کورونا وائرس کا سامنا جس طرح کرنا چاہئے تھا، اور جس طرح کیا گیا، یہ سوال اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جو کچھ ہو گیا سو ہو چکا، پہیہ اُلٹا نہیں گھمایا جا سکتا، لیکن جو اب ہونا چاہیے یا اب ہو سکتا ہے، اس پر بحث کی جا سکتی ہے، اور کی بھی جانی چاہئے۔ یہ وبا اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ ہمارے سروں ہی پر نہیں منڈلا رہی، ہمارے درمیان دندنا رہی ہے، اور ہر روز اس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دُنیا کا ہر شخص جسے اللہ تعالیٰ نے آنکھ نام کی کوئی چیز اور دماغ نام کی کوئی شے دے رکھی ہے، صاف دیکھ اور سمجھ رہا ہے کہ انسانی تاریخ کی اس انوکھی وبا پر انسانی رابطوں کو محدود کر کے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انسان سے دوسرے کو اس طرح منتقل ہوتی ہے کہ نہ منتقل کرنے والے کو پتہ چلتا ہے، نہ ہی وصول کرنے والے کو کانوں کان خبر ہوتی ہے۔ اس کی علامات بھی بعض اوقات ظاہر نہیں ہوتیں اور انسان صحت مند ہو جاتا ہے، بعض اوقات یہ اسے ڈھیر کر دیتی ہے۔ اس کا نشانہ بننے والوں کے طبی معائنوں ہی سے اس کے طریقۂ واردات اور اثرات کا اندازہ ہو رہا ہے۔ یہ جسم کے کس کس حصے کو کس کس انداز میں متاثر کرتی ہے، اور اس کے وار کس طرح ناکام بنائے جا سکتے ہیں، طبی ماہرین اس کے مطالعے میں مصروف ہیں۔ کون کون سی دوا کس کس مرحلے پر کس کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے، دُنیا بھر میں معالجین کے کئی گروپ اس کے تجربے اور مشاہدے میں لگے ہوئے ہیں، اور ہر گزرتے دن ان کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے اِس وبا کے اثرات کو زائل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جب یہ سب مطالعاتی گروپ اپنا کام مکمل کر چکے ہوں گے، سینکڑوں کیا ہزاروں مریضوں کے احوال ان کے سامنے ہوں گے، تو پھر زیادہ قطعیت کے ساتھ ان کی آرا سے بنی نوع انسان کو استفادے کا موقع ملے سکے گا۔ اِس وبا کی ویکسین کی تیاری کے لیے سینکڑوں ماہرین کئی ممالک میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اِس حوالے سے جو سرمایہ کاری ہوئی ہے، اور جتنی کم مدت میں جتنی پیش رفت ہو رہی ہے، اس کی مثال بھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ایک سال یا اس سے کم یا اس سے زیادہ عرصے میں ایسی دوا دریافت کر لی جائے گی جو انسانی جسم میں داخل ہو کر اسے اِس قابل بنا دے کہ وہ اِس وائرس کا مقابلہ کر کے اسے شکست دے سکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اُس وقت تک انسانی معاشروں کو اس کے ساتھ رہنا پڑے گا، اور وہ تدابیر اختیار کرنا پڑیں گی جو اس کو محدود سے محدود تر کر سکیں، اور پلٹ کر آنے سے بھی روکیں۔
چین اور دُنیا کے بعض دوسرے ممالک میں اسی نسخے کو آزما کر معمولاتِ زندگی بحال کیے جا رہے ہیں، لیکن جن ممالک نے بر وقت اسے محدود کرنے، اور معمولاتِ زندگی کو تبدیل کرنے کے انتظامات نہیں کیے، ان میں نہ وائرس زدہ انسان سنبھالے جا رہے ہیں، نہ لاشیں۔ امریکہ اس کی ایک بڑی مثال بن گیا ہے۔ وہاں کی قیادت نے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، اسے آج وہاں کے عوام بھگت رہے ہیں۔ وہ لاک ڈائون سے بھی عاجز آ چکے ہیں، اور ابھی تک اس سے نکلنے کا کوئی محفوظ راستہ بھی تلاش نہیں کر پا رہے۔ پاکستان میں بھی ڈھیلا ڈھالا لاک ڈائون کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اول روز ہی سے دیہاڑی دار لوگوں کے بھوکوں مرنے کے خدشے سے دوچار ہو گئے، اور نتیجتاً ایسا کنفیوژن پیدا ہوا جو ابھی تک دور نہیں ہو پا رہا۔
یہ درست ہے کہ 22 کروڑ لوگوں کو آپ طویل عرصے کے لیے گھروں میں قید نہیں کر سکتے، لیکن اگر لوگوں کو اول روز ہی سے یہ باور کرایا جاتا کہ چند ہفتوں یا مہینوں کی تکلیف کے نتیجے میں آسانی پیدا ہو گی، اس وبا کو محدود سے محدود تر کر کے معمولات کی بحالی ممکن ہو جائے گی تو لوگوں کا رد عمل مختلف ہوتا۔ تاجر اور صنعت کار بھی اس کا برنگ دیگر مقابلہ کرتے۔ مقام شکر ہے کہ پاکستان میں ابھی تک حالات قابو سے باہر نہیں ہوئے، لیکن متاثرین کی تعداد میں کمی آنا بھی شروع نہیں ہوئی۔ جوں جوں ٹیسٹنگ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، پازیٹو افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس عالم میں کوئی بے احتیاطی یا بے تدبیری بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، متاثرین کی تعداد میں اتنا اضافہ کہ ہسپتال نا کافی پڑ جائیں، اور طبی عملہ ان کی نگہداشت کے لیے ڈھونڈا نہ جا سکے کہ تربیت یافتہ ڈاکٹروں اور ان کے معاونین کو پلک جھپکنے میں ''ملٹی پلائی‘‘ نہیں کیا جا سکتا، یہ لازم ہے کہ لوگوں کو کسی نظم میں باندھا جائے۔ لاک ڈائون نرم کرنے کا فیصلہ تو مرکزی سطح پر کر لیا گیا ہے؛ تاہم پنجاب کے 6 بڑے شہروں میں کورونا پھیلائو کے باعث لاک ڈائون میں نرمی نہیں کی جائے گی۔ بڑے شہروں میں جزوی لاک ڈائون بدستور جاری رہے گا کہ لاکھوں کیا کروڑوں شہریوں کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دینے کے نتائج بہت کچھ تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے معاونین کی طرف سے بار بار یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ لاک ڈائون میں پیدا ہونے والی نرمی کے بعد اب لوگوں کو خود اپنی حفاظت کرنا ہو گی۔ انہیں اپنے طور پر سماجی فاصلہ برقرار رکھنا، ماسک پہننا‘ سینی ٹائزر استعمال کرنا اور ہاتھوں کو دھوتے رہنا ہو گا۔ اجتماعات سے گریز کرنا ہو گا۔ ان کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں کو زبردستی نافذ نہیں کر سکتی۔ یہ ایک انتہائی غیر منطقی منطق ہے۔ اگر حکومت نے احتیاطی تدابیر کا معاملہ لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دینا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کم فہموں، کٹ حجتوں اور لاپروا عناصر کے ہاتھ میں تمام شہریوں کا حال اور مستقبل دے دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں تو سب سے پہلے ٹریفک پولیس کا خاتمہ کر دینا چاہئے اور لوگوں پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ ٹریفک کے قوانین کی عملداری کریں یا نہ کریں۔ ہم تو یہ بھی کہیں گے کہ دوسری پولیس کو بھی رخصت دے دینی چاہئے، ملاوٹ اور گراں فروشی کو چیک کرنے والوں کو بھی فارغ کر دینا چاہئے، اگر یہ سب کام لوگوں ہی پر چھوڑ دینا ہیں تو پھر حکومت کا جواز ہی ختم ہو جائے گا۔ جو حکومت ضابطے نافذ نہیں کر سکتی، اسے حکومت کہلانے کا کوئی حق ہے، نہ اس پر فائز رہنے کا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور رضا کاروں کو بہر قیمت وہ قواعد نافذ کرنا ہوں گے، جو کورونا وائرس کو محدود رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ حالات پر گہری نظر رکھنا ہو گی، اگر متاثرین کی تعداد بڑھتی نظر آئے تو فی الفور سخت اقدام کرنا ہو گا۔ حکومت کو حکومت بن کر دکھانا ہو گا۔ یہ درست ہے کہ کاروبارِ زندگی ہمیشہ کے لیے بند نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی درست ہے کہ اسے بے دھڑک کھولا بھی نہیں جا سکتا۔ جب تک یہ وائرس موجود ہے، تب تک ہمیں اپنی ایڑیوں پر کھڑا رہنا ہو گا، موثر تدابیر سے جلد نجات ہو گی، لیکن ڈھیلا پن مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ اہلِ اقتدار و انتظام ایڑیوں پر کھڑے نہیں رہیں گے تو پھر انہیں بھی ایڑیاں رگڑنا پڑیں گی، خدا معلوم کتنی بڑی تعداد میں
اور کون کون ان کے ساتھ اسی حشر سے دوچار ہو جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
جب تک یہ وائرس موجود ہے، تب تک ہمیں اپنی ایڑیوں پر کھڑا رہنا ہو گا، موثر تدابیر سے جلد نجات ہو گی، لیکن ڈھیلا پن مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ اہلِ اقتدار و انتظام ایڑیوں پر کھڑے نہیں رہیں گے تو پھر انہیں بھی ایڑیاں رگڑنا پڑیں گی۔