قوم کو لوٹنے والے مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''قوم کو لوٹنے والے مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے‘‘ کیونکہ قوم کو لوٹنا اس قدر بھیانک جرم ہے کہ سوچتے ہی آدمی پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور میں ابھی تک اس لرزے سے باہر نہیں نکلا ہوں اور مجھے سمجھ نہیں آئی کہ لوگ موٹی دولت لوٹنے کی جرأت کیسے کر لیتے ہیں اور عوام ایسے لوگوں کو برداشت کیسے کرتے ہیں کیونکہ مادرِ وطن کے ساتھ اس سے بڑی غداری اور کیا ہو سکتی ہے اور ہمارے جیسے معصوموں کو یہ کس قدر حیران اور پریشان کر ڈالتے ہیں جنہوں نے کبھی ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ آپ اگلے روز ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت ٹڈی دَل حملے کو روکنے کیلئے کام کرے: بلاول
چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت ٹڈی دل حملے کو روکنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرے‘‘ لیکن اس کی بجائے وہ اٹھارہویں ترمیم کی جڑیں کھودنے میں لگی ہے اور اس طرح ملک کی مایہ ناز قیادت کے ٹھوٹھے پر ڈانگ مار رہی ہے‘ جس کی خوشحالی اسے ایک آنکھ نہیں بھائی کیونکہ صوبے جتنے زیادہ متمول ہوں گے ان کے حکمران بھی اتنے ہی کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوں گے جنہیں حکومت فاقہ کشی پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
احتیاط نہ کی گئی تو دوبارہ لاک ڈائون ہوگا: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''احتیاط نہ کی گئی تو دوبارہ لاک ڈائون ہوگا‘‘ جس طرح حکومت خود بہت احتیاط سے کام لے رہی ہے اور اس نے آٹا چینی سکینڈل میں ملوث لوگوں کو کہہ دیا ہے کہ آئندہ وہ بھی احتیاط کریں جس کا انہوں نے پختہ وعدہ بھی کر لیا ہے اور فی الحال ان کے لیے یہی کافی سمجھا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے قلمدانوں اور محکموں میں تبدیلی کر کے انہیں عبرت پکڑوائی جائے اور یہ بھی فرانزک رپورٹ کے آنے اور اسے پبلک کرنے کے فیصلے پر منحصرہے کہ ملکی و قومی مفاد اس کی اجازت دیتاہے یا نہیں۔ آپ اسلام آباد سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
عوام دکھوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام دکھوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں‘‘ اگرچہ اس پریشانی میں میری روز روز کی تقریروں کی بوچھاڑ بھی شامل ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں اسے ترک کر دوں تو خود پریشانیوں اور دکھوں میں گھر جاتا ہوں جن سے نکلنے کیلئے ہاتھ پیر تو مارتا ہوں لیکن تقریروں کا ہاتھ پیروں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ منہ سے کی جاتی ہیں اور منہ یا تو کسی طرف کر کے چلا جائے یا یہ منہ اور مسور کی دال کا ورد کیا جائے۔ آپ اگلے روز منصورہ میں مختلف وفود سے ملاقات کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
میرؔ کو پڑھتے ہوئے
جیسے بہت تیز گاڑی چلاتے ہوئے اونگھ آ جائے
ٹکرا جائے آدمی، درختوں سے
اندھیرے کے غلاف میں
ساری چکا چوند گم ہو جائے
وقت الٹے پھیرے لگانے لگے
شاہراہیں اور بستیاں ان سنی آوازوں سے بھر جائیں
چولہوں پر پانی پڑ جائے
کانٹوں سے بھر جائیں آنکھیں
آدمی ... پر کٹے پرندے کی طرح مٹی میں لوٹنے لگے
جس پر بارش کے قطرے
ابھی خوشبو دے رہے ہوں
بیٹھ رہے غبار بن کر...
مرغ کی اذان کے ساتھ
غزل گاتے فقیر کی آواز
سر پھوڑنے لگے
گہری نیندوں کے کواڑوں سے
درد سے دل بھر جائیں
اور ایک دیوار کانپ اٹھے
جیسے فصیلوں میں در نکل آئیں
آسایش کی کرسی سے اٹھ کر نکل پڑے آدمی
منجمد لمحوں سے الجھنے کو
گلیوں میں اکتارا بجاتا
خواہ مخواہ اوڑھی ہوئی تھکن اتار پھینکے
کسی خاموش بستی کی خالی موڑ پر کھڑا ہو جائے
دھول میں سے کسی کے برآمد ہونے کے انتظار میں
کسی بھی جانب چل پڑے
کہیں بھی نہ پہنچنے کے لیے
ٹھنڈک بھرے ہاتھ کی طرح
کوئی چاند دل کو مسلنے لگے
آدمی بے آب آنسوئوں میں نہا جائے
اور اسے معلوم ہو جائے
کہ عشق کے افسوں میں، موت کو گلے لگانا
اسی قدر آسان ہے،جیسے
کسی موہوم آہ کو بازوئوں میں بھر لینا!!
آج کا مطلع
روٹی کپڑا بھی دے مکان بھی دے
اور مجھے جان کی امان بھی دے