تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     10-05-2020

نسلی قومیت اورتہذیبی شعور

ہمارے اس نیم قبائلی معاشرے میں ذہنی محرومیاں اس قدر عمیق ہیں کہ اپنے احساسِ کمتری کی تلافی کی خاطر لوگ قومی عظمت کو ماضی بعید کے نسلی رشتوں میں تلاش کرتے ہیں اور اس رجعت قہقری کے دوران وہ انسان کے اس ذہنی سفر کے ابطال سے بھی گریز نہیں کرتے جسے اخوتِ انسانی کا مشترکہ ادراک سمجھا جاتا ہے۔ان دنوں سندھی قوم پرست نوجوان ٹویٹر پر محمد بن قاسم کو جارح اور راجہ داہر کو قومی ہیرو منوانے کا ٹرینڈ چلا رہے ہیں‘کچھ عرصہ قبل پنجاب میں بھی رنجیت سنگھ کا مجسمہ سجانے اور اسے قومی ہیرو کا درجہ دینے کی مہم چلائی گئی تھی۔نسل پرستی کا یہ بخار کبھی کبھار بلوچوں اور پشتونوں کو بھی چڑھتا رہا‘ وہاں بھی ما قبل از اسلام کے سورماؤں کو آئیڈیلائز کرنے کی گونج سنائی دیتی رہتی ہے‘یہ ذہنی خلجان دراصل نفسیاتی پسپائی اورناقابلِ فہم قنوطیت کی علامات میں شمار کیا جائے گا۔
بلاشبہ جن قوموں کا ماضی تابناک اور حال زوال آشنا ہو تو وہ اپنے ماضی میں سامانِ غرور تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ لیکن مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ مجموعی طور پر مذہبی‘نسلی اور وطنی قومیت کے تصورات میں منقسم دکھائی دیتے ہیں‘افسوس کے ہماری اجتماعی دانش دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کی متنّوع ثقافتوں اور اُمہ کے آفاقی تصور میں ربط پیدا کر سکی نہ مسلم قومیت کی فلسفیانہ توضیح کے قابل ہوئی‘اسی لئے کرہ ٔارض کے مسلمانوں کا تصورِ قومیت ہمیشہ کنفیوژ رہا‘شاید اسی الجھن کی وجہ سے مسلم معاشرے عربی‘عجمی‘طورانی اور ہندوستانی قومیتوں کے آشوب میں سر کھپاتے ہیں۔تحریک آزادی کے ہیرو مولانا حسین احمد مدنیؒ نے کہا تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں تو علامہ محمد اقبالؒ نے اس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے وطنی قومیت کے تصور کو ملت ِاسلامی کی ترکیب کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
پھر اپنی نظم 'طلوع ِ اسلام‘ میں کہا کہ؎
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی‘نہ ایرانی نہ افغانی
لاریب‘حضرت اقبالؒ نے بھی غلامی کی تاریکی میں ڈوبے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے اجداد کے کارنامے یاد دلا کے کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی ؎
کبھی اے نوجواں مسلم تدّبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
پھر 'طلوع اسلام‘ ہی میں کہتے ہیں ؎
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیاتھا زورِ حیدرؓ‘فقرِ بوذرؓ‘صدقِ سلمانیؓ
علامہ اقبال نے ملت ِاسلامیہ کا جو تصور پیش کیا بدقسمتی سے ان کے بعد ہم اس آفاقی تصورِ قومیت کو اپنی قومی وحدت کا وسیلہ نہ بنا سکے؛چنانچہ جس طرح نسلی اور لسانی قومیتیں کبھی انسانیت کا وسیع شعور نہیں پا سکیں اسی طرح مذہبی زعما کے فقہی اختلافات کی جدلیات بھی مسلمانوں کی ملی وحدت کی راہ میں حائل ہو کر اقبالؒ کے ملتِ اسلامیہ کے تصورکو گہناتی رہی۔اب ہمارے پاس صرف تہذیب و تمدن ہی‘ایسی مثبت قوت باقی رہ گئی ہے جو مسلک اور رنگ ونسل کی تفریق سے بالاتر ہو کر ہمارے سماج کو باہم جوڑ سکتی ہے۔بلاشبہ تہذیب کا وسیع ظرف نہایت فراغ دلی کے ساتھ ہر قسم کی نسلی اور لسانی اکائیوں اور مسلکی گروہوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ڈاکٹر اشتیاق قریشی نے کہا تھا کہ کوئی بھی مذہب اپنی اخلاقی قوت کے بل بوتے پر کسی بھی تہذیب کی روح تو بن سکتا ہے لیکن جب پریکٹس میں آئے گا تو وہ تہذیب کا جز بن جائے گا‘بالکل ایسے جیسے دنیا بھر میں پھیلے ایک خدا‘ایک رسولﷺ اور شعارِ اسلامی کو یکساں طور پہ ماننے والے مسلمان بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وظائفِ دینی کو اپنے تہذیبی رویّوں میں ڈھال لیتے ہیں‘رمضان کے روزے عرب‘ایران‘مصر اورسوڈان کے مسلمان بھی رکھتے ہیں وہاں عیدین کے تہوار بھی منائے جاتے ہیں‘ اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں ان شعار ِدینی کی ادائیگی کا انداز قدرے مختلف ہوتا ہے‘یہاں سحر و افطار کے اہتمام اور عیدین کے رنگینی میں علاقائی تہذیب کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔مغرب کے جدید معاشروں میں بھی قومیت کی تعریف تہذیبی ہے‘اس وقت پوری دنیا میں اس گروہِ انسانی کو قوم مانا جاتا ہے‘ جن کا جغرافیہ اور تہذیب و ثقافت ایک اور معاشی مفادات یکساں ہوں۔یہ نسل پرستی جیسی غیر فطری تفریق سے ماورا ایسا عقلی(Rational) تصور ِقومیت ہے جو ہر رنگ و نسل کے لوگوں کو اپنے اندر جذب کرسکتا ہے۔ابھی چند سال قبل راولپنڈی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کسی شہری کو قتل کر دیا‘طویل سماعت کے بعد عدالت نے اسے سزائے موت سنائی‘وہ قاتل ٹیکسی ڈرائیور چونکہ برطانیوی شہریت کا حامل تھا‘اس لئے برٹش گورنمنٹ نے صدر مشرف سے اپیل کی کہ وہ مجرم کو پھانسی سے بچائیں‘جنرل صاحب نے پہلے دیت کے بدلے اسے معافی تلافی دلانے کی کوشش کی‘ لیکن مقتول کے ورثانہ مانے تو انہوں نے صدراتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجرم کی سزائے موت معاف کر دی‘شہزادہ چارلس اسے لینے خود یہاں پاکستان آئے۔ڈینیل پرل قتل کیس میں موت کی سزا پانے والا عمر شیخ بھی برطانوی شہری تھا اس لئے برٹش گورنمنٹ نے نہایت سختی کے ساتھ اسے سزائے موت دینے کی مخالفت کی ‘حالانکہ متذکرہ بالا دونوں مجرم مذہباً مسلمان اور نسلاً برطانوی باشندے تھے‘ بلکہ ان میں سے ایک پر تو امریکی صحافی کو قتل کرنے کا الزام بھی تھا‘ لیکن برطانوی حکومت نے انہیں قومی اپنائیت کا پورا حق عطا کیا۔علیٰ ہذالقیاس‘ دنیا بھر سے کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل کا فرد یورپ اور امریکہ کی شہریت اختیار کر کے مغربی قوموں کا جز بن سکتا ہے۔اسلام کے فلسفہ قومیت میں بھی اتنی لچک موجود تھی کہ ہر تہذیب و ثقافت اور رنگ ونسل کا فرد جب چاہیے اپنی تہذیبی اقدار کو چھوڑے بغیر ملت اسلامیہ کا جُز بن سکتا ہے۔اسلام کسی کے تہذیبی شعور کی نفی نہیں کرتا۔مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ نے جب ایران فتح کیا تو باقاعدہ ایک فرمانِ امروز کے ذریعے ایرانیوں کو حکم دیا کہ اسلام قبول کرنے کے باوجود وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے وابستہ رہیں کیونکہ ہم ان کو عربوں کا نہیں بلکہ اللہ کا غلام بنانے آئے ہیں۔بلاشبہ یورپ اور امریکہ میں بھی کئی گروپوں میں نسلی تعصبات پائے جاتے ہیں لیکن اصولی طور پہ وہاں کی اکثریت احترام انسانیت کو اپنے جدید فلسفہ قومیت کی اساس مان چکی ہے‘لیکن بدقسمتی سے وقت کے ساتھ یہودیوں کی مانند مسلمان معاشروں میں رونما ہونے والے ذہنی زوال نے یہاں بھی نسلی تعصبات کا اثر گہرا کر دیا اور انہی نسلی عصبیتوں نے ہمیں ملت کے اس تصور میں ڈھلنے کی اجازت نہ دی جس کی تصویر حضرت عمرؓ نے پیش کی تھی۔
اہل دانش کہتے ہیں کہ کسی بھی زندہ معاشرے میں انسانوں کے اعمال کو جانچنے کیلئے بہرحال کوئی معیار ضرور دریافت کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح وہ عوامل جو ہمارے محض انسان ہونے سے تعلق رکھتے ہیں‘اسے ہم عام معنی میں نیکی کا نام دیتے ہیں اور اسی کے مطابق ہم کسی کو اچھا یا بُرا انسان کہتے ہیں‘یہ اصول ہمیں انبیا کی وساطت سے ملے‘وہ اعمال جو ہمارے شہری ہونے کی حیثیت سے متعلق ہوں‘انہیں ہم مروجہ قوانین کی میزان پہ پرکھ کر کسی کے اچھا یا بُرا شہری ہونے کا تعین کرتے ہیں اور وہ عوامل جو ہمارے پاکستانی ہونے سے متعلق ہیں انہیں ہم رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کے حوالہ سے پرکھتے ہیں‘انہی اقدار پہ بحیثیت پاکستانی ہماری شناخت کا تعین ہوتا ہے۔ 
مغرب کے جدید معاشروں میں بھی قومیت کی تعریف تہذیبی ہے‘اس وقت پوری دنیا میں اس گروہِ انسانی کو قوم مانا جاتا ہے‘ جن کا جغرافیہ اور تہذیب و ثقافت ایک اور معاشی مفادات یکساں ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved