تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-05-2020

مان لینے سے قد نہیں گھٹتا

دنیا کچھ کی کچھ ہوتی جارہی ہے‘ سب کچھ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ ذہن سوچ سوچ کر حیران و پریشان رہ جاتا ہے ۔عالمگیر موذی کورونا وائرس کی وبا نے دُنیا کی ایسی حالت کردی ہے کہ ع 
... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی 
بہت کچھ ہے جو داؤ پر لگ گیا ہے اور مزید بہت کچھ داؤ پر لگنے والا ہے۔ لاک ڈاؤن نے معیشتوں کا پہیہ ایسا جام کیا ہے کہ زندگی ہی تھم کر رہ گئی ہے۔ معاشرے اپنی روش بھول کر کسی اور راہ پر گامزن دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ پہلے نہیں ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج ایسا بہت کچھ ہے ‘جو پہلے کبھی نہیں تھااور جو کچھ ہم صدیوں‘ بلکہ ہزاروں سال سے دیکھتے‘ برتتے اور استعمال کرتے آئے تھے ‘اُس کا بڑا حصہ جاچکا اور کبھی واپس نہیں آئے گا۔کورنا وائرس کی وبا نے دنیا کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے دوران معاشروں کی تمام کمزوریاں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ عجیب قصہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں بھی شدید الجھن سے دوچار دکھائی دے رہی ہیں۔ بیانات میں تضادات نمایاں ہیں۔ ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ کورونا کی وبا نے سبھی کو لپیٹ میں لیا ہے۔ کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کورونا سے یا اس کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ رہا ہے۔ امریکا جیسا ملک بھی بہت سے معاملات میں انتہائی کمزور ثابت ہوا ہے۔ 
فروری کے آخر سے اب تک امریکی قیادت کورونا وائرس کے پھیلنے کی ذمہ داری چین پر عائد کرتی آئی ہے۔ چین نے ہر مرحلے پر اس کی تردید کی ہے۔ اب‘ یورپ کے کئی ممالک بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ اُن کے ہاں کورونا کی وبا چین سے نہیں آئی۔ امریکا نے محض دعویٰ کیا ہے۔اب تک یہ ثابت کرنے کی عملی زحمت گوارا نہیں کی کہ کورونا وائرس کی وبا چین نے پھیلائی ہے۔ کورونا کے ہاتھوں پیدا ہونے والے حالات نے امریکا کی بالا دستی کا تصور بھی دُھندلا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے رفقاء نے کورونا کے حوالے سے چین کو جس انداز سے لتاڑا ہے‘ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے پاس لتاڑنے کے آپشن کے سِوا کچھ بچا ہی نہیں۔ چین کی معاشی قوت غیر معمولی ہے۔ اس قوت کا سامنا کرنا‘ فی الحال بظاہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ چین کو عسکری مناقشے کی دلدل میں گھسیٹنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ امریکا کے علاوہ اُس کے چند یورپی حاشیہ برداروں کی کوشش رہی ہے کہ چین کسی نہ کسی طور کسی بڑی جنگ کا حصہ بن جائے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں امریکا نے کئی بار مداخلت کی ہے اور وہاں کئی ممالک کو اپنا پٹھو بناکر معاملات الجھانے کی کوشش کی ہے۔ جب کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیا تو دنیا کو روکنے کے لیے ایک وبا کا سہارا لیا گیا ہے‘ مگر یہ کیا؟ معیشتوں کا پہیہ جام ہونے سے سب سے زیادہ نقصان امریکا اور یورپ کو پہنچا ہے۔ 
امریکا کے ہاتھوں سے بہت کچھ نکلتا جارہا ہے۔ کمزوریاں تو بہت پہلے سے نمایاں ہو رہی تھیں۔ امریکا پیداوار کے حوالے سے نمبر ون ہے نہ کسی اور مثبت معاملے میں۔ ہاں‘ دفاعی ساز و سامان کی صنعت کے حوالے سے وہ اب بھی نمبر ون ہے اور اسلحے کا سب سے بڑا بیوپاری ہے۔ اپنی اسلحے کی صنعت کو زندہ رکھنے کے لیے امریکا نے دنیا بھر میں خرابیاں پھیلائی ہیں۔ کئی خطوں میں متعدد ممالک کو باہم متصادم رکھا گیا ہے۔ اس معاملے میں برطانیہ نے کھل کر امریکا کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ افریقا‘ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطٰی میں قتل و غارت کا بازار گرم رہے۔ یہ بازار گرم رہے گا‘ تو امریکا اور برطانیہ کی جیب گرم رہے گی۔ 
کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت تو یہی ہے کہ واحد سپر پاور نے ایک وائرس کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ امریکا کی طرف سے چین پر الزام عائد کرنا ہی اعترافِ شکست ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں امریکا نے جو کمزوری دکھائی ہے‘ وہ سورج کی طرح واضح ہے۔ چین نے آبادی میں کئی گنا ہونے کے باوجود کورونا وائرس پر تیزی سے اور اچھی طرح قابو پایا۔ صحت ِعامہ سمیت ہر معاملے میں دنیا کا بہترین نظام رکھنے کے دعویدار مغرب کا حال یہ ہے کہ کورونا کے ہاتھوں سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں اور اس کے بعد یورپ میں ہوئی ہیں‘ اگر ہم ایک لمحے کو یہ تسلیم بھی کرلیں کہ امریکی قیادت کا چین کو موردِ الزام ٹھہرانا درست ہے ‘یعنی کورونا وائرس چین سے پھیلا ہے تو پھر لازم ہے کہ ہم چین کی برتری تسلیم کرلیں کہ اُس نے محض ایک وائرس کے ذریعے امریکا اور یورپ کو تِگنی کا ناچ نچادیا۔ امریکا کسی اور معاملے میں تو خیر کیا کچھ کر پائے گا‘ کورونا وائرس کے پھیلنے پر اُس کے پاس ماسک اور حفاظتی کٹس بھی کم پڑگئیں! کورونا سے متعلق ٹیسٹنگ کی سہولت بھی مطلوبہ سطح پر یا معیار مطابق نہیں تھی۔ واحد سپر پاور کا یہ حال دیکھ کر وہ تمام ممالک دنگ رہ گئے ہیں ‘جو ہر معاملے میں امریکا کی طرف دیکھنے کے عادی رہے ہیں۔ 
اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ کورونا وائرس پھیلاکر چین نے پوری دنیا کو شدید معاشی الجھن سے دوچار کیا ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اب امریکا کو واحد سپر پاور سمجھنے کا کوئی جواز نہیں رہا‘ اگر چین محض ایک وائرس کے ذریعے پوری دنیا کا پہیہ جام کرسکتا ہے تو پھر سپر پاور کا درجہ اُسے دیا جانا چاہیے! امریکا اور یورپ دونوں کیلئے فیصلے کی گھڑی آچکی؛ دونوں کے پاس بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ مگر یہ سب کچھ اصلی نہیں۔ چمک دمک زیادہ ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے‘ جو دکھائی تو دے رہا ہے‘ مگر ہے نہیں۔ امریکا اور یورپ کی مجموعی قوت میں غیر معمولی کمی واقع ہوچکی ہے۔ دونوں اس حقیقت کو جانتے ہیں ‘مگر ہضم نہیں کر پارہے۔ عالمگیر حکمرانی کا نشہ ہے کہ ٹوٹنے پر بھی ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ امریکا اور یورپ ثانوی حیثیت تو کیا قبول کریں گے‘ وہ اپنی ٹاپ پوزیشن پر کسی کو شریک کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ خاص طور امریکا زیادہ بدحواسی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ امریکا کو ''کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا‘‘ والی ذہنیت اب ترک کرنا ہوگی‘ کیونکہ مان لینے سے قد نہیں گھٹتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved