خواجہ آصف کا بیان بھرے پیٹ فارسی
بولنے کے مترادف ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''خواجہ آصف کا بیان بھرے پیٹ فارسی بولنے کے مترادف ہے‘‘ حالانکہ فارسی خالی پیٹ بولنی چاہیے جس میں چوہے دوڑ رہے ہوں جو فارسی کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کیونکہ '' گُر بہ کُشتن روزِ اوّل‘‘ والا محاورہ انہی کا وضع کردہ ہے جس پر اگر عمل کیا جاتا تو آج بلّیوں کا قلع قمع ہو چکا ہوتا‘مگرمحاورہ پر عمل نہیں کیا گیا اور بلّیاں نہ صرف دندناتی پھرتی ہیں بلکہ اُن کے بھاگوں کوئی نہ کوئی چھینکا بھی آئے دن ٹوٹتا رہتا ہے اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف چوہے ہی بلیوں کا من بھاتا کھاجا نہیں ہیں بلکہ وہ چھیچھڑوں کے خواب بھی دیکھا کرتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شہباز شریف کو انڈر پریشر رکھنے کیلئے بار بار طلب کیا جاتا ہے: رانا ثنا
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما ''شہباز شریف کو انڈر پریشر رکھنے کے لیے بار بار طلب کیا جاتا ہے‘‘ حالانکہ اگر انہیں بار بار طلب نہ کیا جائے تو بھی وہ بے حد انڈر پریشر رہتے ہیں کیونکہ ان کے اثاثوں کا بوجھ ہی ان پر اتنا ہے کہ ان کی کمر دہری ہو چکی ہے اور یہ کُب نکالنے کے لیے بار بار انہیں لات رسید کرنا پڑتی ہے اور یہ محاورہ ان کے لیے ایک معمول بن چکا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ ایک خمیدہ کمر بُڑھیا ہی نظر آتے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
بُزدار حکومت کا بنیادی ایجنڈا عوام کی
مشکلات میں کمی ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''بُزدار حکومت کا بنیادی ایجنڈا عوام کی مشکلات میں کمی ہے‘‘ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جسے صرف عوام کی قسمت ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جسے تبدیل کرنا کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو ہمت کر کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ادھر یہ بھی ڈیڑھ سال سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش ہی میں مصروف ہیں اور بار بار ایک ایک پائوں پر کھڑا ہوتے ہیں تا کہ اس دوران دوسرا پائوں تازہ دم ہو سکے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بھارت جبر و تشدد سے کشمیریوں کی
تحریک دبا نہیں سکے گا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''بھارت جبر و تشدد سے کشمیریوں کی تحریک دبا نہیں سکے گا‘‘ جس طرح میری تقریروں کی تحریک کو دبایا نہیں جا سکا بلکہ میری طرح اس میں بھی قدرت نے لچک دی ہے اور اسے جتنا دباتے ہیں یہ اتنا ہی ابھرتی ہے حالانکہ یہ دراصل اپنے ہی دبائو میں ہے کیونکہ حکومت اسے اتنی لفٹ ہی نہیں کروا رہی کہ اسے دبانے کی طرف دھیان دے سکے بلکہ اب تو اس پر میں نے بھی دھیان دینا چھوڑ دیا ہے اور اب یہ آٹو میٹک ہو کر رہ گئی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات تقریر کے دوران ہی بھول جاتا ہوں کہ تقریر کر رہا ہوں اور اس دماغی کمزوری کو رفع کرنے کے لیے میں نے بادام کھانا شروع کر دیئے ہیں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں ریاض نائیکو شہید کی غائبانہ نماز جنازہ سے قبل گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جو اَب نہیں تو نہیں اعتبار میں تیرے
کبھی تھے ہم بھی شمار و قطار میں تیرے
ہمیں تو زندگی میں اور کوئی کام نہ تھا
سو وہ بھی کاٹ چلے انتظار میں تیرے
اگرچہ تُو وہی دریا ہے سامنے، لیکن
ہمارے خواب تو ہیں آر پار میں تیرے
وگرنہ تو کہیں ٹکرائو ہو بھی سکتا تھا
ہم آ سکے ہی نہیں تھے مدار میں تیرے
یہی تو منزلِ مقصود تھی ہماری بھی
یہ ہم جو کھو گئے ہیں راہگزار میں تیرے
ہمارا لمحۂ جاں بھی بھٹکتا پھرتا ہے
یہیں کہیں انہی لیل و نہار میں تیرے
نقوشِ پا چمک اٹھتے ہیں آپ ہی کیا کیا
کبھی کبھار ہمارے غُبار میں تیرے
یہ ہو بھی سکتا ہے شاید پھر ایک بار کہ ہم
ہوا کی طرح پھریں برگ و بار میں تیرے
ظفرؔ، یہ کاوشیں جس کی تلاش کے لیے ہیں
اُسی کا نام نہیں اشتہار میں تیرے
آج کا مطلع:
وائرس ہے، نہیں اس نے ٹلنا
مرے دل سے نہ باہر نکلنا