دہ نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو ان میں سے چند ایک نے بتایا کہ اگر کوئی شخص اﷲ کے احکامات کی مکمل پیروی کرتے ہوئے رسول اﷲﷺ کی سنت مبارکہ پر دل وجان سے عمل کرے تو اس کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہوگا۔ ایک سچے عالم دین اور مسجد و منبر کے صحیح حقدار کی پہچان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنت رسولؐ کی دل و جان سے پیروی کرنے والا ہو۔ وہ شخص حقیقی معنوں میں عالم دین نہیں ہوسکتا جس کا رہنا سہنا‘ اُٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا سنتِ نبویؐ کے مطابق نہ ہو۔ ہر وہ شخص جو حدیث نبویؐ پر عمل کرے گا اُس کا وجود متناسب ہوگا۔ کھانے کے متعلق رسول پاکؐ کا فرمان واضح ہے کہ بھوک رکھ کر کھانا کھائو‘ پیٹ بھر کر کھانا کھانے کو رسولِ خداﷺ نے نا پسند فرمایا ہے۔ ایک سچے عالم دین کی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولتا ہو اور جھوٹے وعدے نہ کرتا ہو‘ کسی پر جھوٹے الزامات نہ لگاتا ہو‘ اس کی شکل سے انسانیت ٹپکتی ہو اور اس کو دولت کی ہوس نہ ہو۔ اگر وہ دولت مند ہے تو توکل رکھنے والا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved