الجزیرہ ٹی وی نے ریاض نائیکو سے فون پر لئے گئے انٹرویو میں پوچھا کہ اسے فریڈم فائٹر بننے کا خیال کب اور کیسے آیا؟ریاض نائیکو نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بتایا کہ 2003ء میں وہ گیارہویں جماعت میں پڑھ رہا تھا تو اس کے ماموں کو انڈین فوجیوں نے چہرے اور بدن پر گولیاں مار کر شہید کیا تو اس دن سے وہ فریڈم فائٹر بننے کا سوچنا شروع ہوگیا ۔ ریاضی میں بی اے کرنے کے بعد تین برس تک سکول ٹیچر رہا اور اس دوران سینئر کشمیری فائٹر پرویز مشرف سے ریاض کی دوستی ہو گئی جو اکیس مارچ2010ء کوبھارتی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہید ہو گیا اور پھر یکم جون2012 ء کو ریاض باقاعدہ طور پرمجاہدین کے ساتھ شامل ہو گیا جہاں اس کا کوڈ نام زبیر رکھا گیا۔
الجزیرہ سے اپنے انٹرویو میں نائیکو نے بتایا کہ ہمیں پتہ تھا کہ مجاہدین کم تعداد اور بے شمار مخبروں کی وجہ سے ہم زیا دہ دیر انڈین آرمی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ایسا ہی ہوا‘ ہمارے ساتھی ایک ایک کر کے شہید ہونے لگے‘ جس کا ہمیں بہت دکھ تھا یہی وجہ تھی کہ کمانڈر بنتے ہی میں نے ان مخبروں کو ایک ایک کر کے جہنم واصل کرایا ۔ ہم کشمیری دہشت گرد نہیں بلکہ دنیا کے وہ دس بارہ ممالک‘ جن کے ہاتھوں میں باقی دنیا کی تقدیر ہے انہوں نے72 برسوں سے ہمیں شعلوں میں پھینکا ہوا ہے۔ جب آپ گھر کے باہر اپنی ماں کا پلو پکڑے کھڑے ہوں اور پولیس والوں کو اپنی ماں کو گالیاں بکتے اور تھپڑ مارتے ہوئے دیکھیں تو سات سال کے معصوم بچے کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟جب ایک فوجی جیپ کسی بچے کے گھر کے باہر اس کے والد کی گولیوں سے چھلنی لاش پھینکے گی‘ جب کسی کے بھائیوں اور کسی کی جوان بہنوں کو تفتیش کے نام پر بھارتی فوجی اٹھا کر لے جائیں اور وہ بچہ اپنے ماں باپ کو ساری ساری رات روتا اور سسکتا ہوا دیکھے تو اس بچے کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟ دو ہفتوں بعد وہ بچہ اپنے گھر جمع ہونے والے ر شتہ داروں اور دوستوں کو اپنی بہنوں کی نوچی ا ور کچلی ہوئی لاشوں پر روتا پیٹتا‘ ماتم کر تا دیکھے گا تو وہ بچہ یا تو انتہائی بزدل بن کر سر جھکائے بے غیرتوں جیسی زندگی گزار کر مخبر بن جائے گا یا ایک مسلمان مجاہد کی حیثیت سے اﷲکے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں اور بچوں کا قصاص لینا شروع کر دے گا۔
راقم کوکچھ دوستوںکی جانب سے عرصے سے کہا جا تا ہے کہ تم صرف انڈیا‘ کشمیر اور ملک دشمن قوتوں کے خلاف ہی لکھتے رہتے ہوں جبکہ تمہارے ہم عصر سیا سی معاملات پر پُر مغز مضامین لکھ کر عوام میں پاپولر ہوتے جا رہے ہیں ۔میں ان دوستوں سے کہتا ہوں کہ آپ کو گدھ اور بھوک کے مارے بچے کی ایوارڈ یافتہ تصویر اور اس ایوارڈ یافتہ تصویر کے فوٹو گرافر کی بالآخر خود کشی کا قصہ تو معلوم ہی ہو گا۔جنوبی افریقہ کے فوٹو جرنلسٹ کیون کارٹر نے سوڈان میں قحط کی وجہ سے ہڈیوں کے پنجر میں بدل جانے والے بچے اور کچھ فاصلے پر گھات لگائے گدھ کی تصویربناکر فوٹو گرافی کا عالمی ایوارڈ (پلٹزر پرائز) تو حاصل کر لیا لیکن اس کا ضمیر اسے اس گدھ کی طرح اس وقت تک نوچتا رہا جب تک کہ اس خلش کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے خود کشی نہ کر لی ۔ میں بھی اگلے دو تین ماہ میں ہونے والی سیا سی تبدیلیوں اور کرپشن کے بہت سے سکینڈلز کی خبریں دے سکتا ہوں ‘ بہرکیف بدھ کی شام حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائیکو جو محمد بن قاسم کے نام سے مشہور تھے اور مقبوضہ کشمیر کی ہر ماں‘ بہن اور بیٹی کی عزتوں کو روندنے والی بھارتی فوج اور پولیس کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے قرآن پاک میں دیئے گئے حکمِ قصاص کی تعمیل میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے‘ کسی مخبر کی اطلاع پر پچاس سے زائد انڈین آرمی اور سپیشل آپریشن کمانڈوز کے نرغے میں آنے کے بعد اپنے دو ساتھیوں عادل بھٹ اور جنید کے ہمراہ بیگ پور کے ایک گھر میں بارہ گھنٹے تک جاری رہنے والی خون ریز جھڑپ کے دوران شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے ۔ ۔جیسے ہی حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائیکو اور ان کے ساتھی جنید اور عادل بھٹ کی شہادت کی خبر یں باہر نکلیں تو بی جے پی کی تمام مرکزی لیڈر شپ‘ انڈین جرنلسٹ اور تمام ہندو انتہا پسند تنظیموں نے ٹویٹر پر اپنے کسی بھگوان کے ہاتھوںDemon کی موت کے پوسٹر لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دینا شروع کر دیں‘ جبکہ انڈین آرمی نے مقبوضہ کشمیر میں موبائل سروس بند کرنے کے علاوہ کئی اضلاع میں سخت کرفیو نافذ کر دیا‘لیکن کرفیوکے با جود مقبوضہ جموںو کشمیر کے طول و عرض میں جس طرح تینوں مجاہدین کی شہادت پر مظاہرے ہوئے اس سے بھارت کی یہ خوش فہمی دور ہو گئی کہ برہان وانی اور ریاض نائیکو کے خاتمے سے اس نے کشمیری مجاہدین کی کمر توڑ دی ہے۔
ریاض نائیکو جب ہائر ایجوکیشن کے ابتدائی مرحلے میں تھے تو گیارہ سالہ طفیل مٹو کی انڈین آرمی کے ہاتھوں شہادت نے پورے کشمیر میں آگ لگا دی‘ ہر جگہ پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے ‘مٹو کی لاش پر جس طرح مٹو کی ماں‘ بہنیں ماتم کر رہی تھیں اس نے کئی راتوں تک ریاض نائیکو کو سونے نہ دیا۔ ابھی مٹو کی موت کا دکھ نہیں بھولا تھا کہ ایک دن اس کے باپ کو پولیس یہ پوچھنے کے لیے اٹھا کر لے گئی کہ وہ کن کن لوگوں کے کپڑے سلائی کرتا ہے‘ دو دن بعد جب اس کے والد کو گھر لایا گیا تواس سے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ کئی ہفتوں تک اس کا باپ پولیس کے ٹارچر سے جگہ جگہ لگنے والی ضربوں سے چیختا رہا‘ اپنے باپ کی یہ حالت دیکھ کر ریاض نائیکو چیخ پڑا اور اس نے فریڈم فائٹر بن کر اپنے باپ پر تشدد کرنے والوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ فریڈم فائٹر بنتے ہی اس نے سپیشل پولیس کے ایک ایک درندے کو چن چن کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا ۔ نائیکو‘ عادل اور جنید کی شہادت پر غاصب بھارت جشن تو منا رہا ہے‘ لیکن یاد رکھیں کہ یہ سب عارضی ہے اور جو آگ برہان وانی اور ریاض نائیکو کی شہادت نے کشمیر بھر میں بھڑکا دی ہے وہ ہر کشمیری کے دل میں دہک رہی ہے ۔ریاض نائیکو کی شہادت سے اندھیرا نہیں ہوا بلکہ ان کی شہا دتوں سے جلنے والی بدلے کی آگ اس وقت تک ایک کے بعد ایک شمع روشن کرتی جائے گی جب تک کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا۔
2010ء میں سب سے پہلےOGW ( اوور گرائونڈ ورکر)جیسی اہم اور خفیہ ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے مجاہدین کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے لگا اور21 مئی2012ء کو ریاض نائیکو نے جب حزب المجاہدین میں با قاعدہ شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہی ا پنے گھر اور عزیزوں دوستوں کو بتایا کہ وہ ریاضی میں اعلیٰ تعلیم کیلئے کشمیر سے پندرہ سو کلو میٹر دور بھوپال یونیورسٹی میں داخل ہونے جا رہا ہے‘ لیکن گھر سے نکل کر وہ مجاہدین کے تربیتی کیمپ پہنچ گیا۔ الجزیرہ نے فون پر ریاض نائیکو سے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کیا ابھی تک وہ مسلح جدو جہد پر یقین رکھتا ہے؟ جس پر حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نے نیلسن منڈیلا کی سوانح Long Walk to Freedomکے ایک فقرے کا حوالہ دے کر فون بند کر دیا:
A freedom fighter learns the hard way that it is the oppressor who defines the nature of the struggle,and the oppressed is often left no recourse but to use methods that mirror those of the oppressor.At a point, one can only fight fire with fire.
ریاض نائیکو جب ہائر ایجوکیشن کے ابتدائی مرحلے میں تھے تو گیارہ سالہ طفیل مٹو کی انڈین آرمی کے ہاتھوں شہادت نے پورے کشمیر میں آگ لگا دی‘ ہر جگہ پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے ‘مٹو کی لاش پر جس طرح مٹو کی ماں‘ بہنیں ماتم کر رہی تھیں اس نے کئی راتوں تک ریاض نائیکو کو سونے نہ دیا۔