تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     11-05-2020

چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ پرانا ہے

سرکار کی ساجھے کی ہنڈیا پریشر کُکر بنتی چلی جا رہی ہے۔ کورونا ایمرجنسی‘ لاک ڈاؤن‘ گورننس اور دیگر چیلنجز کا پریشر کیا کم تھا کہ چوہدری برادران نے بھی تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت واضح کر دیا کہ عزت کی خاطر دس حکومتیں بھی چھوڑنا پڑیں تو پروا نہیں کریں گے۔ کوئے سیاست کا کھیل بھی عجب ہے‘ حریف سے حلیف اور حلیف سے حریف بنتے دیر نہیں لگتی۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے پر واری جانے والے کب ایک دوسرے سے خائف ہو کر مخالفت پر اتر آتے ہیں‘ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ 
چوہدری برادران نے احتسابی ادارے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا ہے کہ یہ سیاسی انجینئرنگ کرنے والا ادارہ ہے اور ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 19سال پرانی‘ بند کی جانے والی انکوائری کھولنے کا اختیار بھی ادارے کو نہیں ہے۔ چوہدری برادران پر یہ وقت پہلی بار نہیں آیا‘ ماضی میں بھی انہیں اس قسم کے حالات اور پریشرز کا سامنا رہا ہے۔ چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ پرانا ہے۔ چوہدری برادران نے تو وہ حالات بھی دیکھے ہیں کہ وزارتِ داخلہ کا قلمدان گھر میں اور اپنے ہی کاروباری اداروں پر ماتحت تحقیقاتی ایجنسی کے چھاپوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چوہدری شجاعت وفاقی وزیر داخلہ ہوں اور انہیں پتہ نہ ہو کہ یہ چھاپے کس کے حکم پر اور کیوں مارے جا رہے ہیں؟ سب کو علم تھا کہ ان چھاپوں کے پیچھے کس کا دماغ اور کیا عزائم چل رہے ہیں۔ اس وقت تو وہ اتحادی نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) کا باقاعدہ حصہ اور مضبوط ستون سمجھے جاتے تھے۔ اب تو وہ انصاف سرکار کے بس اتحادی اور شریک اقتدار ہیں۔ حکومت تو بہرحال تحریک انصاف کی ہے۔ نیب کی انکوائری پر چوہدری برادران سراپا احتجاج ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والوں نے عدالت میں نیب کو چیلنج کرنے اور سیاسی انتقام کا الزام لگا کر نیب پر سوال اُٹھانے کے اقدام کو قبل از وقت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب نے نہ تو چوہدری برادران کو طلب کیا ہے‘ نہ کوئی نوٹس جاری کیا اور نہ ہی کوئی کال کی ہے۔ ایسے میں یہ ساری کارروائی حفظِ ما تقدم اور پیش بندی نظر آتی ہے۔ جس انکوائری پر سوال اُٹھاکر نیب کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے وہ کیس پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا تھا‘ آئیے اس حوالے سے ماضی کے چند اوراق پلٹتے ہیں۔ 
پرویز مشرف نے 2000ء میں احتساب کا ڈھول بجایا تو سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی کرپشن اور اثاثوں کی چھان بین کا ٹاسک نیب کو سونپتے ہوئے حکم جاری کیا کہ فوری طور پر ان تمام سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی انکوائری کریں کہ کس نے کہاں لوٹ مچائی اور لمبی چوڑی جائیدادیں کیسے بنائیں۔ اس دور میں چوہدری برادران پر الزام لگا تھا کہ ہانگ کانگ‘ سنگاپور‘ دبئی اور سپین میں ان کی جائیدادیں ہیں جبکہ پاکستان میں جائیدادوں کی تفصیلات علیحدہ ہیں۔ اس الزام کے تحت چوہدری برادران کے خلاف انکوائری شروع کی گئی اور ایک فائل بنا دی گئی۔ اسی دوران پرویز مشرف نے سیاسی اشرافیہ کے لیے ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی۔ اس سکیم کے تحت جس نے مسلم لیگ(ق) میں شمولیت اختیار کر لی وہ نہ صرف احتساب سے بچا رہا بلکہ اسے آئندہ کے لیے بھی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ 
اسی دور میں کیسا کیسا سر بلند سرنگوں ہوتا دکھائی دیا‘ کیسے کیسوں کی اصول پسندیاں مصلحتیں اور مجبوریاں کھا گئیں۔ بڑی بڑی قدآور شخصیات گورنر ہاؤس میں طلب کی جاتی تھیں۔ اپنے کارناموں کی تفصیلات اور فائلیں دیکھ کر بڑے بڑے شعلہ بیاں ایسے راکھ کا ڈھیر بنتے کہ کچھ نہ پوچھئے۔ جنرل مشرف کی یہ ایمنسٹی سکیم اس قدر کامیاب ہوئی کہ سبھی جوق در جوق مسلم لیگ(ق) میں شامل ہوگئے اور یہ تاثر اس طرح معروف ہوا کہ ''بچنا ہے تو مسلم لیگ(ق) میں آ‘‘۔ 
چوہدری برادران نے جب مسلم لیگ(ق) میں شمولیت اختیار کی تو نیب اپنی کارروائیوں کا آغاز تو کر چکا تھا لیکن اس کیس کا اُونٹ کسی کروٹ بٹھائے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا اور یہ اُونٹ احتسابی ادارے کے سرد خانوں میں کہیں گم ہوگیا‘ جبکہ پرویز مشرف نے چوہدری برادران کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ اس کیس میں کچھ نہیں‘ اور وہ ختم کر دیا گیا۔چوہدری ٹھہرے سدا کے اعتبار کرنے والے‘ انہوں نے نہ صرف پرویز مشرف کی زبان پر اعتبار کیا بلکہ اُن کے اقتدار کے آخری وقت تک خوب ساتھ بھی دیا۔ پرویز مشرف کے بعد چوہدری برادران نے زرداری کے ساتھ بھی افہام و تفہیم والا معاملہ اختیار کیا اور ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ لے کر یہ پانچ سال بھی بہ آسانی گزار ڈالے‘ لیکن اس کیس کا کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کروا سکے۔ 
اس طرح مشرف ہو یا زرداری‘ دونوں نے ہی چوہدری برادران کا تعاون تو خوب انجوائے کیا لیکن احتساب کے کنوئیں میں گرا ہوا انکوائری کا وہ کتا نہیں نکالا جو آج بھی چوہدری برادران کے لیے وبالِ جان بنا ہوا ہے؛ تاہم چوہدریوں کو مطمئن کرنے کے لیے چند بوکے ضرور نکالے جاتے رہے ہیں۔ بعد ازاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی چوہدری برادران کو نیب کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا۔ تحریک انصاف برسرِ اقتدار آئی تو چوہدری برادران اس کے حلیف اور شریکِ اقتدار تو بن گئے لیکن نیب کے سرد خانوں میں کہیں پڑا ہوا پرانا کیس نجانے کہاں سے نکل آیا۔ 
فروری 2019ء میں چیئرمین نیب نے اس کیس کی ازسر نو انکوائری کا حکم دیا کہ اگر اس کیس میں کوئی جان ہے تو اس پر کارروائی کریں‘ اگر کچھ نہیں ہے تو اسے بلاوجہ نہ لٹکایا جائے اور باضابطہ طو رپر ختم کر دیا جائے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے انکوائری آفیسر سے مل کر اسے آگاہ کیا کہ پرویز مشرف نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ کیس ختم ہو چکا ہے‘ جس پر انکوائری آفیسر نے بتایا کہ پرویز مشرف نے یہ فائل منگوائی ضرور تھی لیکن اس پر کوئی فیصلہ کیے بغیر واپس بھجوا دی تھی۔ نیب کی انکوائریاں اس طرح ختم نہیں ہوتیں اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے‘ جب تک اس طریقہ کار کو نہ اپنایا جائے کوئی کیس باضابطہ ختم نہیں ہوسکتا‘ تاہم آپ اس کیس کو ابھی زیر التوا ہی سمجھیں۔ 
چوہدری برادران کے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد چیئرمین نیب نے فوری نوٹس لیتے ہوئے نیب کے متعلقہ دفاتر سے معلوم کروایا کہ انہیں کس نے نوٹس دیا اور کس نے بلوایا ہے۔ جس پر یہی جواب آیا کہ چوہدری برادران کو نہ تو کسی نے بلایا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ جس پر چیئرمین نیب کی طرف سے وضاحت بھی جاری کی گئی کہ انہوں نے چوہدری برادران کے خلاف کسی نئی انکوائری کا حکم نہیں دیا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کی اس زیر التوا انکوائری کے تناظر میں بیرونِ ممالک جائیدادوں کے حوالے سے کچھ خطوط ضرور لکھے گئے ہیں۔ اب انکوائری کا دارومدار ان خطوط کے جواب پر ہی ہے۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کچھ اقدامات محض پیش بندی کے طور پر کیے جا رہے ہیں اور یہ پیش بندیاں متوقع خطرات کو بھانپ کر ہی کی جارہی ہیں اور یہ سوال بھی اہمیت اختیار کرتا چلاجا رہا ہے کہ اگر احتسابی ادارہ چوہدری برادران کو پریشان نہیں کر رہا تو وہ کون لوگ ہیں جو اس قدر انتشار پھیلا رہے ہیں کہ انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ سیاسی تعاون کی طلب سے لے کر تسلسل تک ہر حکومت کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ Love & hate کا رشتہ ہی رہا ہے۔ تحفظات سے خدشات تک‘الزامات سے مخالفت تک‘ حلیف سے حریف تک یہ سبھی مرحلے اقتدار کے سفر میں ضرور آتے ہیں۔ چوہدری برادران یہ تمام تجربات ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ بھی کر چکے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں کاروباری اداروں پر چھاپوں سے لے کر مشرف دور میں احتسابی کارروائیوں تک‘زرداری کے دورِ حکومت میں مونس الٰہی پر عرصۂ حیات تنگ کرنے تک اور اب انصاف سرکار میں شریک اقتدار ہونے کے باوجود یہ پتھر کہاں سے آرہے ہیں جبکہ نیب نے تو ایک کاغذ کا پرزہ بھی نہیں بھیجا۔ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اَناڑی ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved