تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     31-05-2013

پیپلز پارٹی: ثریا سے زمیں پر!

2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ملنے والی سیٹوں کی تعداد اگرچہ1997ء کے انتخابات سے زیادہ ہے لیکن اس شکست کے اثرات کہیں زیادہ گہرے ہیں۔پیپلز پارٹی کا عام سیاسی کارکن اور ووٹر پارٹی قیادت کی عوام مخالف پالیسیوں سے پہلے ہی صدمے میں تھا۔ اس بدترین شکست پر پیش کی جانے والی توجیہات، بحثیں اور تجزیے ا نتہائی سطحی نوعیت کے ہیں۔افراد کے کردار اور شخصیات کودوش دیا جا رہا ہے۔ پارٹی قیادت کی نظریاتی گمراہی اور پارٹی کے سوشلسٹ منشور سے غداری، کو قصداًفراموش کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ظہور1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دوران غریب عوام، محنت کشوں، کسانوں اور سماج کے پسے ہوئے طبقات کی نمائندہ سیاسی قوت کے طور پر ہواتھا۔یہ کیڈرز پر مشتمل کوئی لینن سٹ پارٹی نہیں تھی لیکن ایک لینن سٹ بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی نے اس خلا کو پر کیا، یہ ناگزیر تھا۔ انقلابی حالات اور عوامی تحریک کے ابھرتے ہوئے جذبات، خواہشات اور تمنائوں کے ساتھ پارٹی کے ا نقلا بی سوشلسٹ پروگرام کا ملاپ ہو گیا۔پارٹی کے ڈھیلے ڈھالے کمزور تنظیمی ڈھانچوں اورٹھوس نظریاتی کیڈرز کی کمی نے شخصیت کے کردار کو بہت بڑھا دیا۔ پارٹی اور تحریک کی نظریاتی اور سیاسی بنیادیں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں مرکوز ہونے لگیں۔ یہ سچ ہے کہ تاریخ میں افراد کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن یہ فیصلہ کن اور ناگزیر نہیں ہوتا۔ انقلابی پارٹی کے بغیر چیئرمین بھٹو سوشلسٹ انقلاب مکمل نہیں کر سکے، لینن اور ٹراٹسکی بھی بالشویک پارٹی کے بغیر ایسا نہ کر پاتے۔ بورژوا ریاست کے معاملات میں پیپلز پارٹی کی شمولیت نے اسے سرمایہ داری کی باندی بنا دیا۔ شروع میں پارٹی نے پسے ہوئے طبقات کے لیے انقلابی اصلاحات کیںلیکن سرمایہ داری کاسماجی و معاشی غلبہ اس قدر گہرا تھاکہ یہ اصلاحات عوام کی زندگیوں کو بدلنے میں ناکافی ثابت ہوئیں جس سے بے حسی اور بدگمانی نے جنم لیا۔ دائیں بازو کی قوتوں کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک انقلاب کے ذریعے نظام کو چیلنج کرنے والے عوام پر انتقاماً ایک وحشیانہ آمریت مسلط کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ نیشنلائیزیشن کے ذریعے سرمایہ دار طبقے کے کئی حصوں کو گھائل اور سامراجی مفادات کو ضرب لگانے کی پاداش میں چیئرمین بھٹو کو1979ء میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دائیں بازو کی جانب جھکائو کا عمل1988ء میں ضیاء آمریت کے انہدام کے بعد بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔پہلے دورِ اقتدار کے بعد اپنی کتاب ’’مشرق کی بیٹی‘‘ میں بے نظیر بھٹو نے لکھا ’’لیکن معاشی میدان میں ہمارے کام بہت بے مثال اور انقلابی تھے۔انگلستان میں جلا وطنی کے دوران میں نے دیکھا کہ وزیر اعظم تھیچر کی پالیسیوں کی و جہ سے ایک نیا درمیانہ طبقہ وجود میں آیا تھا۔جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں میری حکومت نے سب سے پہلے سرکاری اداروں کی نجکاری شروع کی۔ہم نے مالیاتی اداروں کو ڈی ریگولیٹ کیا۔ہم نے معیشت کی مرکزیت کا خاتمہ کیا…‘‘(صفحہ397)۔ مار گریٹ تھیچر حالیہ تاریخ میں برطانوی محنت کشوں کے لیے سب سے زیادہ قابلِ نفرت سیاست دان ہے۔ بے نظیر بھٹو حکومت کی نیو لبرل پالیسیاں، پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کو یکسر رد کر رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی قیادت کے دائیں بازو کی جانب جھکائو کا عمل مسلسل جاری رہا۔ گزشتہ حکومت میں تو وہ محنت کشوں کو اداروں کے شیئرز دینے کی دھوکہ دہی کی بھی مرتکب ہوئی۔1968-69ء میں فیکٹریوں پر مزدوروں کی اشتراکی ملکیت کا نعرہ لگانے والی سوشلسٹ پی پی پی اب ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ بن گئی۔1993ء کی انتخابی مہم کے دوران پارٹی قیادت نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں واضح طور پر کہا تھاکہ پیپلز پارٹی میں نظریہ پچھلی نشست پر جا چکا ہے۔جب نظریہ پچھلی نشست پر چلا جائے تو کرپشن، اقربا پروری ، حرص اور موقع پرستی لازمی طور پر اگلی نشست پر آ جاتے ہیں۔محنت کشوں کو کرپٹ کر کے انہیں جیتا نہیں جا سکتابلکہ سامنے آ کر استحصال اور ذلت پر مبنی نظام کو بدلنے کی جدوجہد میںان کی قیادت کرنا پڑتی ہے۔ اگرچہ اس وقت پیپلز پارٹی کے ہر درجے پر کئی گروپ اور اختلافات موجود ہیں، لیکن ان کی بنیاد نظریاتی نہیں ہے۔موقع پرستی اور سرمایہ داری کے آگے جھک جانے کے رجحانات پیپلز پارٹی میں بہت گہرے پیوست ہو چکے ہیں۔پارٹی میں نظریاتی یا سیاسی بحثیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور معاشی و سماجی پالیسیوں پر کوئی بات نہیں ہوتی۔پارٹی کی کوئی کانگریس یا کانفرنس نہیں ہوتی، نہ ہی کسی قسم کے انتخابات ہوتے ہیں اور پارٹی کے ا علیٰ اداروں کے ارکان اور عہدیدار وقتی پسندیدگی کے تحت نامزدکیے جاتے ہیں۔محنت کش اور غریب متذبذب ہیں‘ ریاست اور نظام کے ہاتھوں مسلط شدہ سیاسی افق پر بڑی سیاسی پارٹیوں کے بائیں جانب انہیں صرف پیپلز پارٹی ہی دکھائی دیتی ہے‘ یہ تین نسلوں سے ان کی روایت چلی آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کی جانب سے اپنی حمایت کو ازلی اور ابدی سمجھ بیٹھی تھی۔حالیہ انتخابات میں روایتی طور پر پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے محنت کش عوام اورنوجوانوں نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا یا پھر فوری فائدوں کے عوض دوسری جماعتوں کے امید واروں کو ووٹ ڈالا۔ دائیں بازو کی جیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے بائیں بازو یا محنت کش طبقے کی پارٹی ہونے کا معمولی ساتاثر بھی ختم کر ڈالا ہے۔ ماضی کے قائدین کی قربانیوں کی بنیاد پر عوام ایسے لیڈروں کو ہمیشہ کے لئے ووٹ نہیں ڈال سکتے جو محنت کش طبقات کے سلگتے ہوئے مسائل کو تسلیم اور حل کرنے کی کوشش تک نہ کرتے ہوں۔ ظلم و استحصال سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد میں عوام کو متحد کرنے والے کسی نظریے اور پروگرام کے بغیر کوئی سیاسی روایت محض خاندان اور افراد کے نام پر ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی لیکن عوام کے پاس ابھی تک کوئی سیاسی متبادل نہیں ہے۔یہ صورتحال کب تک جاری رہ سکتی ہے اور عوام اپنی زندگیوں کو برباد کرنے والے نظام کو کب تک برداشت کریں گے؟ سوشلسٹ متبادل کے طور 1960ء کی دہائی کے اواخر میں سامنے آنے والی پیپلز پارٹی آج قیادت کی موقع پرستی اور ماضی کے اسباق فراموش کرنے کے باعث ذلت کا شکار ہوئی ہے۔ ؎ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندرایک نئی نظریاتی لڑائی شروع ہوگی۔اگر اس لڑائی میںپارٹی کے انقلابی سوشلزم پر مبنی حقیقی پروگرام کی نمائندہ قوتیں فتح یاب ہوتی ہیں تو پھر اصل پیپلز پارٹی کا نیا جنم ہو گا اور وہ مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیںاس ذلت اور جبر سے آزادی دلائے گی۔ جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ کہا کرتا تھا ’’ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔‘‘ پیپلز پارٹی کی بقا سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور سامراج کے چاپلوسوں کو پارٹی سے نکال باہر کرنے اور پارٹی کی تاسیسی دستاویز کو اپنانے میں ہے۔ اس کا حتمی فریضہ1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تکمیل ہے۔بصورتِ دیگراس کا مقدر تاریخ کا کچرا دان ہو گا اور طبقاتی جدوجہد کی نئی موجیں سماج کو تبدیل کرنے کے لیے ایک نئی انقلابی پارٹی تراش لائیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved