دنیا میں کسی کو بھی خامی بتائی جائے اسے اچھا نہیں لگتا۔ مجھے بھی نہیں لگتا۔
یہاں روز حکومت کی خامیاں بتانی ہوتی ہیں تو بھلا کیسے آپ کسی کو اچھے لگ سکتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا پر اس وقت تین بڑی پارٹیاں سخت ناراض ہیں۔ تینوں نے تنخواہ دار ملازم رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے جعلی ٹویٹر اکائونٹس بنا کر گالی گلوچ بریگیڈز اپنے اپنے مخالفیں پر چھوڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت میڈیا کو کہیں سے سپورٹ نہیں مل رہی۔ وہ عوام جن کے لیے میڈیا حکمرانوں کی نظروں میں برا بنتا ہے وہ بھی حکمرانوں کے گیت گاتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کو داد دینی پڑے گی کہ جن عوام کے وسائل لوٹتے ہیں انہی کو اپنے دفاع پر بھی لگا رکھا ہے۔
چند لوگوں کو جیب سے پیسے دے کر ملازم رکھ لو۔ ان کے ذریعے جعلی اکائونٹس بنوا کر حکمرانوں کو فرشتہ ثابت کر دو۔ یہ خطہ صدیوں غلام رہا ہے‘ لہٰذا غلامی اب ڈی این اے میں داخل ہو چکی ہے اور آپ کو کسی بھی چور کو ہیرو بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ پہلے زمانوں میں عام بندہ کسی بڑے کو ہاتھی پر سوار دیکھ کر پائوں پڑ جاتا تھا‘ اب جس کے پاس اپنا جہاز اور بڑی گاڑی ہے اسے مہان سمجھ بیٹھتا ہے۔
حالت یہ ہے پیپلز پارٹی، نواز شریف پارٹی اور تحریک انصاف تینوں میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ ہم برا کریں اچھا کریں تم کون ہوتے ہو ہم سے پوچھنے یا سوال کرنے والے؟ میں کالم نگار توفیق بٹ کو پڑھ رہا تھا‘ جن کی کچھ دن پہلے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے ملاقات کے حوالے سے اہم باتیں لکھی ہیں‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران میڈیا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور خان صاحب کیا توقع رکھتے ہیں۔ طنزیہ فرمایا گیا کہ میٖڈیا چاہتا ہے پالیسیاں ان سے پوچھ کر بنائوں۔ سوال یہ ہے پھر وہ خود کیوں نواز شریف اور زرراری کی پالیسیوں پر دن رات تنقید کرتے تھے؟ وہ دونوں بھی منتخب حکمران تھے۔ سیاہ کرتے یا سفید۔ تنقید کا جو حق عمران خان صاحب نے خود بائیس برس استعمال کیا وہ اب چاہتے ہیں میڈیا اس حق کا استعمال نہ کرے‘ حکمران کچھ بھی کریں میڈیا چپ رہے۔ جس کو بائیس برس محنت کرکے اسی میٖڈیا نے سیاسی طور پر پروان چڑھایا‘ ایک روپیہ لیے بغیر ایک سو چھبیس دن تک ان کا دھرنا براہ راست گھنٹوں دکھایا‘ جب ان کے ڈی چوک میں درجن بھر لوگ بھی نہیں ہوتے تھے‘ تو کنٹینر پر کھڑے ہر اس صحافی کی تعریف ہوتی تھی جو اس وقت کی حکومت کے خلاف لکھ یا بول رہا تھا۔ آج خان صاحب اسی میڈیا پر سب سے زیادہ ناراض ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خان صاحب سب سے زیادہ نقصان میڈیا کو پہنچا کر جائیں گے۔ اب بھی ان کے دور میں جس طرح میڈیا کا حشر کیا گیا ہے وہ پہلے نہیں ہوا۔ یہ بات نہیں کہ پہلے فرشتے تھے۔ ہر حکومت اور حکمران کی کوشش کرتی ہے وہ میڈیا کو کچل کر رکھ دے تاکہ میڈیا ان کی کرپشن اور عیاشیوں کی کہانیاں عوام تک نہ پہنچائے اور عوام شور نہ مچائیں کہ ان کے خون پسینے کی کمائی کیسے چند لوگ ہڑپ کر رہے ہیں یا ان کے دوست لوٹ رہے ہیں۔
زرداری کی پارٹی اس وجہ سے ناراض ہے کہ جب سپریم کورٹ میں ان کے چھ ارب روپے منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا تھا تو اس وقت میڈیا سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔ نواز شریف پانامہ کی وجہ سے میڈیا سے ناراض ہیں۔ اس وقت تک سوشل میڈیا اپنی جگہ بنا چکا تھا لہٰذا وزیراعظم ہائوس میں ایک میڈیا سیل بنا کر صحافیوں کی درگت بنانا شروع ہوئی۔ ہر قسمی گالی اس وقت بھی دی گئی۔ آپ کو یاد ہو تو باقاعدہ ایک ہزاروں ورکرز کا سوشل میڈیا کنونشن کرایا گیا تھا جس سے نواز شریف نے خطاب کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ جو بھی حکومت پر تنقید کرے اس کا جینا حرام کر دو کہ اسے جرأت کیوں ہوئی بادشاہ سلامت کی کرپشن چھاپنے کی یا اس پر پروگرام کرنے کی۔ اس کے باوجود نواز شریف کی آدھی پارٹی پر سکینڈلز سامنے آئے اور وہ سب جیل تک گئے۔ نواز لیگ بھی اپنے مقدموں کا ذمہ دار میڈیا کو سمجھتی ہے کہ نہ ہوتا بانس اور نہ بجتی بانسری۔ لیکن اس وقت زرداری اور نواز شریف میڈیا کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہ کر سکتے تھے کیونکہ اس وقت عمران خان ایک بڑا سیاسی تھریٹ بن چکے تھے اور وہ میٖڈیا کے ساتھ کھڑے تھے۔ عمران خان صاحب حکومت میں نہیں آئے تھے لہٰذا ان پر مالی کرپشن کا اس طرح الزام نہیں لگ سکتا تھا‘ جیسے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پر لگ رہا تھا۔ نواز شریف حکومت کے مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے اور دونوں کیمپ چاہتے تھے کہ میڈیا ان کی طرف داری کرے لہٰذا میڈیا پر کوئی دبائو نہ آیا؛ تاہم اب تینوں پارٹیاں میڈیا سے ناراض ہیں اور متفق ہیں کہ میڈیا کو دبایا جائے۔
جب عمران خان اقتدار میں آئے تو وہ اسی وی آئی پی سلوک کی توقع کیے ہوئے تھے جو بائیس سال تک ان کے ساتھ ہوتا رہا کہ وہ ایماندار ہیں اور ان کی ٹیم بہت ایماندار ہے اور اگر ماجد خان کو نہیں بخشا تو کس کی مجال۔
لیکن وہ اپنے پہلے ہی امتحان میں فیل ہوئے جب پاک پتن میں پولیس افسران کو ذلیل کرکے نکلوانے میں ایک صاحب کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ صحافیوں کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی الٹا ان سب پر ناراض ہو گئے کہ کیوں اس معاملے کو اچھالا۔ ڈی پی او رضوان گوندل‘ جس کا اس سارے معاملے میں قصور نہ تھا‘ کو نہ صرف سزا دلوائی بلکہ آج تک اسے پوسٹنگ نہیں لینے دی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے رضوان گوندل کو ایڈمن کی پوسٹنگ دی تو وہی صاحب ان کے پاس پہنچ گئے کہ کیسے اسے پوسٹنگ دی۔ ڈی جی ایف آئی اے نے انکار کیا تو گوندل کو ہٹا دیا گیا۔
اور جب خان صاحب کے اپنے قریبی دوستوں کے سکینڈلز اور کابینہ کے وزرا کے نام سامنے آنے لگے تو خان صاحب کے پاس آپشن تھا کہ اپنی ساکھ بچاتے اور وزیروں کی چھٹی کراتے یا پھر ان کی کرپشن کو چھپاتے۔ انہوں نے کور اپ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ چاہتے ہیں جیسے وہ خود اقتدار میں جا کر بدل گئے ہیں‘ ویسے ہی میڈیا خود کو ان کی خواہشات، پسند ناپسند اور ترجیحات کی بنیاد پر بدلے۔ وہ اگر بدل رہے ہیں تو انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ ان کے درجن بھر ذاتی دوستوں اور ذاتی ملازموں تک کو جو اعلیٰ حکومتی عہدے دیے گئے ہیں اس پر کچھ نہ کہا جائے۔ اگر ان کے قریبی وزیر دوائیوں کے سکینڈل میں اربوں کما لیں یا گندم کے سکینڈل میں پیسہ بنا لیں یا پھر چینی میں سو ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیں تو بھی کوئی کچھ نہ بولے۔ ان کے طاقتور مشیروں اور وزیروں کے بجلی گھر اگر پوری قوم کو لوٹ لیں تو بھی آپ چپ رہیں۔ اگر کوئی بولے گا تو فرمائیں گے میڈیا ملک دشمن ہے اور حکومتوں کو نہیں چلنے دیتا۔
کچھ دن پہلے میں نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک خبر بریک کی: وزیر اعظم نے بھارت سے لائف سیونگ ڈرگز کی امپورٹ پر سے بین اٹھا لیا تھا۔ صرف چند ادویات کی اجازت دی۔ اب پتہ چلا ہے کہ حکومت کے بڑوں نے امپورٹرز کے ساتھ مل کر سر درد تک کی گولیاں اور پتہ نہیں کیا کچھ منگوا لیا تھا۔ ایسی بہت ساری ادویات تو پاکستان خود بڑی مقدار میں بناتا ہے۔ کابینہ کے فیصلے کو مرضی سے استعمال کر لیا گیا۔ اب خان صاحب اس پر بھی ناخوش ہیں کہ یہ سکینڈل کیوں رپورٹ ہوا۔
فہمیدہ مرزا صاحبہ چوراسی کروڑ کا بینک قرضہ معاف کراکے وزیر بن بیٹھی ہیں۔ اعظم سواتی صاحب کی کرپشن پر سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی نے پانچ رپورٹس پیش کیں وہ پھر وزیر بن گئے ہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی کے ایک پرانے دوست‘ جس کے گھر وہ اسلام آباد رہائش پذیر تھے‘ کو پشاور میٹرو میں پندرہ ارب روپے کا ٹھیکہ ملا۔ یہ وہ کمپنی ہے جس پر سترہ کروڑ کا مقدمہ ہے۔
جتنا غصہ خان صاحب کو میڈیا پر ہے اگر اس کا دس فیصد بھی اپنے اردگرد بیٹھے لٹیروں پر کرتے جو عوام کو ادویات سے لے کر گندم، شوگر اور بجلی گھروں تک میں چونا لگا گئے ہیں تو انہیں میڈیا پر غصہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہی میڈیا جس کی تعریفیں کنٹینرز سے ہوتی تھیں آج کل اس کا نام سن کر ہی خون کھولنے لگتا ہے۔ اتنی دیر لگتی ہے میڈیا کو حکمرانوں کی آنکھ میں ہیرو سے زیرو بننے میں۔ جس طرح خان صاحب میڈیا کو رگڑا لگا رہے ہیں اس سے محاورہ یاد آ گیا جو دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھ لیتے ہیں، اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔