تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     11-05-2020

گوشۂ تنہائی

جیسے میں پورے چاند کی رات میں کسی بہتی گنگناتی ندی کے کنارے بیٹھا ہوں۔دُور تک جلتے دِیوں کی ایک قطار ہے اور میں ایک ایک کرکے یہ دِیے ندی کے سپرد کر رہا ہوں ۔ہر روشن دِیا ایک لمحہ ہے جو یادوں کے آب ِرواں میں دور تک روشنی پھیلاتا جاتا ہے۔ان چراغوں سے پوری ندی منور ہے ۔
میرے محبوب چچا جسٹس(ر)مفتی محمد تقی عثمانی کاشعری مجموعہ ''گوشۂ تنہائی‘‘ میرے ہاتھ میں ہے اور میں جیسے جگمگ کرتی ندی کے کنارے بیٹھا ہوں۔جتنے شعر ہیں اتنی تصویریں ۔ہر تصویر ایک تصورسے جڑی ہے ۔یہ ساری حمدیں‘مناجاتیں‘نعتیں‘غزلیں نظمیں کسی منظر پر کلک کرکے کوئی تصویر روشن کردیتی ہیں ۔کہیں میں اور میری بہن چچا کے ہاتھ پکڑے شرافی گوٹھ کے کیٹل فارم کی سیر کو جارہے اور ان کی مترنم آواز میں نظم '' تلاش‘‘ سن رہے ہیں ۔کہیں ہم منگلا ڈیم کی سڑک پر ہیں ‘ڈھلتے سورج میں دُور کشمیر کے برف پوش سونے کے پہاڑ جگمگا رہے ہیں اورچچا تقی اپنی نظم '' اے وادیٔ کشمیر ‘‘ خوبصورت ترنم میں سنا رہے ہیں۔کبھی کاشانۂ زکی ‘سمن آباد موڑ کا ڈرائنگ روم ہے ‘کہیں دارالعلوم کورنگی میں ان کے گھر کا لان ہے ‘ کہیں گلشن اقبال کراچی کے گھر وں کی بیٹھکیں اور کہیں جوہر ٹاؤن ‘ ماڈل ٹاؤن‘ لاہور کی محفلیں۔وہ ہم سب ‘جن کی اولادیں بھی اب ماشاء اللہ صاحب ِاولاد ہیں ‘ان کے سامنے بچوں کی طرح بیٹھے ہیں ‘نہ ہماری فرمائشیں ختم ہورہی ہیں اور نہ یہ چلتی پھرتی تصویریں ختم ہوتی ہیں۔
کسی نامور اور بڑے عالم دین کا شاعر ہونا ‘ اور بہت عمدہ شاعر ہونا ‘ شاید بہت سے لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث ہو‘لیکن ہمارے لیے ہرگز نہیں۔ہم نے تو بچپن سے اپنے اطراف وہی لوگ دیکھے جن کی زندگی علم ‘ کتاب‘درس وتدریس سے جڑی ہوئی تھی اور جن کی سانسوں میں شاعری شامل رہتی تھی۔یہ وہ لوگ تھے ‘جن کے علم اور شاعری پر اقبال کا مصرعہ راست آتا تھا۔ '' یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند‘‘ ۔عم مکرم کا علمی فقہی‘دینی مقام اور مرتبہ میں کیسے بتاسکتا ہوں اور بتانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ ایک میں ہی کیا ‘ایک زمانہ ان کا اسیر ہے۔ علم کا ہی نہیں شخصیت کی مٹھاس کا بھی ‘پھروہی تو ہیں ‘جنہوں نے میرے دل میں شعر و ادب کی جوت جگائی‘ جن سے ہمیشہ پیرایہ ٔ اظہار ‘مناسب اور موزوں الفاظ‘بات کہنے کا سلیقہ سیکھنے کی کوشش کی‘ کیا یہ میرے لیے فخر کی بات نہیں کہ وہ ذہن جس سے چوٹی کے تعلیمی ادارے ‘ مستند دارالافتاء‘نامور ترین مالیاتی ادارے‘ذہین افراداور مقتدر حکومتیں دینی و فقہی رہنمائی حاصل کرتی ہیں ‘وہ مجھے بچپن سے میسر ہے اور سعود عثمانی ان گنے چنے افراد میں ہے‘ جو انہیں چچا جان کہہ کر بلانے کا حق رکھتے ہیں‘لیکن الجھن یہ بھی ہے کہ اتنی قریبی رشتے‘ محبت اور عقیدت کے ساتھ اس کتاب پرکیا بات کی جائے؟
مجھے یاد ہے کہ چچا جان نے اپنے کسی بزرگ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے علامہ ابن حجر کا قول نقل کیا ہے‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے ممدوح کے اصل فن کے علاوہ کسی اور فن میں اس کی تعریف کرنا گویا اس کی گردن توڑ دینا ہے اور یہی جملہ میر ے لیے کچھ لکھنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ان کے فیض اور خدمت کی دنیا بہت ارفع‘ بہت وسیع اور الگ ہے ‘لیکن مجھے اس میں کبھی شک نہیں رہا کہ چچا تقی اگر شاعری کو اصل میدان کے طور پر اختیا رکرتے اور اس کے لیے ضروری وقت نکال سکتے تو اس فن کے بہت بڑے نام کے طور پر موجود ہوتے۔ان کا مزاج شاعرانہ ہے ۔ کسی جگہ انہوں نے یہ کہا بھی ہے کہ اگر میں عالم نہ ہوتا تو پھر شاعر ہوتا۔یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے ۔وہ مزاج جو خدا سے ودیعت ہوتا ہے۔
شعری مجموعے کی اشاعت کے بارے میں چچا تقی کو ہمیشہ تردد رہا تھا۔بہت سی وجوہات تھیں ‘جن لوگوں کا اس کی اشاعت کے لیے اصرار رہا‘ ان میں میرا نام بھی شامل ہے ۔ایسالگ رہا تھا کہ یہ مجموعہ شائع نہیں ہوگا؛چنانچہ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مجموعہ شائع کرنے کیلئے ان کا ذہن بن چکا تو میری خوشی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے‘ان کی شاعرانہ گوشہ گیری کے باوجود ان کی بہت سی حمدیں ‘ مناجاتیں ‘غزلیں گزشتہ بیس پچیس سال میں بہت سے حلقوں میں نا صرف پھیل چکی ہیں ‘بلکہ لوگوں کو زبانی یاد ہیں ۔
مرحوم جنید جمشید کے پرسوز لحن میں پڑھی ہوئی مناجات '' الہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں‘‘ اور'' دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ ‘ سمیت کئی حمدوں ‘مناجاتوں کو بے حدمقبولیت ملی۔وہ مقبولیت جس کی ہر شاعر کے دل میں تمنا ہوتی ہے ۔تین دن پہلے '' گوشۂ تنہائی‘‘ کا نسخہ مجھے ڈاک سے ملا ۔اس کے پہلے صفحے پر چچا جان نے میرے لیے لکھا'' عزیزم سعود عثمانی سلمہ کیلئے...کمبضع تمر الٰی ہجر...محمد تقی ۱۴۴۱-۹-۴‘‘۔
مذکور عربی محاورہ '' کمبضع تمر الٰی ہجر‘‘ جہاں میرے لیے ایک سند اور اعزاز ہے‘ وہیں اس میں میرے سیکھنے کیلئے بھی بہت کچھ ہے۔جملے کا لفظی مطلب ہے ؛جیسے کھجور کا سودا ‘ ہجر کی طرف۔دراصل عرب میں کھجوروں کی اقسام ‘معیار اور پیداوار کیلئے دو علاقے بہت مشہور تھے؛خیبر اور ہجر۔یہاں سے کھجوریں تمام علاقوں کو بھیجی جاتی تھیں تو گویا ان علاقوں میں کھجوریں بیچنے کیلئے بھیجنا نادانی ہی تھی ۔سو ‘یہ محاورہ میرے لیے سند نہیں تو اور کیا ہے؟
'' گوشۂ تنہائی‘‘ میں حمدیں ‘ مناجاتیں ‘ غزلیں ‘نظمیں ہیں ۔کچھ فارسی عربی اشعار بھی۔ ابتدائی زمانے کے اشعار اور خاندانی سہرے اور رخصتیاں بھی اسی کتاب کا حصہ ہیں ۔ یہ ذاتی نوعیت کی شاعری اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ عم مکرم اپنے خاندان سے کیسا محبت کا تعلق رکھتے ہیں ۔ کالم بھر تحریر میں گنجائش ہی کتنی ہوتی ہے؟لہٰذا ''گوشۂ تنہائی‘‘ سے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ِخدمت ہیں:؎
تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں 
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں
زباں غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا ! رحم میری اس زبان ِبے زبانی پر 
مجھے زندگی میں یارب سر بندگی عطا کر
مرے دل کی بے حسی کو غم عاشقی عطا کر 
جو تجھی سے لو لگا دے‘جو مجھے مرا پتہ دے
مرے عہد کی زباں میں مجھے گمرہی عطا کر
بڑی دور ہے ابھی تک رگ جاں کا فاصلہ بھی 
جو دیا ہے قرب تو نے تو شعور بھی عطا کر 
آپ کے دم سے دور کی خالق کائنات نے 
روح زمیں کی تشنگی‘ چشمِ فلک کا انتظار 
اتنے درود آپ پر جتنی خدا کی نعمتیں
اتنے سلام آپ پر جن کا نہ ہوسکے شمار
احساں یہ اس گلی کی معطر فضا کا ہے 
پہلو میں کل سے درد ہے اور انتہا کا ہے 
مری کی شام یہ شام طرب یہ پہنائی 
یہ رنگ و نور کا مسکن جہان رعنائی 
یہ نرم نرم پھواروں کے رم جھمی نغمے 
یہ بوندیوں کے پیانو ہوا کی شہنائی 
ہر تار پیرہن ہے کمند فصیل شوق
الجھے گی ہم سے گردش دوراں کہاں کہاں 
یہ علم و آگہی آسی کہاں لے آئے ہیں مجھ کو 
کہ اب مجھ سے خود اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی 
درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے 
کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے 
میر ے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم 
اب خدا جانے یہ شہرت ہے کہ رسوائی ہے 
وہ جن کے تہور سے دہلتی تھیں زمینیں
ڈھونڈے سے بھی ملتا ہے کہیں ان کا نشاں آج 
تھیں جن کی جھلاجھل سے چکاچوندنگاہیں
حسرت کے کھنڈر ہیں وہ محلات شہاں آج 
رحم اے آنکھ کہ ہمدرد مری تو بھی نہیں 
کیا مرے غم کے مقدر میں دو آنسو بھی نہیں
یہ کتاب ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ اپنی حدود کے اندر شعر و ادب نہ کوئی بر اشوق ہے ‘ اور نہ کسی خاص طبقے تک محدود۔دینی طبقات ہمیشہ سے شعر و ادب کی آبیاری میں جو بھرپور کردار ادا کرتے آئے ہیں یہ اس کا ایک بلیغ اظہار ہے ۔اور میر ے لیے تو یہی خوشی بہت ہے کہ ہمارے چھوٹے چچا کی شخصیت کا ایک اور پہلو سامنے آیا ہے جو پہلے کم کم لوگوں کے سامنے تھا۔یہاں میں نے کالم تھوڑی لکھا ہے۔میں نے توآپ کو اپنی خوشی میں شریک کیا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved