تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     09-05-2020

زمین کے بیٹے کا انتقام

انتقام صر ف انسانی جبلت نہیں بلکہ فطرتِ کائنات ہے ۔ چرند پرند ‘ انسان حیوان ‘زمین آسمان کوئی بھی اس جذبے سے خالی نہیں ۔ کورونا وائرس پر ویسے تو درجنوں سازشی تھیوریاں ہمارے دائیں بائیں انگڑائیاں لے رہی ہیں ‘مگر سائنسدان صرف ایک تھیوری پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس زمین کا انتقام ہے ۔ ہم دہائیوں سے زمین کے پھیپھڑوں کو زہر دے رہے ہیں‘ اب زمین ہمارے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہے‘ مگر یہ آخری معرکہ نہیں ہے‘ انسان چاہے تو اب بھی سدھر سکتا ہے ‘ اگر وہ اپنی خواہشات کو اپنی نسلوں پر قربان کردے تو انسانیت کی بقا ممکن ہے ۔ سو سال پہلے کا انسان زمینی حسن کا حصہ تھا ‘ درخت ‘ پہاڑ‘صحرا‘دریا ‘سمند ر‘ اور ہوا خوشبو کی طرح انسان میں مہکتے تھے اور پھر 1930ء کے صنعتی انقلاب نے انسان کو نیچر کا دشمن بنا دیا ۔ترقی اور خوشحالی کی انسانی ہوس‘ قدرتی حسن کے لیے موت کا پیغام لائی ۔ جس کا نتیجہ آج کے انسان کو موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس جیسی وباؤں کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات ایک جیسی ہیں اور دونوں انسانیت کے لیے ایک سا خطرہ ہیں ۔ اگر اقوامِ عالم نے نیچر کے ساتھ جنگ نہ چھیڑی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔ ایسا نہیں کہ کورونا جیسے وائرس نے پہلے کبھی انسانی بستیوں کا رخ نہیں کیا ‘ یہ پہلے بھی حملہ آور ہوتے تھے مگر جانور ‘ درخت ‘ زمین اور پہاڑ ان کا راستہ روکتے تھے ۔ جانور وائرس کو کھا جاتے تھے اور انسان اس کی شدت سے محفوظ رہتا تھا ۔ مگر اب انسان نے اپنی مشکل خود بڑھا دی ہے۔ ہم تیل اورگیس نکالنے کے لیے جنگلات کاٹتے ہیں ‘ زمین کا دامن چھلنی کرتے ہیں ‘ سمندر کو آلودہ کرتے ہیں اور پھر امید رکھتے ہیں کہ اس کے مضر اثرات نہیں ہوں گے ۔ ہم جانوروں کو ٹیکے لگا کرزیادہ دودھ نکالتے ہیں اور اس کے وجود کو کھوکھلا کرتے ہیں ‘ زمین پر کیمیکل چھڑک کر زیادہ پیداوار حاصل کرتے ہیں اور پھر خام خیالی کرتے ہیں کہ یہ سب ہماری بربادی کا سبب نہیں بنے گا ۔
یہ بات طے ہے کہ کورونا وائرس جیسے خطرات حضرت انسان کے اپنے پیداکردہ ہیں ۔ہم نے اپنا ایکو سسٹم یعنی ماحولیاتی زنجیر کو خود کاٹ دیا ہے ۔ ایکو سسٹم کے تین حصے ہوتے ہیں‘ پہلا پودے اور درخت ‘ دوسراحصہ انسان ‘ جانور ‘کیڑے مکوڑے اور تیسرا حصہ جانداروں کا موت کے بعد مٹی میں مل جانا۔ یہ تینوں کڑیاں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں ۔ درخت نہ ہوں تو جانوروں اور انسانوں کو توانائی نہیں ملتی او رپھرکورونا جیسے وائرس انسان کو آسانی سے قابو کر لیتے ہیں ۔اس میں کیا شبہ ہے کہ انسان خود اپنا سب سے بڑا دشمن ہے‘ آپ برازیل کی مثال ملاحظہ کریں جس کے ایمازون کے جنگلوں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے ۔ گزرے کئی سالوں سے وہاں جنگل کی کٹائی جاری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ انڈسٹری لگائی جاسکے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایمازون کے جنگل کو ہر منٹ میں فٹ بال گراؤنڈ جتنا کا ٹا جا رہا ہے ‘جو ماحولیات کی تباہی کا پروانہ ہے‘ مگر برازیل کا صدر اسے پڑھنے سے قاصر ہے ۔ دنیا بھرمیں تین زون ایسے ہیں جو سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے ہیں‘ ان میں چین ‘ امریکہ اور یورپ شامل ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ یہ تینوں ہی کورونا وائرس کا گڑھ ثابت ہوئے ہیں‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کا زہر نگلا ہے ۔امریکہ اور چین اپنی معاشی اور ایٹمی ضرورتوں کے پیش نظر کبھی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو اہمیت نہیں دیتے‘ جس کے باعث دنیا بھر کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے ‘مگر دنیا اسے بھانپ نہیں رہی ۔زمین کا درجہ حرارت بڑھنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلوں میں نمی ختم ہوچکی ہے جس کے بعد آگ لگنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ چند ماہ قبل آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ نے نوے لاکھ ایکڑ جنگل کو جلا کر راکھ کر دیا اور پچاس کروڑ جانوروں کی زندگیاں چھین لی تھیں ۔ چند لمحوں کے لیے سوچیں جانور اور درخت ایسے ختم ہوں گے تو انسان کہاں چین سے جی سکتا ہے ؟ 
2015ء میں پیرس میں ہونے والے معاہدے کے مقاصد میں دنیا کا درجہ حرارت دو ڈگری سنٹی گریڈ سے کم کرنا تھا‘ مگر امریکہ نے ہٹ دھرمی دکھائی اور پانچ سال کے اندر اس معاہدے سے نکل گیا۔ دنیا اب چین کی طرف دیکھ رہی ہے‘ مگر وہ بھی اس معاہدے سے منہ پھیر رہا ہے ۔برطانیہ کے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کے مطابق اگر پیرس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو عالمی معیشت کو اگلے80 برسوں میں600 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے ۔یہی نہیں ‘ امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تازہ ریسرچ کے مطابق اگر گلوبل وارمنگ کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو اگلے پچاس سال کے اندر دنیا میں اتنی تبدیلیاں آئیں گی جو گزشتہ چھ ہزار سال میں نہیں آئیں اور گرمی اتنی بڑھ جائے گی کہ دنیا کی ایک ارب سے زائد آبادی کے لیے برداشت کرنا ممکن نہ ہو گا ۔ اسی خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پوری دنیا کو خبر دار کیا ہے کہ موسمی تبدیلی کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اسے سنجیدہ لیا جائے ۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات انتہائی کم ہیں ‘ کل رقبے کا چار فیصد ‘اور اس کو بھی ٹمبر مافیا گھن کی طرح کھا رہا ہے ۔ صنعتی آلودگی اور کوئلے کے بجلی گھروں کے باعث ہمارا کاربن فٹ پرنٹ صرف ایک فیصد ہے مگر جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق ہم ان بدقسمت ممالک میں پانچویں نمبر پر ہیں جو سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے زد میں ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اس مسئلے کا پوری طرح ادراک رکھتی ہے اسی لیے بلین ٹری جیسے منصوبے کو پاکستان بھر میں پھیلانا چاہتی ہے ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگارافراد کو بھی درخت لگانے کی مہم میں شامل کیا گیا ہے جو ماحولیات کے لیے اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔ دنیا اگر کورونا وائرس جیسی مہلک وباؤں سے بچنا چاہتی ہے توموسمیاتی تبدیلی کو خطرہ نہ بننے دے۔ اپنے نباتاتی سسٹم پر توجہ دے ورنہ کورونا جیسے وائرس زمین کا بیٹا بن کر انسانوں سے بدلہ لیتے رہیں گے ۔ آخر کب تک انسانیت یوں ہی لہو لہان ہوتی رہے گی ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved