تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-05-2020

دو دو سرجیکل سٹرائیکس

عمانی شہزادی ہر ہائی نس مونا بنت فہد السید ‘جنہوں نے اپنی ٹویٹ میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ راشٹریہ سیوک کے وحشیانہ سلوک کے خلاف شدید رد عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ملک کئی دہائیوں سے عمان میں رہنے والے بھارتیوں کا ہر طرح خیال رکھ رہا ہے‘ ہم نے کبھی مذہبی تعصب کی بات نہیں کی ‘لیکن بھارتی مسلمانوں کا اس طرح قتل ِعام اور مسلم خواتین کی تذلیل نا قابلِ برداشت ہے۔ جس پر بھارت کے سفیر سمیت بھارتی میڈیا نے شور مچانا شروع کر دیا کہ عمانی شہزادی مونا کا تو کوئی ٹویٹر اکائونٹ ہی نہیں ‘ان کا فیک اکائونٹ استعمال ہوا‘ جس پر شہزادی مونا کی طرف سے کہا گیا کہ یہ فیک اکاؤنٹ نہیں‘ بلکہ ان کا ذاتی اوراصلی ٹویٹر اکائونٹ ہے۔ 
خلیجی اور عرب ریاستوں میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی سوشل میڈیا پر مسلم مخالف مہم اور عربوں کے تمسخرانہ ٹویٹس اور کارٹونوں کی بھر مار دیکھنے کے بعد وہاں کے دانشوروں نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے ایسے تمام مذہبی انتہا پسند لوگوں کے خلاف بلا تفریق ایکشن لیتے ہوئے ان سب کو نکالنے کا فیصلہ کیا ‘تومودی سرکار کے ہوش اڑ گئے اور پھر مکار دشمن نے جوابی وار کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے کنٹرولڈ میڈیا‘ خفیہ ایجنسیوں اورفارن آفس کی مدد سے پاکستان پر دھاوا بولتے ہوئے سرجیکل سٹرائیکل کردی جو پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی پر مبنی ہے۔
اس کیلئے کہانی یہ تراشی گئی کہ گہرام نامی ایک شخص جو کافی عرصے سے غائب تھا‘ ایک دن اس کی لاش اس کے گھر والوں کے حوالے کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے کہا کہ اسے خود ہی دفنا دو۔ جب اس کی لاش کو اس کے والدین نے دیکھا تو حیران رہ گئے کہ اس کے بہت سے اعضاء نکال لئے گئے تھے ۔بھارتی خفیہ ایجنسی '' راء‘‘ کا انتہائی بودا پن دیکھئے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اس کے جسم کے اعضا نکال کر اس کی لاش اس کے گھر والوں کے سپرد کر دی ہو؟ تاکہ دنیا بھر میں اس کی ویڈیوز بنا کر پاکستان کو بدنام کرنے کے کام آ سکے۔ اعضاء نکالنے جیسی بودی اور خود ساختہ سرجیکل سٹرائیک کے بعد بھارت کی دوسری سٹرائیک اس سے بھی زیا دہ بودی اور سطحی نکلی کہ جسے کسی نے بھی تسلیم کرنا تو دُور کی بات ہے‘ کسی نے ایک سرسری نگاہ سے دیکھنے کے بعد زحمت بھی نہیں کی یا اسے دوبارہ سننا اور اس پر نظر ڈالنا بھی منا سب نہیں سمجھا۔ 
بھارت نے اپنے تھنک ٹینکس‘ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اپنی ہیومن رائٹس تنظیموں‘ سوشل میڈیا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچرز اور مضامین کے ذریعے عیسائیوں کو اشتعال دلانا شروع کر دیا کہ پاکستان انتہا پسند ملک ہے‘ جسے آپ کی حکومتیں اورا دارے امداد دیتے ہیں‘ اس کے طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سکالر شپس دے کر اپنے پاس بلاتے ہیں‘ ان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے امداد اور قرضے دلانے میں مدد کرتے ہیں‘ ان کو اپنے ہاں ملازمتیں دیتے ہیں تو کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بدلے میں یہ عیسائیوں کے چرچ‘ ان کے گھر اور دکانیں جلاتے ہیں‘ ان کی زندگیاں پاکستانیوں نے اجیرن کی ہوئی ہیں اور آپ کے ملکوں میں رہنے والے یہی مسلم پاکستانی واپس جا کر عیسائیوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور واپس آ کر پھر سے اربوں ڈالر کما کر پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ جس طرح دنیا میں بسنے والے مسلمان چاہے وہ عرب ہوں یا مشرق ِبعید کے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں تو کیا آپ کو اپنے غریب عیسائی بھائیوں کا کوئی احساس نہیں ؟ کیا آپ لوگ ان پر ہونے والے ظلم و زیا دتی کا کوئی نوٹس نہیں لیں گے؟ بھارت نے اپنی طرف سے خلیجی اور عرب ممالک میں اپنے خلاف ابھرنے والی نفرت اور ناپسندیدگی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے کائونٹر اٹیک کرتے ہوئے اخباری مضامین ‘ ٹی وی پروگرامز اور سیمینارز اور تمام خفیہ اور اطلاعاتی مشینریوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے اپنے خلاف ابھرنے والی سوشل میڈیا مہم کا رخ موڑنے کیلئے بھر پور طریقوں سے امریکی و پورپی کرسچن لابی کو اپنے فریب میں لانے کی کوششیں کیں ‘لیکن انہیں اس میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ ا‘ کیونکہ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں کی رپورٹس میں بھارت کے ان دونوں الزامات کی تردید کی گئی ہے۔
فورسز پرEthnic Minorities کے اعضاء غائب کرنے جیسے گھنائونے الزامات سے بھارت کے اسلامو فوبیا کو مزید واضح کر دیا ہے‘ لیکن پاکستان کے خلاف اس کے پے در پے اچھالے گئے مکروہ پراپیگنڈے کو ناکام بنانے میں سب سے زیا دہ کردار عیسائی ممالک میں مقیم میڈیکل شعبے سے تعلق رکھنے والے عرب ‘ پاکستانی ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کا ہے‘ جنہوں نے روزے کی حالت میں کووِڈ19 کے خلاف سر دھڑ کی بازیاں لگارکھی ہیں۔
سید راحیل حسن نامی پاکستانی ڈاکٹر نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں کی پروا کئے بغیر جان ایف کینیڈی میڈیکل سینٹر میں داخل کورونا مریضوں کو نئی زندگیاں دینے کیلئے تشویشناک حالت میں مبتلا کورونا مریضوں کی جانیں بچانے کیلئے ایک سے دوسرے کمرے کے بار بار چکر لگاتے ہوئے وہاں داخل ایک ایک مریض کی دیکھ بھال کرتے ہوئے خود کو بھی بھول گئے۔ چوبیس گھنٹے کورونا مریضوں کے قریب رہنے کی وجہ سے وہ خود اور ان کا خاندان اس موذی مرض کی لپیٹ میں آگئے ‘لیکن صحت یاب ہونے کے بعد وہ پھر سے میدان عمل میں کود پڑے‘ لیکن ان کے سسر اس کورونا وائرس سے جانبر نہ ہو سکے۔علاوہ ازیں علامہ اقبال میڈیکل کالج‘ لاہور سے میڈیکل گریجوایشن کرنے والے ڈاکٹر فہد ظفر جو امریکہ میں میڈیکل ریذیڈنسی کر رہے ہیں‘ جس پیار خلوص اور انتھک محنت سے ہسپتال میں کورونا مریضوں کی جان بچانے کیلئے پیار محبت کا اظہار کرتے ہوئے جان کی بازی لگا رہے ہیں‘ وہ اس قدر قابل ستائش ہے کہ امریکیوں میں ایک ذہنی انقلاب آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے یہاں سے تندرست ہوکر جانے والے مریضوں کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ God Bless Americaبولا کرتے تھے‘ لیکن جب سے ڈاکٹرفہد ظفر اورڈاکٹر سید راحیل حسن جیسے سینکڑوں پاکستانی ڈاکٹرز کو چوبیس چوبیس گھنٹے اپنے ارد گرد پیارو محبت اور پوری جانفشانی سے اپنی دیکھ بھال کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد صحت یاب ہوکرگھروں کو واپس جانیوالا ہر مریض اب God Bless America,God Bless Pakistan. کہنا شروع ہو گیا ہے۔ 
جبکہ بھارت پاکستانیوں کیخلاف دنیا بھر کے عیسائیوں کے جذبات ابھارنے کیلئے زبردست سرجیکل سٹرائیکس کر رہا ہے ‘لیکن یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ میں کام کرنے والے تمام مسلمان ڈاکٹروں نے بھارت کے اس وار کو بے کار کر رکے رکھ دیا ہے ۔ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھیں بھی کھل رہی ہیں کہ انڈیا سیکو لر ملک نہیں‘ بلکہ یہاں کٹر ہندو مودی سرکار مسلم کش اقدامات میں ملوث ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved