تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     08-05-2020

نماز تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ

پندرہویں پارے کے مضامین
بنی اسرائیل
سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے ۔ یہ تاریخ ِ نبوت ‘ تاریخِ ملائک اور تاریخ ِانسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔
آیت13 اور اس سے اگلی آیات میں بتایا کہ ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے( یعنی اللہ کی قضا وقدر میں جو طے ہے وہ ہو کر رہے گا )اور قیامت کے دن یہ اعمال نامہ ایک کھلی ہوئی کتاب کی صورت میں ہوگا( بندے سے کہا جائے گا) اپنا اعمال نامہ پڑھو‘ آج تم خود ہی احتساب کرنے کیلئے کافی ہو ‘ جس نے ہدایت کو اختیار کیا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جس نے گمراہی کو اختیار کیا تو اس کا وبال بھی اسی پر آئے گااور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں‘جب تک کہ (اتمامِ حجت کیلئے) ہم رسول نہ بھیج دیں۔ آیت 23میں والدین کے حقوق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا '' اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اگر تمہاری زندگی میں وہ دونوں یا ان میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے ‘ تو ان کو اف تک نہ کہو ‘ ان کو جھڑکو بھی نہیں اور ان کے ساتھ ادب سے بات کرواور ان کیلئے عاجزی اور رحم دلی کابازو جھکائے رکھواور یہ دعا کرو: اے میرے رب! ان پر رحم فرمانا ‘ جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحم کے ساتھ میری پرورش کی‘‘۔ آیت 26 میں قرابت داروں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے حقوق اداکرنے اور فضول خرچی سے اجتناب کا حکم دیا گیاہے۔ آیت 29سے تسلسل کے ساتھ احکام کا بیان ہے : (1)خرچ کرنے میں بُخل‘ حرص اور فضول خرچی کے درمیان میانہ روی کو اختیار کرنے کا حکم (2)افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کی ممانعت (3)زنا کی ممانعت (4)قتل ِ ناحق کی ممانعت اور قصاص لینے میں حد ِ اعتدال میں رہنے کا حکم (5)یتیم کا مال کھانے کی ممانعت(6)ناپ تول میں خیانت کی ممانعت (7)لوگوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج لگانے کی ممانعت (8)اِترا کر چلنے کی ممانعت (9)شرک کی ممانعت(10) روزی کی کشادگی یا تنگی کا مَدار کسی کی فضیلت یا بے قدری پر نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت کا معاملہ ہے ۔ آیت44 میں بیان فرمایا کہ ''سات آسمان اور زمینیں اور جو بھی ان میں ہیں ‘ اس کی تسبیح کررہے ہیں اور ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کررہی ہے ‘ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ‘‘۔آیت 45میں فرمایا کہ منکرینِ آخرت قرآن کی تعلیمات سے استفادہ کرنے سے محروم رہتے ہیںاور ان کے دل ودماغ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے محروم ہیں ۔ وہ فصیح وبلیغ قرآن سن کر بھی نبی پر سحر زدہ ہونے کے طعن کرتے ہیں۔ آیت 78سے اشارتاً پانچ نمازوں کا حکم ہے‘ فجر کی فضیلت کا بیان ‘ نمازِ تہجد کی ترغیب اور رسول کریمﷺ کیلئے مقامِ محمود (جو مقامِ شفاعت ِ کبریٰ ہے) عطا کئے جانے کا بیان ہے ۔ آیت81 اور 82 میں حق کی آمد اور باطل کے نیست ونابود ہونے کا بیان ہے اور یہ کہ قرآن میں اہلِ ایمان کیلئے شفااور رحمت ہے ۔ آیت 85: یہود نے رسول کریمﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا ‘ تو اللہ نے فرمایا کہ ''(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم کو محض تھوڑا ساعلم عطا کیا گیا ہے‘‘۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جن چیزوں کی حقیقت جاننے پر ہدایت ونجات موقوف نہیں ہے ‘ ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں۔ آیت 90سے مشرکینِ مکہ کے بعض فاسد مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے کہا ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے؛حتیٰ کہ (1)آپ ہمارے لئے زمین سے پانی کا کوئی چشمہ جاری کردیں ۔(2)یا آپ کھجوروں اور انگوروں کے باغات کے مالک بن جائیں ‘ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں (3)یاآپ ہمیں ‘جس عذاب سے ڈراتے ہیں‘وہ لے آئیں یا آسمان کو ٹکڑے ٹکرے کر کے ہم پر گرا دیں (4)یا‘ اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے بے حجاب لے آئیں (5)یا آپ کے لئے سونے کا گھر ہو (6)یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور پھر آسمان سے ہم پر کتاب نازل کریں ‘جس کو ہم پڑھیں۔ ان سب مطالبات کے جواب میں اللہ نے فرمایا :(اے رسول کہہ دو) میرا رب ہر عیب سے پاک ہے(میں کوئی شعبدے باز نہیں ہوں‘ بلکہ) میں ایک بشر ہوں ‘جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ۔ آیت 105میں قرآن مجید کوبتدریج‘ یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی حکمت یہ بتائی کہ رسول ان پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ‘ ان کے لئے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔ مشرکین ِ مکہ اعتراض کرتے کہ کبھی آپ اللہ کہتے اور کبھی رحمان کہتے ہیں ‘ تو اللہ نے فرمایا '' کہہ دیجئے کہ (معبودِ برحق کو) تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر پکارو تم اسے جس نام سے بھی پکارو ‘ سب اُسی کے نام ہیں‘‘۔ 
الکہف
اس سورۂ مبارکہ کی آیت 09سے اصحابِ کہف کا بیان ہے ‘ یہ چند صالح نوجوان تھے ‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقیدۂ توحید اور ایمان پر ثابت قدم رکھا‘ لیکن ان کی قوم مشرک تھی اور ایک ظالم بادشاہ مسلط تھا‘ وہ لوگ ان نوجوانوں کے دشمن ہوگئے تو انہوں نے ان کے شر سے بچنے کیلئے غار میں پناہ لی ۔ اﷲتعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کردی اور اس کیفیت میں وہ 309سال تک رہے۔ غار میں اﷲتعالیٰ نے ایسا غیبی انتظام کیا کہ وہ ایک کشادہ جگہ میں تھے ‘ جب سورج طلوع ہوتا تو دھوپ غار کے دائیں جانب رہتی اور غروب ہوتے وقت بائیں جانب پھر جاتی ۔ ﷲ تعالیٰ انہیں حسبِ ضرورت دائیں بائیں کروٹیں بدل دیتا‘ تاکہ ان کو روشنی ‘ حرارت اور ہوا ملتی رہے اور ایک ہی ہیئت میں سوتے ہوئے ان کے بدن پر زخم نہ ہوجائیں۔ اصحابِ کہف کا ایک کتابھی تھا ‘ جواُن کی چوکھٹ پر پائوں پھیلائے بیٹھا رہا۔ اصحابِ کہف کی تعداد کے بارے میں قرآنِ مجید میں لوگوں کے حوالے سے تین اقوال نقل کئے ہیں‘ پہلے دو اقوال کو قرآن نے لوگوں کی ''تکّہ بازی ‘‘قراردیا اور تیسرے قول کو قرآن نے رَد نہیں کیا ‘یعنی وہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا‘ لہٰذا مُفسرین نے اسی تعداد کو صحت کے قریب قراردیا ہے ‘ اللہ نے فرمایا '' اُن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے ‘اُن کو صرف چند لوگ جاننے والے ہیں (یعنی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کا علم عطاکیا)‘‘ قرآن نے ان کی تعداد کے بارے میں زیادہ بحث سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایاکہ اللہ نے اُن کے منظر کو بارعب بنادیاتھا ‘تاکہ کوئی اُن کی طرف تاک جھانک نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ دیکھنے والا سمجھتاکہ وہ جاگ رہے ہیں؛ حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ آیت 28میں رسول کریم ﷺ سے فرمایا کہ فقراء صحابہ کو آپ اپنے پاس بٹھائے رکھیں ‘یہ صبح اور شام اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ‘ اس کی رضا کے طلب گار ہیں اور آپ اپنی آنکھیں ان سے نہ ہٹائیں۔ آیت 32سے اللہ تعالیٰ نے دو لوگوں کا واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص کے انگوروں کے عمدہ باغات تھے ‘اُس نے اپنے ساتھی پر تفاخراور اپنے خالق کی ناشکری کی ‘تو اللہ تعالیٰ نے اُس کے مال کو برباد کردیا ۔آیت60سے موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بیان ہے ۔ وہ اپنے ایک خادم یوشع بن نون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں اور اسرار ورموز کو جاننے کیلئے حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے‘ دورانِ سفرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ناشتہ لاؤ‘ ہم سفر کرتے کرتے تھک چکے ہیں ‘ خادم نے کہا کہ دورانِ سفر جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے ‘تو شیطان نے مچھلی کو مجھ سے بھلا دیا اور وہ سمندر میں راستہ بناتے ہوئے نکل گئی ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ دوسمندروں کا سنگم ہی ہماری منزل ہے ‘وہ دونوں واپس لوٹے اور پھر ہمارے ایک بندۂ خاص کو وہاں پایا ‘جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطاکی تھی اور ہم نے اُسے ''علمِ لَدُنِّی‘‘عطاکیا ‘ مُفسّرین کے مطابق یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو رُشدوہدایت کا علمِ خاص عطاکیاہے ‘ اُس میں سے کچھ مجھے بھی تعلیم دیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں ‘کلیم ہیں ‘افضل ہیں ‘ لیکن افضل کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو کسی خاص شعبے میں کوئی فضیلت عطاکی جاسکتی ہے ‘یہی صورتِ حال یہاں بھی تھی ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اپنے سے کم مرتبہ شخص سے بھی کسی خاص شعبے کاعلم حاصل کیاجاسکتاہے اور اس بناپر اُس کی تکریم کی جاسکتی ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved