تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     12-05-2020

نیا ورلڈ آرڈر

کوروناوائرس کے انتہائی غیر یقینی وقتوں میں بھی ایک شے ہے جوکسی نہ کسی حد تک یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے: ہم ایک نئی جنگ‘ ایک نئی گریٹ گیم‘ ایک نئے ورلڈ آرڈر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔آنے والے مہینوں اور برسوں میں‘امکان ہے کہ جنوبی ایشیا اور اس کے ساتھ بحرالکاہل کا علاقہ وہ میدان بنیں گے جہاں یہ گریٹ گیم کھیلی جائے گی۔جدید تاریخ گزشتہ ایک صدی میں بننے والے اتحادوں اور فلیش پوائنٹس پر محیط ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر یہ دنیا ناقابل شناخت قسم کی شے تھی‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ کا بڑا حصہ آسٹرو ہنگیرین‘ برٹش سلطنت‘سلطنت عثمانیہ اور فرانسیسیوں کے مابین تقسیم تھا جبکہ روس‘ چین حتیٰ کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی اہمیت صرف اتنی تھی کہ کبھی ایک اتحاد میں شامل ہو جاتے تو کبھی دوسرے میں۔پہلی جنگِ عظیم نے یہ پرانا ورلڈ آرڈر مکمل طور پر تبدیل کر گیا۔ورلڈآرڈر تو بدل گیا لیکن ہنوز ''ایجنڈے‘‘ کی تکمیل نہیں ہوئی تھی‘ جرمنی کے پاس فوجی قوت کا کچھ نہ کچھ حصہ بچ رہا تھا‘ جاپان کو کینڈے میں نہیں لایا جا سکا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی کُرے پر امریکہ کا تسلط ابھی ابتدائی شکل میں تھا۔ اس نامکمل ایجنڈے کی وجہ سے دنیا کو ایک اور جنگ کا منہ دیکھنا پڑا اور دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ یہ پہلی بڑی جنگ سے کہیں زیادہ فیصلہ کُن ثابت ہوئی۔ اس بار جرمنی اور جاپان کی ہزیمت ''غیر مشروط‘‘ تھی۔ اس جنگ کے انجام پر جو حصے بخرے کیے گئے اسی نے آج کے جدید مشرق وسطیٰ کو یہ جغرافیائی شکل دی۔ امریکہ مغرب کی فیصلہ کُن قوت بن گیا اور جنگ کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ جیسے ادارے وجود میں آئے۔مغرب اس جنگ میں فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے اپنی من مرضی سے بین الاقوامی سرحدوں کی تشکیل نو کر رہا تھا‘ لیکن اس سب کچھ کے ساتھ آدھا یورپ ‘ سوویت یونین کے جھنڈے تلے آہنی پردے کی اوٹ میں چلا گیا۔ اس صورتحال میں جب ہر بڑی عسکری قوت کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی تھے‘ براہِ راست کھلی بڑی جنگ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہ تھی‘ اس کی بجائے ایک سرد جنگ معاشی ہتھیاروں اور عالمی تجارتی اتحادوں کی بنیاد پر لڑی گئی‘ جبکہ بالواسطہ جنگیں‘ اپنی اپنی پراکسیوں کے ذریعے‘کوریا‘ ویت نام اور افغانستان میں لڑی گئیں۔
اسّی کی دہائی میں سوویت افواج کی افغانستان میں شکست اور نومبر 1991ء میں دیوارِ برلن کے انہدام پر سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا اورایک یک قطبی دنیا وجود میں آگئی۔واقعات کے ان غیر متوقع موڑ سے نوے کی دہائی امریکہ کے لیے بلا تعطل ترقی و خوشحالی کا پیغام لائی۔یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کا سیاسی سرمایہ کبھی ختم نہ ہوگا۔سوویت بلاک کی حمایت کرنے والے بہت سے ممالک نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں اور وفاداریاں تبدیل کرنے والوں میں جن ممالک نے فوقیت حاصل کی ان میں انڈیا سر فہرست تھا۔ نوے کی دہائی میں انڈیا نے اپنی تمام تر کاوشیں امریکہ کی حمایت کے بیانیے کی ترویج میں صَرف کی اور نائن الیون کے بعد‘ جب امریکہ نے اپنی یک قطبی طاقت افغانستان میں آزمانے کا فیصلہ کیا‘ انڈیا نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور جنوبی ایشیا اور اس سے آگے تک اپنے آپ کو امریکہ کا تزویراتی اتحادی بنا کر پیش کیا۔ امریکی حمایت کے زعم میں انڈیا خود کو اس خطے میں چین کی مد مقابل قوت کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس صورتحال میں اسے موقع ملا اور وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے اور اسے دشمن نمبر ایک بنا کر پیش کرنے میں جُت گیا۔ کچھ برس پہلے تک یہ حربہ کارگر تھااور امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کو نئی شکل دے کر باقاعدہ طور پر اس خطے کو ''ایف۔ پاک‘‘ قرار دے دیا اور انڈیا کو تزویراتی اتحادی قراردے کر اپنی انڈو پیسفک حکمت عملی میں شامل کر لیا‘ اس حکمت عملی سے چین کا مقابلہ کرنا مقصود تھا۔انڈیا کے لیے تو یہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی کیفیت تھی اور تقریباً دو دہائیوں تک اس نے خوب کھیلا۔امریکہ کے ساتھ اپنے تزویراتی اتحاد کے نشے میں چُورانڈیا نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کا جال پھیلانا شروع کر دیا‘ اس نے افغانستان کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس میں دخل اندازی کی اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیا۔لیکن حالیہ کچھ عرصے میں غیر معمولی واقعات ہونا شروع ہو گئے اورامریکہ کے دنیا کی یک قطبی قوت ہونے کے تصور میں دراڑ پڑ گئی‘ کیونکہ ایک جانب چین سایوں سے نکل آیا اور دوسری طرف روس نے ولادیمیر پوتن کی قیادت میں اپنی کھوئی ہوئی قوت بحال کر لی۔ اُن دوستوں اور دشمنوں کے لیے‘ جو یک قطبی دنیا میں جی رہے تھے‘ عالمی سطح پر نئے امکانات کا ظہور ہو گیا‘ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی من مرضی سے حکومتیں الٹانے کی کاوشیں شام‘ لبنان اور دیگر خلیجی ممالک میں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکیں‘ حتیٰ کہ افغانستان جیسے ملک میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں (یعنی انڈیا) کو منہ کی کھانی پڑی۔ اگر چہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دنیا کی واحد سیاسی قوت ہونے کا بھرم ٹوٹ رہا تھا‘تاہم اس کی عسکری طاقت ابھی تک قائم دکھائی دیتی تھی‘صدر ٹرمپ کے الفاظ میں ''اب تک کی دنیا کی سب سے بڑی اور بہترین ‘‘ فوجی قوت ہونے کے زعم میں مبتلا امریکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایران کو جنگ کے میدان میں گھسیٹ لائے۔ کیسے؟ پہلے تو اس نے کوشش کی کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین لڑائی کرائی جائے‘ اس کے لیے آرامکو پر حملے کو جواز بنایا گیا‘ لیکن جب یہ حربہ ناکام ہو ا تو امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کر کے براہِ راست ایران پر حملہ کر دیا‘لیکن اس کے بعد جو وقوع پذیر ہوا وہ ڈیپ سٹیٹ اور لینگلے میں بیٹھے شہ دماغوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ایران نے پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور خطے میں امریکی قوت کا دبدبہ قائم ہونے کی بجائے مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آ گئی اور خطے کے ممالک کو مجبور ہو کر متبادل اتحادوں کی جانب دیکھنا پڑا(اب روس اور چین کی شکل میں یہ متبادل موجود ہے)۔
دنیا ابھی طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کی گرفت میں تھی کہ گزشتہ برس کے اختتام پرکوروناوائرس کی وبا نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکہ کو امید تھی کہ یہ بیماری صرف چین تک محدود رہے گی یا صرف اس کے ہمسایہ ممالک کو متاثر کرے گی‘ تاہم اس کے بر عکس صورتحال پیدا ہوگئی۔ چین‘ جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا‘ اس نے برق رفتاری سے اس پر قابو پا لیا اور ''آزاد دنیا‘‘ جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے‘ اسے اس وبا سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اورآج جب مغرب کو گریٹ ڈپریشن (سو سال پہلے) کے بعد پہلی بار بد ترین معاشی سست رفتاری کا سامنا ہے تو چین میں کاروبار دوبارہ کھل چکے ہیں۔اس حقیقت کا سامنا کرنے کا کوئی طریقہ نہ سوجھا تو امریکی غرور نے اس بحران کا ملبہ چین پر ڈال دیا اور یہی وہ نقطہ ہے جسے ہر حوالے اور پہلو سے ایک اور سرد جنگ کا نقطۂ آغاز کہا جا رہا ہے۔جب امریکہ وبا سے نپٹنے کے لیے جوجھ رہا ہے تو چین اس خطے میں قوت اور اثر و رسوخ بڑھا کرطاقت کا ایک نیا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے چین نے جو اولین قدم اٹھایا وہ اس کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اور اس منصوبے کا اہم ترین جز سی پیک ہے۔راتوں رات جنوبی ایشیا میں دائو بدل گیا۔ انڈیا‘ جو عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا تھا‘ چند مہینوں کے اندر اندر پسپا ہوتا دکھائی دیا۔ اب وہ بڑی شدت سے ہاتھ پائوں مار رہا ہے کہ ''ہائو ڈی موڈی‘‘ جیسے مؤقف سے دوری اختیار کر لے۔ گزشتہ ہفتے مودی نے ''غیر جانب دار تحریک‘‘ (جس کا وجود اَب نہ ہونے کے برابر ہے) سے خطاب کیا‘ یہ اپنے بیانیے کو متوازن بنانے کی کوشش تھی‘ لیکن اب ایسی کاوشوں کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے۔
یہ خطہ اور پیسیفک کا علاقہ مستقبل قریب میں عالمی سیاست کا مرکز بننے جا رہا ہے ۔ چین کے معاشی مفادات ایک خوشحال پاکستان اور مؤثر طور پر چلتے ہوئے سی پیک روٹ سے وابستہ ہیں۔ امریکی مفاد یہ ہے کہ وہ اپنی پراکسی انڈیا کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرے اور سی پیک منصوبے کو درہم برہم کر دے‘ اور یہ کھینچا تانی آنیوالے برسوں میں نہ صرف پاکستان کی اندرونی سیاست کو تبدیل کر یگی بلکہ یہ جنوبی ایشیا میں جاری نئی گریٹ گیم کا فیصلہ بھی کرے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved