تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-05-2020

ہم جانتے ہیں !

دو ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ کورونا وائرس کا عذاب ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہا۔ ایک مصیبت ہے کہ گلے پڑ گئی ہے۔ جو کچھ دنیا نے کیا ہے‘ وہ ہمیں بھی کرنا ہی پڑا ہے۔ لاک ڈاؤن سے ایک دنیا پریشان ہے‘ مگر اس کے چنگل سے نکل نہیں پارہی۔ ہم اب تک گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ لاک ڈاؤن کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی کا فقدان رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ابتدا سے اپنا راستہ بہت حد تک الگ رکھا ہے اور یہ راستہ خاصا ''عوام دوست‘‘ ہے۔ ان کا استدلال یہ رہا ہے کہ کورونا وائرس ایک حقیقت سہی اور اس سے بہ طریقِ احسن نمٹنے سے متعلق اقدامات بھی اپنی جگہ درست‘ مگر لاک ڈاؤن کے نتائج تو پاکستان کیلئے خود کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات سے بھی بڑھ کر ہوں گے۔ عوام سے خطاب اور میڈیا کی سربرآوردہ شخصیات سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے بارہا کہا ہے کہ کورونا وائرس سے موثر طور پر نمٹنے کیلئے لاک ڈاؤن اگر ایک حقیقت ہے تو اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں بچ بھی گئے تو لوگ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی مشکلات سے مر جائیں گے۔ 
بات ایسی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں لوگ شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ بیماری میں مبتلا ہونے یا بیماریوں کے زور پکڑنے کا خوف اپنی جگہ اور لاک ڈاؤن کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات کا خوف اپنی جگہ۔ یوں اہلِ پاکستان کیلئے بھی کورونا نے اچھی خاصی الجھن پیدا کردی ہے۔ وائرس کے پھیلنے کا خوف ایک حقیقت سہی ‘مگر ''اندرونی‘‘ بڑوں کی لڑائی بھی تو بالکل سامنے کی بات ہے۔ لوگ مجبور سہی‘ مگر اتنے سادہ لوح اور بے شعور تو ہرگز نہیں کہ بالکل سامنے کی بات بھی نہ سمجھ سکیں۔ انہیں صاف محسوس ہو رہا ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گنّوں کی شامت آگئی ہے۔ 
ملک سے باہر بھی بڑوں ہی کی لڑائی ہے‘ جو چھوٹوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ ایک وائرس پھیلاکر سو بیماریاں پیدا کردی گئی ہیں۔ ان میں نفسی یا ذہنی عوارض نمایاں ہیں‘ جو خطے معاشی طور پر پہلے ہی دگرگوں حالات سے دوچار تھے‘ اُن کی مشکلات دوچند ہوگئی ہیں۔ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے کا حال بھی بُرا ہی ہے۔ خود امریکا کیلئے بھی الجھنیں بڑھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی پالیسی میکرز سب کچھ روک کر چند معاملات کا جائزہ لینا اور اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے تھے۔ یہ مقصد بہت حد تک حاصل کرلیا گیا ہے۔ 
الغرض دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک دور ختم ہو رہا ہے اور دوسرا شروع ہو رہا ہے۔ دنیا کو چلانے والے کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ کسی کی فلاح و بہبود کے کھاتے میں نہیں۔ ریاستی سطح پر کیے جانے والے فیصلے کسی کی فلاح سے کہیں بڑھ کر چند ایک ''سٹیک ہولڈرز‘‘ کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہوتے ہیں اور بین الریاستی تعلقات میں تو صرف اور صرف زمینی حقائق دیکھے جاتے ہیں۔ حالات بدلتے ہیں تو دوست بھی بدل جاتے ہیں اور دشمن بھی۔ بین الریاستی اور عالمی امور میں دوستی مستقل ہوتی ہے‘ نہ دشمنی اور اب تو دوستی کا لفظ بھی پسند نہیں کیا جاتا‘ سیدھا سیدھا پارٹنرشپ کہا جاتا ہے۔ سیاست کو تو ہٹائیے ایک طرف‘ مغرب نے تو معاشرتی معاملات کو بھی کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ شادی کا ادارہ داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ جیون ساتھی بھی اب محض پارٹنر ہوکر رہ گیا ہے۔ بہر کیف‘ عالمی سیاست الجھ کر رہ گئی ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل تیز اور خاصا بے احساس ہوگیا ہے۔ امریکا اور یورپ عالمی امور پر اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار‘ بلکہ بضد ہیں۔ ایک زمانے سے طرح طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ''بگ گیم‘‘ کے حوالے سے اِتنا کچھ کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اِس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں۔ یہ بھی تو ایک مصیبت ہے کہ لوگ بہت کچھ جانتے ہیں‘ مگر عملی سطح پر ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ‘جس کے ذریعے معاملات درستی کی طرف جائیں۔ اقبالؔ کہہ گئے ہیں کہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہوا کرتی ہے۔ دنیا بھر کی کمزور اقوام کے قائدین اور حساس طبع رکھنے والے سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ نئے عالمی نظام کے حوالے سے جاری جدوجہد جب واقعی شدت اختیار کرے گی‘ تب کیا ہوگا؟
پاکستان کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ امریکا اور یورپ سے ہمارے معاشی اور سٹریٹجک تعلقات سات عشروں پر مشتمل ہیں۔ ان سات عشروں میں ساتھ نبھانے کے نام پر مغربی اقوام بالخصوص امریکا نے جو کچھ کیا ہے ‘اُس نے ہم پر کئی بار قیامت ڈھائی ہے۔ قدرے غیر مشروط انداز سے مطیع و فرماں بردار رہنے پر بھی ہمیں مغرب کے در سے کچھ خاص ملا نہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر ہمیں کئی بار شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کیخلاف ہمیں ''بفر‘‘ درکار ہے‘ مگر یہ بفر مغرب نے کبھی فراہم نہیں کیا۔ ہاں‘ خطے میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کیلئے مغربی اقوام نے ہمیں استعمال کرنے میں کبھی شرمندگی محسوس کی ہے نہ ہچکچاہٹ۔ 
چین‘ روس اور ترکی کی شکل میں ایک نیا بلاک ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ مغرب نے ہمیں اس ممکنہ بلاک کیخلاف استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو (بی آر آئی) کو ناکام بنانے کیلئے امریکا اور یورپ کھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ اس منصوبے کا ایک اہم اور بڑا جُز سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) ہے۔ امریکا اسے بھی ناکام بنانے پر تُلا ہے۔ اس وقت پاکستان کو حقیقی استحکام کی ضرورت ہے ‘مگر سیاست اور معیشت کے حوالے سے حقیقی استحکام کی منزل بہت دور دکھائی دے رہی ہے۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس کی کوکھ سے جنم لینے والے لاک ڈاؤن نے پوری کردی ہے۔ہم ترس رہے ہیں کہ سات عشروں تک جن کی غلامی کی ہے ‘وہ کچھ نوازیں مگر مل کیا رہا ہے؟ عدم استحکام اور قرضے؟ اور قرضے بھی وہ جن کے بھگتان میں عمر لگ جائے۔ پاکستان کو اس وقت بڑے پیمانے پر حقیقی اور خالص مدد کی ضرورت ہے۔؎ 
تسکینِ دل کے واسطے وعدہ تو کیجیے 
ہم جانتے ہیں آپ سے آیا نہ جائے گا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved