دنیا اُس موڑ پر آچکی ہے جہاں ہر شخص کو کسی نہ کسی حیثیت میں ''منیجر‘‘ کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں دیکھئے تو ہر انسان کو زندگی بھر مختلف معاملات میں manage ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھئے تو ہم سبھی کسی نہ کسی سطح پر منیجر واقع ہوئے ہیں۔ جو لوگ پورے جذبے کے ساتھ منیجر بننے میں کامیاب ہوں گے وہی حقیقی مفہوم میں کامیاب کہلائیں گے۔ جو اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوں گے وہ بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ہر دور میں وہی لوگ زیادہ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے روئے ارض پر وجود اور اُس کے ساتھ بخشی جانے والی سانسوں کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر پوری سنجیدگی سے توجہ دی ہے۔ صرف اُنہی معاشروں اور اقوام کو بھرپور کامیابی نصیب ہوئی ہے جنہوں نے کم و بیش ہر معاملے میں غیر معمولی نوعیت کے نظم و ضبط کو بنیادی شعار بنایا ہے۔
کم و بیش چار صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ مغربی اقوام صرف اس لیے غیر معمولی ترقی سے ہم کنار ہوتی آئی ہیں کہ اُنہوں نے معاملات کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ جب تک دوسرے خطے سنجیدہ تھے تب تک اُن پر بھی ترقی و خوش حالی کے دروازے کھلتے چلے جاتے تھے۔ جب انہوں نے طے کرلیا کہ سنجیدہ بھی نہیں رہنا اور محنت بھی نہیں کرنی تب اُن کی ترقی و خوش حالی پہلے داؤ پر لگی اور پھر مٹ بھی گئی۔ یوں تو خیر ہر دور انسان سے بھرپور توجہ اور سنجیدگی چاہتا رہا ہے‘ مگر اکیسویں صدی اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اب توجہ دینا اور سنجیدہ رہنا محض آپشن نہیں رہا بلکہ لازمہ ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ زمانے ہوا ہوئے جب کسی بھی انسان کے لیے ہر حال میں جینا بہت آسان تھا۔ اب معاملات کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ اب اگر کسی کو سکون سے جینا ہے تو عمل کی دنیا میں قدم رکھنا پڑے گا‘ زندگی کو ڈھنگ سے بسر کرنے پر متوجہ ہونا پڑے گا۔ جو ایسا نہیں کرے گا وہ مارا جائے گا۔
بیسویں صدی کے دوران یہ طے ہوگیا کہ اب وہی قوم کچھ کرسکے گی جو کچھ کرنا چاہے گی۔ پچھلی صدی میں فطری علوم و فنون میں پیش رفت کی رفتار ایسی تھی کہ جن خطوں نے معاملات کو درست کرنے پر توجہ نہیں دی وہ بہت پیچھے رہ گئے اور اس پس ماندگی کا خمیازہ اب بھگت رہے ہیں۔ طاقتور اقوام اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ امریکا اور یورپ نے کم و بیش نصف صدی تک دنیا کو مکمل طور پر اپنی مرضی سے چلایا۔ اب ان کی مجموعی طاقت میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے تو دیگر ترقی یافتہ اقوام اور خطوں کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ آج جو اقوام اپنی طاقت میں اضافہ کر رہی ہیں کل وہ بھی پس ماندہ اقوام پر اپنی مرضی تھوپیں گی۔ یہ امر افسوس ناک تو ہوسکتا ہے مگر کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں کیونکہ ہر دور میں یہی تو ہوتا آیا ہے۔ آج کی دنیا غیر معمولی مسابقت سے عبارت ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت اتنی زیادہ ہے کہ ذرا سی لاپروائی کسی بھی فرد یا قوم کو بہت پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ جس طور پر فرد کے لیے اپنی خاطر خواہ ترقی یقینی بنانے کی خاطر پوری دیانت کے ساتھ محنت کرنا لازم ہے بالکل اُسی طور ہر قوم کے لیے بھی دیانت کے ساتھ محنت پر متوجہ ہونا لازم ہے۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ سب کو اپنی محنت کے مطابق پھل ملتا ہے۔
ایک صدی سے بھی زائد مدت کے دوران انسان نے جتنی ترقی کی ہے اُس نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سی پیچیدگیوں اور دشواریوں کو بھی جنم دیا ہے۔ بہت سے معاملات میں زندگی پُرآسائش ہوگئی ہے مگر ذہن الجھ کر رہ گئے ہیں۔ نفسی الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ رویوں میں پیچیدگی خطرناک حد تک در آئی ہے۔ آج ہمارے چاروں طرف ٹیکنالوجی کے شاہکار ہیں‘ سہولتیں ہیں۔ ان سہولتوں سے مستفید ہونا ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں اربوں افراد کی زندگی ٹیکنالوجیز کی مدد سے آسان بنائی جاچکی ہے۔ ہاں‘ ایک معاملہ البتہ اب تک سلجھ نہیں سکا۔ ہر انسان بازار میں دستیاب تمام اشیا اور خدمات کے حصول کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے مگر کماحقہ سنجیدگی کے ساتھ محنت کرنے پر متوجہ ہونے والے خال خال ہیں۔ جو کچھ دستیاب ہے وہ سب کا سب ہمارے کام کا نہیں مگر انسان کی ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
آج کے ہر انسان کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اپنے تمام معاملات کا باقاعدگی سے جائزہ لیتا رہے تاکہ اصلاح کی گنجائش پیدا ہوتی رہے۔ بہت سے معاملات میں عمومی رویہ انتہائی پیچیدہ ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے پر متوجہ ہونے پر محض بدحواس ہوتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمومی طریق یہ ہے کہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کے بجائے اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوا جائے۔ یہ روش اس قدر عام ہے کہ دیکھ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ سنجیدہ ہونے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ چونکہ کسی بھی معاملے میں ناگزیر نوعیت کا نظم و ضبط اپنانے سے گریزاں رہتے ہیں اس لیے معاملات سلجھنے کا نام نہیں لیتے۔ نظم و ضبط ہی کی مدد سے زندگی میں حقیقی توازن پیدا ہوتا ہے۔ جب معاشرہ مجموعی طور پر نظم و ضبط کا عادی ہوتا ہے تب تمام معاملات میں ربط اور توازن پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں یہ نکتہ کسی بھی مرحلے میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو بڑی طاقتوں کے درمیان رسّا کشی سے عبارت ہے۔ اس کے نتیجے میں کمزور ریاستوں اور بے ترتیب معاشروں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ کئی خطوں کو بڑی طاقتوں نے اپنی زور آزمائی کے لیے چُن رکھا ہے۔ ایسے میں چھوٹے‘ کمزور اور بے ترتیب معاشروں کو زندہ رہنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ جن ریاستوں میں مسلح مناقشوں نے تباہی کا بازار گرم کر رکھا ہے اُن کی قیادتوں کو سوچنا ہوگا کہ یہ سب کچھ زیادہ دن نہیں چل سکتا۔ اس وقت تک تو یہ ممکن ہے کہ جیسے تیسے‘ ذلت کے ساتھ ہی سہی‘ جی لیا جائے۔ وہ وقت زیادہ دور دکھائی نہیں دے رہا جب ذلت کے ساتھ بھی بقا ممکن نہ ہوگی۔
نظم و ضبط سے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر زندگی متوازن ہو پاتی ہے‘ زیادہ بارآور ہوکر سامنے آتی ہے۔ آج کی دنیا میں وقت‘ وسائل اور توانائی کا ضیاع روکنے کے لیے لازم ہے کہ نظم و ضبط کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ اپنایا جائے۔ ہر دور کا ریکارڈ گواہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر جینے والوں کو کچھ نہیں ملا۔ صرف اُنہی کو کچھ مل سکا ہے جنہوں نے زندگی کا حق ادا کرنے کا سوچا اور پھر ایک خاص ڈھب کے ساتھ‘ متوازن زندگی بسر کرنے پر مائل ہوئے۔