تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     11-05-2020

اگلے 2 سال

سیانے کہتے ہیں: جو وقت گزر جائے وہ تاریخ کہلاتا ہے‘ جبکہ آنے والا ٹائم یا تو خواب جیسا ہو گا یا پھر گَیس وَرک کہلا سکتا ہے۔ حقیقت صرف اور صرف آج ہے۔ آج اس لئے حقیقت ہے کہ ہمیں ہر روز آج ہی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ سامنا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج میں سے آگے‘ آنے والے کل کے لئے کوئی اچھا روڈ میپ سامنے لا سکیں۔
یہ قیامِ پاکستان سے تقریباً ربع صدی پہلے کی بات ہے جب COVID-19 جیسی ایک خوفناک وبا نے لوگوں پر حملہ کیا تھا۔ تب دنیا کی آبادی بہت کم تھی۔ مثال کے طور پر اپنے ملک کو ہی لے لیں‘ اب ماشاء اللہ پاک سرزمین اپنے قیام کی 73 بہاریں دیکھ چکی ہے۔ پارٹِیشن آف انڈیا کے وقت پاکستان کی کل آبادی چندکروڑ تھی، اب 22 کروڑ ہے۔ ابھی اگلے ہی روز اقوام متحدہ کے ادارے UNICEF کی ایک رپورٹ سامنے آئی‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے 8/9 مہینوں میں پاکستان میں 50 لاکھ بچوں کی پیدائش کا امکان ہے۔ اسی طرح افریقہ سے لے کر امریکہ تک اور اِنڈونیشیا سے شروع کر کے بَرّ اعظم آسٹریلیا تک ہر جگہ انسانی آبادیوں کے جال بچھ گئے ہیں۔ ایسے میں کوئی اور نہیں ٹوکیو کا وہ پراپرٹی ڈیلر یاد آتا ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر اپنی ڈیلنگ ویلنگ والی دکان کے باہر یہ اشتہار لکھ کر لگا دیا تھا ''قدرت نے مزید زمین بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ اس لئے ہائی رائیز بلڈِنگز میں اپنے حصے کا اپارٹمنٹ بُک کروا لیں۔‘‘
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کے 3 نتیجے ضرور نکل آئے ہیں۔ پہلا نتیجہ تو خیر سے آبادی میں ہی مزید اضافے والا ہوتا ہے‘ جبکہ دوسرا نتیجہ آبادیوں اور بستیوں میں اضافے کا ہے۔ جس طرح پچھلی ایک صدی میں انسانوں نے جتنے جنگلوں کا صفایا کر کے وہاں آبادیاں بنائی ہیں اس کی مثال شاید پچھلی ساری انسانی تاریخ سے نہیں مل سکے گی۔ آبادی میں اضافے کا تیسرا نتیجہ فوڈ چِین میں ڈیمانڈ بڑھنے اور انسانی زندگی کے لئے دوسری ضروریات میں بھی بے پناہ اضافے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس لئے آج پوری دنیا ایک ایسے برمودہ ٹرائی اینگل کے کنارے جا کھڑی ہوئی ہے جس میں ڈوبنے والوں کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اپنے آپ کو نئے سرے سے دریافت کرنا ہو گا۔ آج کے انسان کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ آنے والے کم از کم 2 سال Business as usual ہرگز نہیں چل سکتا۔
چونکہ کرونا وبا کا کوئی علاج موجود نہیں اس لئے ہمیں احتیاط کو ہی علاج بنانا پڑے گا۔ اس حوالے سے اگلے 2 سال کا روڈ میپ تقریباً اس طرح کا ہو گا:
1۔ ماہرین کے درمیان یہ نکتہ تقریباً طے ہے کہ کووڈ 19 کم از کم اگلے 2 سال تک موجود رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے 2 بڑے خوف انسانوں کے گرد منڈلا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ لوگ اپنی صحت کی طرف سے خوف زدہ ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو اپنے مالی حالات کے ہاتھوں خوف کی وادی میں چلے گئے۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کے لئے مشترک سوال یہ ہے کہ اگلے 2 سال میں آخر ہوگا کیا؟
2۔ کیش اور پیسہ: عالمی مالیاتی ادارے کہتے ہیں کہ اگلے 2 سال میں کیش فَلو بہت کم ہو جائے گا۔ اس لئے ہر کوئی بچت کی عادت ڈالے۔ کسی ایسی چیز پر پیسہ خرچ نہ کیا جائے جس کی آپ کو شدید ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پرگھر سے باہر جا کر کھانا پینا‘ نئی گاڑی خریدنے کے لئے بھاگ دوڑ‘ ایسی ساری انویسٹمِنٹ جسے کریش ہونے کا خطرہ ہے‘ ایسی سکیمیں جن کو جاری کرنے والے ادارے بینکرَپسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ گھر میں پچھلے سال کی ٹی شرٹ، کپڑے اکٹھے کریں اور انہیں پہن لیں۔ شادیوں کے فنکشن کچھ وقت تک نہیں آئیں گے۔ یہاں سادگی سے بچت کریں۔
3۔ نوکریاں: بہت سی نوکریاں شاید فوراً واپس نہ آ سکیں‘ جن میں گیسٹ کرٹِسی کی صنعت، ویٹر، ٹوئور گائیڈز اور چھوٹی صنعت کے کنٹریکٹ ملازم متاثر ہوں گے۔ کورونا سے پہلے جتنی نوکریاں واپس آنے میں 18ماہ یا 2 سال لگ سکتے ہیں۔ یہ فارغ وقت تعلیم پر لگایا جائے۔ ایسے کام میں مہارت حاصل کی جائے جس سے جلد پیسہ کمایا جا سکے۔ انٹرنیٹ میں مہارت رکھنے والے خوش قسمت نکلے۔ ویڈیو ایڈِٹ کرنے کی ٹیکنالوجی جاننے والے لوگ، وہ جنہیں فیس بُک کے اشتہار چلانے آتے ہیں۔ ویب سائٹ بنانے والے، سیلز فَنل بنانے والے اور آئی ٹی کی ڈگریاں رکھنے والوں کی مستقبل میں زیادہ ضرورت ہو گی۔
4۔ فری لانس: امریکہ میں اس وقت 25 فیصد لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ سٹڈی بتاتی ہے کہ نوکری کی شرح واپس 5 فیصد تک لانے میں وقت لگے گا‘ اس لئے یہ ٹائم اپنے لئے نوکری خود سے بنانے کا وقت ہے۔ آن لائن جا کر اپنی سروسز، فن، ہنر، ڈیزائن اور تخلیق کاری فوری طور پر جاب حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
5: طب: جو لوگ ابھی تک میڈیکل تعلیم حاصل کرنے، نہ کرنے کی بحث میں پڑے ہیں، ان کیلئے وقت آ گیا ہے کہ وہ فوراً مثبت فیصلہ کر دیں۔کووڈ19نے ہمیں سکھایا کہ دنیا کو ڈاکٹروں اور نرسوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ گُوچی اور ٹریوَل لَوگ سب پیچھے رہ گئے۔ ایسا سب کچھ دنیا کے لئے لازمی نہیں رہا۔ طبی ماہرین اور نرسز لازمی ہیں۔
اہم سوال یہ ہے لاک ڈائون ساری دنیا سے آہستہ آہستہ اُٹھ رہا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ ماہرین کہتے ہیں: اس کے بعد ایک نیا لاک ڈائون شروع ہو جائے گا۔ سمارٹ لاک ڈائون اچھا نہیں کیونکہ اس کا عرصہ 2 سال تک ہو سکتا ہے۔ بڑے اجتماعات نہیں ہوں گے۔ گروپ ٹوئور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھرے ہوئے دفتر نہیں ہو سکتے‘ بلکہ بھرے ہوئے ہوائی جہاز بھی نہیں اُڑیں گے۔ اس لئے پیسے کا زیادہ استعمال بھی نہیں ہو گا۔ یہ بہترین وقت ہے جب ہم اپنی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔ بُری خبر یہ ہے کہ اگر آپ کا تعلق معاشرے کی نچلی 10 فیصد آبادی سے ہے تو پھر ان میں سے بہت کچھ اوپر اوپر ہی رہے گا۔ معاشرے کا ہر شخص اپنی مہارت بڑھانے یا اپنا کمپیوٹر خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس لئے آمدنی میں عدم یکسانیت بہت زیادہ بڑھنے والی ہے۔ زیادہ امیر لوگ امیر ہی رہیں گے لیکن غریب طبقہ مزید غریب ہو جائے گا۔ دولت کی تقسیم اور طبقاتی فرق مزید بڑھ جائے گا۔ کئی سالوں میں پہلی مرتبہ دنیا کے کروڑوں عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ابھی انہیں دوبارہ اُوپر لانے کے امکانات زیادہ نظر نہیں آ رہے۔
اِس پس منظر میں ہمیں COVID-19 کے بعد با معنی زندگی گزارنے کے لئے ہر سطح پر ایک ہی فارمولا ایجاد کرنا ہو گا۔ اپنے اندر انسانی ہمدردی بڑھا دینے کا فارمولہ۔ ہم سب سے پہلے اپنا خیال ضرور رکھیں۔ لیکن اس کے بعد پھر اپنے غریب پڑوسی کا بھی خیال رکھنا ہے۔ عین ممکن ہے‘ آپ کے پڑوسی کے حالات آپ سے زیادہ بد تر ہوں۔ اس کے بچے بِلک رہے ہوں اور چولھے ٹھنڈے پڑے ہوں۔ اس لئے یہ پیسہ خرچ کرنے کا وقت، ہرگز نہیں ہے بلکہ اس پیسے کو منصوبہ بندی سے بانٹنے کا وقت ہے۔ یہ تقسیم ہو گی انفرادی ضرورت پوری کر کے اجتماعی بھوک کا راستہ روکنے والی۔ زندہ معاشرے ایسے تجربات کرتے چلے آئے ہیں۔ ہم میں ایسی کیا کمی ہے کہ آج کا انسان اس چیلنج پر قابو نہ پا سکے؟
ایسے میں مستنصرحسین تارَڑسے منسوب دوجملے یہاں نقل کرنے کے قابل ہیں: لوگوں سے وہ سوال نہ کرو جو خدا نے انسانوں سے کرنے ہیں۔ مثلاً :
تمہارا مذہب کیا ہے؟
تم نے عبادت کی؟
تم نے روزہ رکھا؟
لوگوں سے وہ سوال کرو جو انسان کو انسان سے کرنے چاہئیں۔ مثلاً:
کیا تمہیں کوئی پریشانی ہے؟
کیا تم بھوکے ہو؟
کیا تمہیں کچھ چاہیے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved