پاکستان کے گمنام ہیرو عبدالرحمان عرف چاچا عبدو کے نام سے ہماری نئی نسل کم کم ہی واقف ہو گی۔ عبدالرحمان عرف چاچا عبدو ایک ایسا نام ہے‘ جس پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ عبدالرحمان اور مقبول حسین جیسے سپاہی آج ہمارے ساتھ نہیں‘ لیکن ہر اس پاکستانی کے دل میں وہ ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے‘ جو محب وطن ہے اور اپنے وطن کے لئے مر مٹنے کا جذبہ لئے ‘وطن دشمنوں کے خلاف ہر محاذ پر سر بکف ہے۔ سپاہی مقبول حسین نے وطن کی خاطر بھارت کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں پانچ دہائیاں گزار دیں اور طویل عرصے تک بھارتی جبر و تشدد کا بڑے حوصلے کے ساتھ اس طرح مقابلہ کیا کہ اپنی زبان کٹوا لی‘ لیکن پاکستان کے خلاف نعرہ لگانے سے انکار کر دیا۔
عبدالرحمان عرف چاچا عبدو‘ جنہیں ان کے علاقے میں برفانی چیتے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‘ کی شخصیت‘ دلیری اور حب الوطنی کے کارناموں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کے دیس کے ضلع گھانچے کے گاؤں گوما سے تعلق رکھنے والے چاچا عبدو سویلین ہونے کے باوجود دفاع وطن کے لئے اس وقت صف ِ اول میں کھڑے نظر آئے‘ جب 1980ء کی دہائی میں بھارت نے اس نا پاک ارادے کے ساتھ سیاچن کا رخ کیا کہ وہ لداخ کے بعد گلگت بلتستان پر بھی قابض ہو جائے گا۔ بھارتی در اندازی کی خبر سب سے پہلے مقامی لوگوں کو ملی اور انہوں نے پاک فوج کو آگاہ کیا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ سیاچن گلیشئر نو مین لینڈ تھا اور اس تک رسائی کے زمینی راستے تک معلوم نہ تھے۔ چاچا عبدو ایسے مشکل وقت میں سامنے آئے۔ وہ جوانی سے کوہ پیمائی کرتے آئے تھے اور تمام دشوار گزار راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے پاک فوج کے جری جوانوں کو سیاچن کی چوٹیوں تک پہنچانے میں مدد کی۔ غالباً یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سیاچن‘ دریائے سندھ‘ کے ٹو اور ماشابروم کی فلک بوس چوٹیوں پر اگر آج سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے‘ تو اس کے ہیرو چاچا عبدو ہی ہیں۔ گلگت بلتستان کے گائوں گوما کے چاچا عبدو کے نام سے مشہور عبدالرحمان کے انتقال کی خبر سنتے ہی اپنی فوجی سروس میں سیاچن جیسی دنیا کی سب سے خطرناک جنگی محاذ پر خدمات دینے والا ہر فوجی افسر اور جوان اس طرح رو پڑا‘ جیسے ان کا کوئی بہت ہی عزیز دوست یا قریبی رشتہ دار بچھڑ گیا ہو۔ غازی سپاہی مقبول حسین کی طرح چاچا عبدو ایک ایسا مجاہد‘ جانباز اور پاکستان کی مٹی کے ذرے ذرے سے والہانہ پیار کرنے والا شخص تھا کہ جس سے باتیں کرتے ہوئے ایسے لگتا کہ پاکستان اس کے وجود کے ایک ایک ریشے ریشے میں سمایا ہوا ہے‘ جس عقیدت اور محبت سے وہ پاکستان اور فوج کیلئے خدمات پیش کرنے میں پیش پیش رہتا‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ دنیا کے سرد ترین محاذ جنگ پر مشین گنوں کی بارش ہو یا بھاری اور ہلکی توپوں کی شدید گولہ باری‘ ٹینکوں کے گولے ہوں یا گن شپ ہیلی کاپٹرز کی فائرنگ‘ چاچا عبدو وطن کی مٹی کی محبت میں اس طرح مگن ہو جاتا کہ اسے نہ تو اپنی جان اور نہ ہی اپنوں سے بچھڑنے کا ذرہ برابر بھی خیال آتا۔ الغرض سب سے بڑے سویلین اعزاز ستارہ شجاعت سے نوازا جانے والا چاچا عبدو کوئی ماورائی مخلوق نہیں‘ بلکہ گوشت پوست کا ہی ایک انسان تھا‘ جس نے 1982-84ء میں پاکستانی فوج کی کمانڈو یونٹس کی رہنمائی کرتے ہوئے سیاچن کی دشوار گزار اور اونچی نیچی چوٹیوں کو بھارت سے واپس چھیننے میں بھرپور مدد فراہم کی۔ سیاچن کا سرخیل کہلوانے والا اکہرے جسم کا چاچا عبدو‘ جس کی مدد اور رہنمائی نے پاکستانی فوج کو یہ سہولت مہیا کی۔ یہ کوئی لفاظی یا اپنے مضمون کو پر کشش بنانے کیلئے نہیں‘ بلکہ وہ اعتراف ہے‘ جو چاچا عبدو کی ذات سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے منسوب ہو کر رہ گیا ہے‘ جسے کل کو لکھی جانے والی تاریخ کی کتابیں اور ریکارڈ زندہ و جاوید رکھیں گی۔ آج سیاچن پر پاکستان کے قبضے میں بہنے والے دریائوں اور ندیوں کے علاوہ سب سے بڑھ کر K2 جیسی مشہور و معروف چوٹی‘ مشبرم ون‘ ٹو اور تھری چوٹیاں اگر فوج کے شیر دل مجاہدوں کی قربانیوں اور شہادتوں کی مرہونِ منت ہیں تو ساتھ ہی چاچا عبدو کے جذبہ شہادت اور وطن پر مر مٹنے کی تڑپ بھی اس میں شامل ہے۔
عبدالرحمان عرف چاچا عبدو اپنی زندگی کے 80 برس پورے کر کے رب کریم کے پاس جا چکے ہیں‘ لیکن ان کی خدمات سیاچن اور K2 کی بلند ترین چوٹیوں کی صورت میں پاکستان کے نقشے پر جگمگاتی رہیں گی اور پاکستانی قوم ان کی قبر پر عقیدت کی پھول نچھاور کرتی رہے گی۔ قوموں کو اپنی آزادی کی قیمت چکانے کیلئے خون کے دریا عبور کرتے ہوئے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اس خون سے اپنی قربانیوں اور شہادتوں کی داستانیں بیان کرتے سن کر آج اور کل کی نسلیں حوصلہ پاتی ہیں۔ ایسے ہی ترانوں اور نغموں سے قوم کے جوانوں اور بوڑھوں کے خون سرد نہیں ہوتے ان میں جوش و جذبہ برقرار رہتا ہے۔ جب پاکستان کے سر پر بیٹھا ہوا کٹر اور انتہا پسند ہندوئوں پر مشتمل بھارت جیسا مکار راشٹریہ سیوک سنگھ کا انتہا پسند مسلم دشمن نریندر مودی جیسا حکمران ہو‘ جو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے ہر روز کسی نئے ہتھیار کی خریداری میں مصروف رہتا ہے‘ تو یہاں بھی عبدو جیسے محب وطن ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ایسے دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے اﷲ کا شیر بن کر جینا لازمی ہو جاتا ہے۔ دشمن جتنا بھی بڑا ہو‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے قوت ایمانی رکھنے والوں کیلئے اﷲ چاچا عبدو جیسے بہادر بیٹے بھی پیدا کرتا رہتا ہے۔
عبدالرحمان عرف چاچا عبدو کی بے خوفی اور بہادری کی یہ داستان سن کر ہماری نئی نسل کا جذبہ اور مورال بلند اور شعلہ فشاں رہے گا۔ آج کی نئی نسل کا ہیرو چاچا عبدو ہو گا نہ کہ بالی وڈ کی کسی فلم کا ایکٹر۔ عبدالرحمان عرف چاچا عبدو کو حکومت پاکستان نے ان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں بہادری کے سب سے بڑے سویلین اعزاز ستارہ شجاعت سے نواز رکھا ہے۔ چچا عبدو کو بچپن سے کہہ لیں یا ابتدائی لڑکپن سے اونچی اونچی برفانی چوٹیاں اچھلتے کودتے سر کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق بڑھتا گیا۔ چاچا عبدو کی اسی مہارت اور شوق نے ایک دن اسے بہترین مائونٹینئر بنا دیا اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ ایسی ہی ایک مشق کے دوران اس نے سیاچن پر بھارتی فوجیوں کی نقل و حرکت کو نوٹ کیا‘ اسے کچھ حیرانی بھی ہوئی کہ بھارتی فوج یہاں کیا کر رہی ہے؟ لیکن جب اس نے کوشش کر کے چھپتے چھپاتے غور سے ان کا جائزہ لیا تو جو کچھ اس نے دیکھا‘ اس نے اسے حیران کر دیا۔ بھارتی فوجی وہاں مورچے کھودنے میں مصروف تھے۔ یہ مناظر دیکھتے ہی اس کے بدن میں بجلیاں سی دوڑنے لگیں اور اس نے بھاگم بھاگ فوراً سکیورٹی فورسز کو اس کی اطلاع کر دی‘ جنہوں نے اس سے مکمل تفتیش اور سوالات کرنے کے بعد جی ایچ کیو تک اس کی اطلاع کر دی۔بھارت کا یہ شب خون سب کیلئے غیر متوقع تھا‘ کیونکہ سیاچن پاکستانی حصے میں ہونے کے با وجود کئی برسوں سے وہاں کسی بھی فوجی پوسٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ اطلاع پانے کے بعد عبدالرحمان عرف چاچا عبدو پاک فوج کے کمانڈوز کی رہنمائی کرتے ہوئے آگ اور بارود کے دریا میں ایسے کودتا رہا کہ اس کی جانب سے توپوں کو دیئے گئے نشانوں نے دشمن کے مورچوں اور پوسٹوں پر قیامت برپا کر دی‘ جس کی تاب نہ لاتے ہوئے بھارتی فوج بہت سے مورچے اور مضبوطی سے بنائی گئی فوجی پوسٹیں خالی کر کے جان بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگتی رہی۔ چاچا عبدو کی ایک سویلین ہونے کے باوجود سیاچن میں پاک فوج کے ساتھ دشمن سے لڑتے ہوئے بہادری اور شجاعت کی لا تعداد داستانیں ہیں‘ جو مادرِ وطن پر کٹ مرنے والوں کے خون کو گرماتی رہتی ہیں۔ وطن سے محبت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے عبدالرحمان عرف چاچا عبدو نے سیاچن کے مورچوں پر بیٹھ کر پاکستانی فوج کو دشمن کی پوسٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس طرح ٹھیک ٹھیک نشانے لگوائے کہ دشمن اپنی جگہ حیران ہو کر رہ گیا۔ اسے لگا کہ اس کے ارد گرد بیٹھا ہوا کوئی شخص ان کی نشاندہی کرا رہا ہے اور اس کا اعتراف انڈین فوج کے بریگیڈیئر نے بعد میں لکھی گئی اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔
2013ء میں‘ جب سیاچن میں برفانی تودہ گرنے سے گیاری کا دل سوز حادثہ ہوا تو چاچا عبدو نے پاکستانی فوج کی جس طرح جانفشانی سے مدد کی‘ وہ فوجی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور برفانی تودے تلے دبے ہوئے فوجیوں کو نکالنے کیلئے عبدالرحمان عرف چاچا عبدو نے جن جن مقامات کی نشاندہی کی‘ وہ ستر فیصد سے زائد درست اور کامیاب رہی۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا‘ جسے زندہ قومیں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکیں گی۔ وطن کے محافظوں کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کی 80 بہاریں دیکھنے والا عبد الرحمان چار اپریل2017 ء کو قضائے الٰہی سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور سبز اور سفید پرچم میں لپٹا ہوا‘ اس کا جسد خاکی پکار پکار کا اپنے دیکھنے والوں کو یاد کرا رہا تھا کہ دنیا میں وہی زندہ و جاوید رہتے ہیں‘ جن کا خون وطن کی سرحدوں کی آبیاری کرتا ہے۔