تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     08-05-2020

ساری عمر کی کمائی

پانچ برسوں سے زندگی بہت بدل گئی ہے۔ پہلے سال کے کئی دن یاد رہتے تھے۔ کئی تاریخوں کا انتظار ہوتا تھا مگر اب صرف ایک ہی تاریخ ذہن میں رہتی ہے: آٹھ مئی۔ پانچ برس قبل بھی آج کے دن جمعہ ہی تھا۔ پورے پانچ سال بعد ایک مرتبہ پھر آٹھ مئی جمعہ کو آئی ہے۔ اس روز ایک ماہ سے ہسپتال میں داخل اپنی والدہ سے صبح آخری مرتبہ باتیں کی تھیں۔ شام کو ڈاکٹروں نے خون کا اچانک انتظام کرنے کو کہا۔ دو بوتلیں اکٹھی ہو چکی تھیں کہ ایک لڑکے نے آ کر کہا: ڈاکٹر آپ کو آئی سی یو میں جلدی بلا رہے ہیں۔ میں تین تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا تیسری منزل پر پہنچا تو والدہ کے بیڈ کے گرد کئی ڈاکٹر اور نرسیں کھڑی تھیں۔ ایک ڈاکٹر مجھے الگ کمرے میں لے گیا اور ذہنی طور پر تیار کرنے لگا۔ میں سمجھ گیا ان کا آخری وقت آ چکا ہے۔ میں نے وہیں جائے نماز بچھائی اور رب کے دربار میں کھڑا ہو گیا۔ شاید اس لئے کہ یہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ میں بچپن سے لے کر اب تک جب بھی ان لمحات کو یاد کرتا تو بچوں کی طرح رونے لگتا۔ مجھے لگتا شاید میں اپنی ماں کو جدا ہوتے نہیں دیکھ سکوں گا اور اگر دیکھوں گا تو شاید میرا جسم تو میرے ساتھ ہو گا لیکن میری روح بھی ان کے ساتھ ہی چلی جائے گی اور یہی ہوا۔ کچھ ہی لمحات میں ڈاکٹر اترے چہرے کے ساتھ آئے ۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے خدا سے دعا کی کہ مجھے حوصلہ دے اس شدید صدمے کو برداشت کرنے کا۔ میں اندر سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا‘ میں بار بار اپنے جسم کو ہاتھ لگا کر دیکھتا کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے کہ میری عزیز ترین متاع دنیا سے چلی گئی اور میں دیکھتا رہ گیا‘ میں ان کے لئے کچھ بھی نہ کر سکا۔ ساری دعائیں‘ ساری دوائیں کام نہ آ سکیں۔ میں نے خدا سے دُعا کی‘ مجھے ٹوٹنے سے بچانا کہ اس لمحے میں بکھر گیا تو شاید کبھی سنبھل نہ پائوں گا۔ وہ ساری محبتیں‘ وہ پیار وہ شفقتیں جو میری رگ رگ میں سمائی ہوئی تھیں‘ میں محبتوں کے اس مرکز کو خود سے جدا ہوتے کیسے دیکھ سکوں گا‘ میں کیسے یہ سب برداشت کر پائوں گا‘ مجھے کچھ اندازہ نہ تھا۔ خدا نے مگر حوصلہ دیا۔ میں جائے نماز سے اترا تو خود کو قدرے حوصلہ مند پایا۔ آنسوئوں اور ہچکیوں کو مگر میں روک نہ سکا ۔بمشکل سٹریچر تک پہنچا۔ نظر اٹھائی تو دیکھا چاند سا اُجلا پرسکون اور جگمگاتا چہرہ شاید مجھ سے کہہ رہا تھا: صبر کر میرے بیٹے صبر‘ یہ وقت ایک نہ ایک دن آنا ہی تھا‘ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر مشکل اور پریشانی میں ماں تمہیں تسلی دیتی تھی لیکن آج سے تمہارا کڑا امتحان شروع ہے کہ اب تمہیں زندگی کی ہر مصیبت‘ ہر پریشانی اور ہر مشکل میں اپنے آپ کو خود ہی تسلی دینی ہے‘ خود ہی سمجھانا ہے اور خود ہی سنبھلنا ہے۔ میں ان کے دائیں طرف ڈھلکے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو مجھے بار بار یہی کہہ رہا تھا‘دنیا میں جو بھی آیا ہے جانے کے لئے آیا ہے‘ باقی رہنے والی ذات صرف اسی کی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں تمہاری والدہ‘ تمہاری اور اس دنیا کے سات ارب سے زیادہ لوگوں کی جانیں ہیں۔ ان سب لوگوں کی بھی جو اس دنیا سے چلے گئے اور ان کی بھی جو ابھی اس دنیا میں نہیں آئے۔ 
ماں کا رشتہ بڑا عجیب ہے۔ ماں پاس ہو تو دنیا کا کوئی غم غم نہیں لگتا اور اگر ماں نہ ہو تو کوئی خوشی خوشی نہیں لگتی۔ کسی نے سچ کہا کہ مائوں کو مرنا نہیں چاہیے کہ انسان بڑے سے بڑا صدمہ سہہ سکتا ہے لیکن ماں کی جدائی سہنا بہت کٹھن ہے۔ یہ جدائی انسان کو بہت زیادہ تبدیل کر دیتی ہے۔ انسان زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ ماں باپ ہوتے ہیں تو بچے زندگی کو کھیل کھلونا سمجھتے ہیں۔ وہ زندگی کے دن یوں گزارتے ہیں جیسے کسی باغ میں سیر کو آئے ہوں لیکن جب ماں یا باپ میں سے کوئی نہ رہے تو پھر یہ سارا باغ اجڑا اور ویران محسوس ہوتا ہے۔ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان خود کو اُدھورا اور بے کار محسوس کرتا ہے۔ پھر دل کو تسلی دینے کے بہانے سوچتا ہے۔ سب سے پہلے جو خیال آتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ ہم نے خود کو اس لئے سنبھالنا ہے تاکہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال سکیں۔ اگر اس موقع پر ہم خود ہی ٹوٹ پھوٹ گئے تو بچے کیا اثر لیں گے۔پھر یہ خیال آتا ہے کہ پریشان رہنے سے ان کی روح کو بھی پریشانی ہو گی اور خود بھی چین نہ پائیں گے۔ ایسے موقع پر دُعا اور خدا کے ذکر سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہوتا جو قلب کو اطمینان دے۔ ہم نے زندگی میں بہت مرتبہ سنا کہ فلاں سیاستدان رخصت ہوا تو اس کا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکے گا‘ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ حقیقت میں یہ بات صرف والدین پر صاد آتی ہے اور اولاد کے لئے جو سب سے بڑا خلا پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں یا باپ کی جدائی ہے۔ اس کے علاوہ کسی سیاستدان‘ کسی فنکار کسی کھلاڑی کے آنے جانے سے کسی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سب ہماری بنائی ہوئی باتیں ہیں جو ہم لفظوں کے خلا کو پُر کرنے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ وگرنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ کے دوستوں‘ فنکاروں یا سیاستدانوں میں سے کوئی چار دنوں یا چار ہفتوں کے لئے پردے کے پیچھے چلا جائے تو کسی کو اس کا نام بھی یاد نہیں رہتا۔ زندگی کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ ایسی شخصیات تو دُور کی بات ہم اپنے ماں باپ کے ہوتے ہوئے انہیں بھی پوری طرح وقت نہیں دے پاتے۔ پھر انسان سوچتا ہے یہ پتہ ہوتا کہ ماں نے واقعی چلے جانا ہے تو سارا دن ساری رات اس کے قدموں میں بیٹھا رہتا۔ اس کی میٹھی لوریاں سنتا۔ا س کے دلاسے اور خیر کے الفاظ سے جی کی پیاس بجھاتا۔ یہ پچھتاوے پھر زندگی بھر پیچھا کرتے ہیں۔ کاش وہ وقت جو دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی میں گزارا‘ جو ادھر اُدھر خاک چھانتے خوشیوں کی تلاش میں گزارا وہ وقت وہ لمحات ماں کے ساتھ گزارے ہوتے تو یادوں کے گلدستے میں کچھ پھول مزید بڑھ جاتے۔ 
زندگی میں یہ غم سبھی کو مگر دیکھنا پڑتا ہے۔ کسی کو جلد کسی کو بدیر۔ خوش نصیب مگر وہی ہوتے ہیں جن کے والدین ان سے راضی ہوں۔ جس نے اپنے والدین کو راضی کر لیا گویا اس نے اپنے رب کو راضی کر لیا اور جس نے اپنے ماں یا باپ کو ناراض کیا‘ خدا بھی اس سے ناراض ہوا۔ یہ بات آج کی نسل کو بہت زیادہ سمجھانے کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی کی دلدل میں یوں جوان ہو رہی ہے کہ اس کے پائوں اس دلدل سے باہر ہی نہیں آ سکے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو اس لئے دنیا کے دوسرے کونے میں جاکر کام کاج کرتے دیکھا ہے تاکہ وہ بہت سا پیسہ کما سکیں اور ان پیسوں سے اپنے ماں باپ کو خوشیاں خرید کر دے سکیں۔ یہ مگر سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیسے وہ صرف پیسوں سے خوشیاں حاصل کر سکتے ہیں اگر ان کے بچے ان کی جگر کے ٹکڑے ہی ان کے پاس موجود نہ ہوں۔ والدین کو سب سے زیادہ اگر ضرورت ہوتی ہے تو اولاد کے ساتھ اس کی قربت کی چاہت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں چاہتے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کی خواہش انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ یہ اپنے حرص ‘اپنی ضروریات اور اپنی عیاشی کے لئے ہوتی ہے۔ ماں باپ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا جب بھی انہیں دیکھے پیار بھری نظروں سے دیکھے‘ وہ جب بھی سامنے آئے اس کے کندھے جھکے ہوں‘ اس کی آواز دھیمی ہو اور اس کا لہجہ مٹھاس سے لبریز ہو۔ اس میں تلخی نہ ہو‘ یہ کڑواہٹ سے پاک ہو اور اس میں بے ادبی‘ چڑچڑاپن اور بے زاری کا اظہار نہ ہو۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی باپ یا ماں کو اپنے بیٹے یا بیٹی سے کچھ درکار نہیں ہوتا ۔ چاہے تو کسی ماں یا کسی باپ سے پوچھ کر دیکھ لیں وگرنہ اپنے بچوں کے بڑا ہونے اور خود کے بوڑھے ہونے کا انتظار کریںاور پھر آپ بھی دیکھیں گے کہ آپ بھی اپنی اولاد سے ساری عمر کی صرف یہی کمائی چاہیں گے؛پیار کے دو بول‘ جھکے ہوئے کاندھے‘ دھیمی آواز‘ مٹھاس سے لبریز لہجہ ‘محبت بھری نگاہیں اور بس! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved