28 مئی کو ’’شاخِ نازک پہ آشیانہ‘‘ کا پہلا حصہ شائع ہوا۔ اس میں انتخابی عمل میں ملحوظ رکھی گئی ’’احتیاطوں‘‘کے اثرات اور ممکنہ نتائج کے بارے میں کچھ خیالات ظاہر کئے گئے تھے۔ ان ’’احتیاطوں‘‘کا تکیہ اس امکانی صورتحال پر تھا‘ جو احتیاط کرنے والوں کے خیال میں بہت جلد پیدا کی جا سکتی ہے۔ کالم کے دوسرے حصے میں بتایا گیا تھا کہ نئی حکومت کو کیا مشکلات درپیش ہوں گی اور سرسری جائزہ لیا گیا تھا کہ عوام جو فوری نتائج چاہتے ہیں‘ انہیں حاصل کرنے میں کیا دشواریاں حائل ہیں؟ حالیہ انتخاب میں فتح یاب ہونے والی دونوں جماعتوں کا ایک نکتے پر اتفاق تھا کہ وہ ڈرون حملے بند کرائیں گی۔ بے شک لوڈشیڈنگ کو فوری ختم کرنے کا وعدہ کسی نے نہیں کیا۔ لیکن عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں جتنی تکلیف وہ اٹھا رہے ہیں‘ وہ انہیں ہر صورت میں آمادہ احتجاج رکھے گی۔ اس معاملے پر چپ رہنا‘ ان کے اختیار میں نہیں۔ یہ عذاب گھریلوزندگیوں‘ بچوں کی تعلیم اور مریضوں کے علاج میں تو خلل ڈالتا ہی ہے۔ کارخانوں اور مارکیٹوں میں کام کاج روک کر‘ روزگار کے ذرائع کو بھی مسدود کرتا ہے۔ جب زندگی‘ گھر سے مقامات معاش‘ تک ہر جگہ دشوار کر دی جائے‘ تو ایسے حالات کا شکار انسان نہ سیاسی حمایت کو دیکھتا ہے اور نہ مخالفت کو۔ اسے صرف اپنی تکالیف کا ازالہ مطلوب ہوتا ہے۔ وہ دشمن کی طرف سے بھی ہو جائے‘ تو وہ اس کی تعریف کرے گا اور اس میں بہترین سے بہترین دوست بھی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد مدد نہ کر سکے‘ تو اس کی ساری محبتیںبے کار ہو جاتی ہیں۔ نوازشریف کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو جائے گا۔ آنے والے حکمرانوں کو گزشتہ چند روز میں ہونے والی اس پراپیگنڈہ لائن کو یاد رکھنا چاہیے‘ جس پر بڑے اہتمام کے ساتھ عوام کو ’’معلومات‘‘ فراہم کی گئیں۔ ان معلومات کے تحت لوڈشیڈنگ حکومت کی مجبوری نہیں ۔ پاکستان میں پوری بجلی پیدا کرنے کے ذرائع دستیاب ہیں۔ ہماری ضرورت 15000 میگاواٹ کی ہے جبکہ پاکستان کے اندر تمام پیداواری وسائل کو بروئے کار لایا جائے‘ تو 20000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔لیکن حکومت بجلی کمپنیوں کو ‘ ان کے واجبات ادا نہیں کرتی اور تیل اور گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو پوری قیمت نہیں دیتی۔ ان کمپنیوں کے واجبات‘ گردشی قرضوں کی صورت میں گیلے رسے کی طرح اپنا شکنجہ کستے جا رہے ہیں۔ یہی گردشی قرضے ہیں‘ جن کے سبب پوری بجلی دستیاب نہیں ہوتی بلکہ ہر مہینے بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کے ساتھ حکومتی خریداری کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے اور لوڈشیڈنگ بڑھتی جاتی ہے۔ ایک خیال یہ دیا گیا ہے کہ تقسیم کاری کے نظام میں خرابی ہے۔ ایک دلیل یہ پھیلائی گئی ہے کہ متعلقہ وزارتوں کے اندر ہی ایسے لوگ موجود ہیں‘ جو بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہونے دیتے۔ آنے والی حکومت کے ماہرین کو‘ ان خطوط پر کئے گئے اس پراپیگنڈے کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ یہ گزشتہ چارہفتوں سے اتنی شدت سے کیوں کیا گیا؟ یہ ساری معلومات پہلے بھی موجود تھیں۔ کم از کم میں نے کبھی اتنے اہتمام اور فوکس کے ساتھ‘ انہیں عوام کے سامنے پیش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے پیچھے مجھے جو مقصد کارفرما نظر آ رہا ہے‘ وہ آنے والی حکومت کے استقبال کی تیاری ہے۔ یہ پراپیگنڈہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ نوازشریف کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں جو وہ آتے ہی لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔ تاثر یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں‘ صرف انتظامی صلاحیتوں اور بدنیتی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ نوازشریف کی ٹیم کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ تجربہ کار اور محنتی افراد پر مشتمل ہے۔ نوازشریف ایک اچھے منتظم اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لیڈر ہیں۔ ان کے آنے کے بعد جب لوڈشیڈنگ باقی رہے گی‘ تو نئی حکومت کی ناکامی کا نعرہ آسانی سے مقبول ہو سکتا ہے۔عام طور پر ہر نئی منتخب حکومت کو 100دن کا گریس پیریڈ دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کم از کم ایک سو دن اس حکومت کے بارے میں خوش گمانی برقرار رکھی جائے‘ اسے اپنی منصوبہ بندی اور کام شروع کرنے کے لئے مہلت دی جائے اور تین ماہ کے بعد اس کی کارکردگی کو جانچنے کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ انتخابی عمل کی بنیادوں میں بارود رکھنے والوں اور لوڈشیڈنگ کی وجوہ کے بارے میں ’’معلومات‘‘ فراہم کرنے والوں کی ’’تیاریوں‘‘ کی کھوج کی جائے‘ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والی حکومت کو گریس پیریڈ لینے کی مہلت بھی نہیں دی جائے گی۔یاد رہے ایوب خان کی حکومت کے خلاف 10سالہ جشن ترقی کے فوراً بعد چینی مہنگی ہونے پر اچانک ایک تحریک بھڑکی اور بے قابو ہو گئی تھی۔ میں تو اپنے بے شمار تجربات کی روشنی میں اس طرح کے اندیشہ ہائے دوردراز میں پھنسا ہوں۔ خدا کرے کہ یہ اندیشے درست نہ ہوں۔ لیکن پاکستان کے معاملے میں خدا نے کبھی ایسے کام نہیں کئے۔ ہم نے امیدیں لگائی تھیں کہ کارگل کا ایڈونچر کامیاب ہو جائے مگر خدا نے ہماری مدد نہیں کی۔ آصف زرداری نے سوچا تھا کہ 5سال تک جمہوریت بچانے کا کریڈٹ انہیں ضرور ملے گا۔ مگر خدا نے انہیں مایوس کیا۔ نوازشریف نے سوچا تھا کہ پاکستان کو بدترین فوجی ناکامی اور پاکستانی فوج کو عظیم نقصان پہنچانے والے ایک ناکام جنرل کی برطرفی پر‘ عوام کی طرف سے تحسین ملے گی۔ مگر خدا نے ایسا نہیں کیا۔ مجرم جرنیل اقتدار میں آ گیا اور قومی فرض ادا کرنے والا وزیراعظم قیدی بن گیا۔ میں اپنی تاریخ کے جتنے بھی واقعات پر نظر دوڑاتا ہوں‘ مجھے کچھ اسی قسم کے نتائج نظر آتے ہیں۔ ان گنت مواقع ایسے تھے‘ جب خدا کی طرف سے ذرا سی مدد بھی مل جاتی‘ تو ہماری تقدیر بدل سکتی تھی مگر بدل نہ پائی۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎ رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ’’بیچارے مسلمانوں‘‘ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جس نظم سے یہ شعر لیا گیا‘ اس کے دوسرے حصے میں پورا جواب موجود ہے۔ ہر نئی حکومت میں غالب رحجان یہ ہوتا ہے کہ وہ جلدازجلد ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا تصور پیدا کرنے کے لئے بے تاب ہوتی ہے۔ ہرچھوٹے سے چھوٹے کام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور کریڈٹ مانگتی ہے۔ اس بار ایسا کرنے کی کوشش کی گئی‘ تو وہ دھماکہ ہو گا‘ جس کی کسی کو امید نہیں۔ لوڈشیڈنگ کے معاملے میں ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جا سکے گی اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام کو چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بتا کر مرعوب کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ تو وہ مزید اشتعال انگیزی کا باعث بنے گی۔ اسی اشتعال کا فائدہ اٹھا کر منتخب حکومت کے خلاف جذبات بھڑکائے جائیں گے۔ یہ ثابت کیا جائے گا کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو سکتی ہے مگر یہ حکومت نہیں کر پا رہی اور ساتھ ہی انتخابی نتائج کی کہانیاں نکال کر شوشہ چھوڑا جائے گا کہ یہ جائز طور پر منتخب حکومت ہی نہیں اور پھر چل سو چل۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved