تیرہویں پارے کے مضامین
گزشتہ پارے میں تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے شہرت کے سبب بادشاہ ( عزیزِ مصر) نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا ۔آپ نے فرمایاکہ جب تک مجھ پر لگنے والے الزام کی صفائی نہ ہو جائے‘ میں جیل سے باہر نہیں آؤں گا ؛چنانچہ خود عزیزِ مصر کی بیوی کے خاندان سے ایک فردنے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص سینے کی جانب سے پھٹی ہے تویہ قصوروار ہیں اور اگر پُشت کی جانب سے پھٹی ہے ‘تو عورت قصوروار ہے ‘اورآپ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی ‘اس طرح سے آپ کی برأت ثابت ہوئی اورخود عزیزِ مصر کی بیوی نے بھی اعتراف کر لیا کہ یوسف علیہ السلام پاک دامن ہیں اور میں نے ہی اُنہیں دعوتِ گناہ دی تھی ۔حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پاکدامنی ثابت ہونے پر تفاخر کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں اپنے نفس کی برأت کا دعویٰ نہیں کرتا؛ نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے ‘مگر جس پر میرارب رحم فرمائے (اُسے اُس کے نفس کی برائی سے محفوظ فرماتا ہے)بے شک میرا پروردگار بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے ۔پھر بادشاہ نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آج کے بعد آپ ہمارے نزدیک مُقتدر اور امانت دار ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اِس ملک کے خزانوں کا انچارج مقرر کر دیں‘ بے شک میں حفاظت کرنے والا ‘علم والاہوں یعنی اللہ نے مجھے یہ علم عطاکیاہے کہ مال کس سے لیاجائے اور کس کو دیاجائے اور قومی خزانوں کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ پھر جب سارے ملک میں قحط پڑا ‘تو کنعان سے یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی غَلّہ لینے کے لئے آئے۔جب دوسری مرتبہ برادرانِ یوسف حضرت یوسف کے پاس پہنچے تواُن کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین بھی تھے ‘اُنہوں نے اپنے بھائی کو روکنے کی ایک خفیہ تدبیر کی کہ بھائی کے سامان میں شاہی پیالہ رکھ دیا اور اس تدبیر سے اُن کو روک لیا ‘ اُن کو روکنے کی یہی صورت تھی۔برادرانِ یوسف نے پیشکش کی کہ بنیامین کے بجائے ہم میں سے کسی کو روک لیا جائے ‘لیکن ظاہر ہے کہ کسی اور کو روکنا مقصود ہی نہیں تھا ۔ برادرانِ یوسف نے واپسی پریہ واقعہ والد کے سامنے بیان کیا تو اُنہیں ایک بار پھر شدید دکھ ہوا مگر پھر صبرِ جمیل کو اختیار کیا۔ شدّتِ غم سے روتے روتے یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی اور اُنہوں نے کہا: میں اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ سے کرتا ہوں‘ پھر یعقوب علیہ السلام نے برادرانِ یوسف کو یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی تلاش میں بھیجا اوراُن کے مصر پہنچنے پر بالآخر یوسف علیہ السلام نے حقیقتِ حال بھائیوں پر ظاہر کردی‘ وہ شرمسار ہوئے‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا : اللہ نے ہم پر احسان کیاہے اور جو تقوے پر کاربندہواور صبر کرے ‘تو اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ اس موقع پریوسف علیہ السلام نے انتہائی اخلاقی عظمت کاثبوت دیتے ہوئے اپنے بھائیوں کو معاف کردیا ۔ اپنی قمیص اُنہیں عطاکی کہ اس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈالو (اِن شاء اللہ) اُن کی بینائی لوٹ آئے گی اور اپنے سب گھروالوں کو میرے پاس لے آؤ۔ جونہی برادرانِ یوسف مصر سے چلے ‘ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا : مجھے یوسف کی خوشبو محسوس ہورہی ہے۔ الغرض پھر قمیص ِ یوسف ‘حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالتے ہی اُن کی بینائی لوٹ آئی اور اُنہوں نے برادرانِ یوسف کے لئے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کی ‘پھر جب یہ قافلہ مصر میں داخل ہوا‘تو یوسف علیہ السلام نے نہایت اعزاز کے ساتھ اُن کااستقبال کیا اور جب یہ قافلہ شاہی دربار میں پہنچاتو خاندانِ یعقوبی کے تمام لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کی تعظیم کے لئے سجدے میں گرگئے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: اے میرے باپ! یہ میرے اُس پہلے خواب کی تعبیر ہے‘ بے شک میرے رب نے اُس کو سچ کردکھایا اور اُس نے مجھ پر احسان فرمایا ۔
سورۃ الرعد
اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت کو بیان کیاگیاہے ‘اُس کا بغیر ستونوں کے آسمانوں کوبلندی پہ قائم رکھنا‘ سورج اور چاند کو ایک نظم کے تابع کرکے چلانا ‘زمین کا پھیلاؤ اوراُس میں پہاڑوں کو لنگر کی طرح قائم رکھنا ‘دریاؤں کی رَوانی ‘ نظامِ لیل ونہار ‘ طرح طرح کے پھل ‘انگور وں اور کھجوروں کے باغات اور اُمورِ کائنات کی تدبیر وغیرہ ۔پھرفرمایا: اہلِ عقل کے لئے اِس میں نشانیاں ہیں ۔ آیت8 میں فرمایاکہ اللہ ہرمادہ کے حمل اور رحم کے حالات کو جانتاہے اور اُس کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ ہے۔ آگے چل کر فرمایاکہ اللہ تمہیں کبھی ڈرانے کے لئے اور کبھی اُمید دلانے کے لئے بجلی کی چمک دکھاتاہے اور بھاری بادل پیداکرتاہے ۔آیت 13میں رعد کا ذکر ہے۔ اجسامِ فلکی یا بادلوں کی رگڑ سے جو آواز پیداہوتی ہے ‘اُس کو ''رعد‘‘کہتے ہیں اور ایک حدیث کی رُو سے رعد اُس فرشتے کا نام ہے‘ جوبادلوں کو چلانے پر مامور ہے ‘ چنانچہ فرمایاکہ یہ مُعین فرشتہ اُس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتاہے اور باقی فرشتے (بھی) اُس کے خوف سے (حمدوتسبیح) کرتے ہیں۔ آیت15میں فرمایا: آسمانوں اور زمین میں جو بھی چیزہے ‘وہ سب خوشی اور ناخوشی سے اللہ ہی کے لئے سجدہ کررہی ہے‘ یعنی مظاہرِ کائنات میں سے ہرچیز کا قادرِ مُطلق کی جانب سے تفویض کی ہوئی اپنی ڈیوٹی کو انجام دینا ‘یہ اُس کی عبادت ہے ۔ آیت17سے فرمایاکہ آسمان سے برسنے والی بارش کے نتیجے میں ندی ‘نالے جاری ہوتے ہیں‘ پھرسیلاب سے بلبلے والے جھاگ پیداہوتے ہیں ۔آگے چل کر فرمایا: پس رہا جھاگ تو وہ تو(بے فائدہ ہونے کی وجہ سے)زائل ہو جاتا ہے‘ لیکن جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے ‘وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔ آیت18سے بیان فرمایاکہ وہ اہلِ عقل نصیحت حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے عہد کو پوراکرتے ہیں اور پکے عہد کو نہیں توڑتے اور قرابت کے جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیاہے‘ اُنہیں جوڑے رکھتے ہیں ‘ اللہ کی رضاکی طلب میں صابررہتے ہیں‘نماز قائم کرتے ہیں‘ظاہراً اور پوشیدہ طورپر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ‘ برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں‘ اُن کے لئے آخرت کا گھر کتنا پیارا ہے۔ پھر منکرین کے لئے فرمایا کہ عہد شکنی کرتے ہیں ‘قطع رحمی کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپاکرتے ہیں ‘اِن پر لعنت ہے اور ان کا براٹھکانہ ہے۔ آیت 28 میں فرمایاکہ سکونِ قلب کی دولت اللہ کے ذکر سے ہی ملتی ہے‘ مومن نیکوکاروں کے لئے خوشخبری ہے اور بہترین انجام۔آیت 31سے مشرکینِ مکہ کے نارَوَا مطالبات کا ذکر ہوا‘وہ کہتے ہیں کہ کوئی ایساقرآن ہوتاکہ جس سے پہاڑ چل پڑتے‘زمین پھٹ جاتی‘ مردے کلام کرنے لگتے‘ تو اللہ نے فرمایا: یہ سب چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں ‘مسلمان کافروں کی اِن بیہودہ باتوں سے نااُمید نہ ہوں ‘اگر اللہ کی مشیت اِس میں ہوتی کہ سب اِطاعت گزار ہوجائیں ‘تو وہ سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا۔
سورہ ابراہیم
سورۂ ابراہیم کے شروع میں ایک بار پھر قرآن کی حقانیت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت واختیار کاذکر ہوا۔ آیت نمبر4میں یہ بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے ہرقوم کے درمیان جو رسول بھیجا ‘وہ اُنہی کی زبان بولنے والاتھاتاکہ وہ وضاحت کے ساتھ اللہ کے اَحکام کو بیان کرسکے اور لوگوں پر اللہ کی حُجّت قائم ہوجائے۔ آیت18میں بتایا کہ کافروں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے کہ سخت آندھی کے دن تیزہواکا جھونکا آئے اور سب اُڑالے جائے۔ آیت21سے بتایاکہ سب کفار آخرت میں اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے ‘اُن کے کمزور ‘اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ دنیامیں ہم تمہاری پیروی کرتے تھے ‘کیا اب اللہ کے عذاب سے نجات کے لئے تم ہمارے کسی کام آؤگے ‘وہ کہیں گے کہ ہمیں خود کوئی چھڑانے والا نہیں ‘اسی طرح شیطان بھی اپنے پیروکاروں سے اپنا دامن جھاڑ لے گا اور کہے گا کہ تم نے اللہ کے سچے وعدے کو رَد کیا اورمیرے جھوٹے وعدے کو مانا‘سو تم مجھے ملامت نہ کرو ‘بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔اب ‘ہم ایک دوسرے کے کام آنے والے نہیں ۔ آیت 37سے اُس واقعے کاذکر ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کو مکے کی بے آب وگیاہ زمین میں چھوڑ کر آئے‘ تورخصت ہوتے وقت اللہ سے دعاکی : ''اے ہمارے ربّ! (میں نے )اپنی بعض اولاد کوتیری حرمت والے گھر کے نزدیک بے آب وگیاہ وادی میں ٹھہرادیاہے ‘تاکہ وہ نماز کو قائم رکھیں اور لوگوں میں سے بعض کے دلوں کو ان کی طرف مائل فرما اور ان کو پھلوں سے روزی عطافرما۔