کورونا کی وبا نے جب دنیا میں اپنے پنجے ہر سمت اور ہر جگہ گاڑنے شروع کر دئیے تو کچھ دانشوروں نے مغربی میڈیا میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ وائرس نے ''سب کو برابر‘‘ کر دیا‘ نہ غریب اور نہ ہی امیر اس سے بچ سکتا ہے‘ دیکھیں سب اپنے گھروں میں خوف سے نظر بند ہیں اور سب ایک ہی خوف میں مبتلا ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی مثال دی گئی کہ طاقتور اور ترقی یافتہ ریاستوں کے عہدے دار بھی اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ اور ممالک سے بھی اراکین پارلیمان اور وزیروں‘ مشیروں کو مرض لاحق ہونے کی خبریں موصول ہوئیں۔ یہ خاکسار سوچتا رہا کہ سب برابر کیسے ہو گئے؟ آندھی‘ طوفان‘ سیلاب اور زلزلے بھی آتے ہیں تو جھونپڑیاں گرتی ہیں‘ کچے مکان زمین بوس ہوتے ہیں‘ بوسیدہ اور ناپختہ گھروں کی چھتوں تلے غریب لوگ‘ ان کے اہل خانہ ہی تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہیں۔ متوسط اور امیر طبقے کے لوگ اپنے مضبوط گھروں میں محفوظ رہتے ہیں۔ دنیا میں بسنے والوں کو یکساں طور پر بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جائے تو قدرتی آفات کی زد میں فقط معاشرے کے کمزور طبقات آتے ہیں۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم عالمی سطح پہ ہو یا کسی ایک ملک میں شماریات یہ پتہ دیتے ہیں کہ غریبوں کے بچوں کی اوائل عمر میں اموات کی شرح امیروں کے بچوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ غریب آبادیوں‘ چاہے یہ دنیا بھر میں کہیں بھی ہوں‘ میں حدِ عمر کم رہتی ہے۔ تاریخ کی گواہی بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ جوں جوں ممالک نے ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کیں دو مثبت نتائج سامنے آئے۔ ایک‘ بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی آئی‘ اور دوسرے حدِ عمر بڑھ گئی۔ دیگر ممالک کا رہن سہن اور ان کے معاشروں‘ معیشت اور سیاست کے حالات کوئی راز نہیں رہے‘ ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں۔ جاپان‘ ڈنمارک‘ سویڈن اور اس طرح کے کئی اور ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جہاں بچوں کی شرح اموات کم سے کم اور انسانی زندگی کا اوسط دورانیہ طویل ترین ہے۔ اس کے برعکس غریب ممالک میں‘ جن میں وطن عزیز بھی شامل ہے‘ طبعی زندگی کی حد بڑھی ہے مگر صنعتی ممالک کی نسبت بہت کم۔ ہر ملک کے اندر بھی غریب اور امیر طبقات کے حوالے سے یہ بات ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی کے مہ و سال نہ صرف مختلف انداز میں گزرتے ہیں بلکہ غریبوں کے بچے اگر موت کے پنجوں سے نکل بھی جائیں تو اپنی فطری جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے سے محروم رہتے ہیں۔ تھرپارکر کے ریگستانی علاقوں میں بچوں کی جس قدر اموات واقع ہوتی ہیں‘ سر شرم سے جھک جاتا ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا وہ اللہ کی مخلوق نہیں؟ بالکل ہیں‘ اس میں کوئی اور رائے نہیں‘ لیکن زندگی اور موت کے معاملات کو معاشرے میں معاشی ناہمواریوں‘ طاقتور طبقات کی لوٹ کھسوٹ اور ارتکازِ زر کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ زندگی اور اچھی زندگی کے اسباب‘ وسائل اور دستیابی پر اگر غلبہ کچھ طاقتور طبقات کا ہو تو ظاہر ہے‘ نچلے طبقوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
ہر جگہ سیاست کی عمارت کی اساس دولت پر قائم ہے۔ دولت ہے تو آپ سیاسی کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ایک ایسا مخصوص کلب‘ جس میں داخلہ سب کیلئے قانوناً جائز ہے‘ مگر داخل صرف اہلِ ثروت ہی ہو سکتے ہیں۔ پختہ جمہوریتوں کی بات ذرا اور ہے‘ کہ وہاں عام آدمی بھی مقامی سیاست اور جماعتی نظام کے زور پہ آگے نکل جانے کی توقع رکھ سکتا ہے۔ بلا شبہ جمہوری نظام میں معاشی نا ہمواری کم ہوئی ہے‘ مگر مکمل خاتمے کی منزل ابھی دور ہے۔ بھارت نژاد نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معیشت امرتیا سین کو سننے کا موقع امریکہ میں ایک کانفرنس میں تقریباً تیس سال پہلے ہوا تھا‘ مختصر ملاقات بھی ہوئی‘ اور ان کی کتابیں پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ ان کی تحقیق اور تصنیف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وبا‘ ترقی اور جمہوریت کے حوالے سے ان کا کام اپنا مقام رکھتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ قحط سامراجی دور میں تواتر سے کیوں برپا ہوئے۔ برِ صغیر میں برطانوی دورِ حکومت میں کئی بار قحط آیا‘ اور لاکھوں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ جمہوری نظام میں قحط کیوں نہیں آتے؟ جواب یہ ہے کہ اگر حکمران کسی کو جواب دہ نہیں‘ ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں تو وہ کیوں قیمتی انسانی جانیں بچانے میں اپنے وسائل‘ وقت اور کاوشیں صرف کریں گے؟ سامراجی حکمران کسی کو جواب دہ نہیں تھے‘ اس لئے لوگوں کو کھانے کو کچھ نہ ملا‘ تو وہ ٹس سے مس کیوں ہوتے؟ ناپختہ اور گروہی جمہوریت میں‘ جو ہمارے ہاں قائم ہے‘ کہنے کو تو عوام ووٹ دیتے ہیں‘ مگر جو منتخب ہوتے ہیں‘ ان کا تعلق ایک ہی طبقے سے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فرق ضرور پڑا ہے کہ سیلا ب آئے‘ زلزلہ ہو یا کوئی اور آفت آئے‘ جس طرح آج کل ہم کورونا کا شکار ہیں‘ ہم حکمرانوں کو زیادہ فعال اور مستعد دیکھتے ہیں۔ یہ کچھ بھی ہے‘ ہماری لولی لنگڑی جمہوریت کا ہی کرشمہ ہے کہ جماعتوں میں کچھ نہ کچھ مسابقت ضرور ہے‘ عوامی تائید اور رائے عامہ آئندہ کے انتخابات پر اثر ڈال سکتی ہے۔ لیکن جوابدہی‘ حکمرانی‘ احتساب اور عوامی خدمت کا معیار وہ نہیں جو مغربی جمہوریتوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ جمہوریت کو چلنے دیں‘ چلتے چلتے یہ اپنا راستہ خود بنا لے گی۔ عوام میں شعور پیدا ہو رہا ہے اور مزید ہو گا‘ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
بات کچھ آگے نکل گئی۔ کورونا کی وبا نے مغرب میں بھی اور خصوصاً امریکی معاشرے میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ سب نسلوں کے لوگ اور سب طبقات یکساں طور پر اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ یہ سطور ضبطِ تحریر میں لانے تک امریکہ میں اسی ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور یہ تعداد ماہِ رواں کے آخر تک ایک لاکھ کی حد کو چھو سکتی ہے۔ اس وقت جو شماریات ہمارے سامنے ہیں‘ اور تجزئیے بھی‘ اس بات کی تائید کرتے ہیں‘ جو میں آغاز میں عرض کر چکا ہوں۔ امریکہ میں ہسپانوی باشندوں کی آبادی تقریباً اٹھارہ فیصد اور افریقی امریکیوں کی تیرہ فیصد کے لگ بھگ ہے‘ لیکن وبا میں چھپن فیصد سے زیادہ انہی دو اقلیتی آبادیوں کے شہری متاثر ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ سفید فام لوگ مکمل طور پر محفوظ رہے‘ میں فقط تناسب کی بات کر رہا ہوں۔ اسی طرح اس وقت پاکستان میں جو صورتحال ہے‘ اس سے بھی معلوم یہی ہوتا ہے کہ زیادہ تر متاثرین غریب طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ معیشت کو کھول کر ہم غریبوں کو ہی اس وبا کے خطرات کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں۔ برطانوی حکومت کی طرف سے بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ وہاں پہ مقیم اقلیتی نسلوں کے لوگ وبا سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ رنگ‘ نسل‘ مذہب اور عقیدے کا نہیں‘ یہ لوگوں کے معیارِ زندگی کا ہے۔ دنیا بھر میں جو آبادیاں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہیں‘ وہ کورونا وبا سے متاثر نظر آتی ہیں۔ غریب لوگوں کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے‘ گھروں میں ایک کمرے میں کئی افراد سوتے ہیں‘ نہانے دھونے کی سہولتیں کم بلکہ مفقود ہیں۔ اکثر جگہوں پہ تو پانی بھی آسانی سے مہیا نہیں‘ گلیاں تنگ‘ غلاظت کے انبار۔ ان تاریک گلیوں میں بہتا ہوا گندا پانی اور بچوں کے لشکر پاکستان کے کون سے شہر میں نظر نہیں آتے۔ اس قسم کے ماحول میں جہاں دیگر بیماریاں ہوں‘ یہ موجودہ وبا آسانی سے پھیل سکتی ہے۔
ہمارے حکمران تو معمولی بیماری کا علاج بھی سرکاری خرچے پر دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں کرائیں اور ہمارے چولستان کے لوک فنکار مقامی ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیں۔ کرشن لعل بھیل بھی ساٹھ سال کی عمر میں ایک عرصہ گردوں کی بیماری میں مبتلا رہ کر اگلے جہان چلے گئے۔ حکمران اور امیر طبقات کی اوسط حدِ عمر کم از کم بیس سال زیادہ ہے۔ بلوچستان‘ تھرپارکر‘ چولستان ہو یا سندھ کے دیہی علاقے‘ ہر طرف غربت بیماری اور بیچارگی کے پہرے ہیں اور حکمران نشے میں مست اور کرسی کی لڑائی میں مصروف‘ مینڈیٹ کا بھرم رکھنے کے لئے ان غریبوں کی طرف ٹکڑے پھینکنے کی کیا ضرورت؟ معاشی انصاف قائم کریں‘ غریب کو تعلیم‘ صحت اور بنیادی سہولتیں دیں۔ یہ ان کا انسانی اور آئینی حق ہے۔ وبائوں اور بیماریوں کا شکار تو یہ طبقہ ہی رہے گا۔