تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-05-2020

نور عنایت ‘ ایک افسانوی کردار

موسیقار‘ شہزادی‘ مصنفہ اور جاسوس جو فرانس کی زیرزمین مزاحمتی مسلح تحریک کی صفوں میں Madeleine کے خفیہ نام سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ سلطنتِ میسور کے آخری آزاد حکمران ٹیپو سلطان سے براہ راست رشتہ داری کی وجہ سے شہزادی کہلائی۔ 1914 ء میں ماسکو میں پیدا ہوئی‘ ماں کا نام تھا امینہ بیگم (امریکی قومیت کی شاعرہ جنہوں نے شادی کے دن اسلام قبول کیا) ‘باپ کا نام عنایت خان تھا۔ زندگی کے ابتدائی سال وسطی لندن میں گزارے۔پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو یہ گھرانا پیرس چلا گیا جہاں نور عنایت نے اپنی ساری تعلیم مکمل کی۔ دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک Sorbonneمیں نفسیات پڑھی‘ بچوں کیلئے کہانیوں کی کتابیں لکھیں۔ دوسری جنگ عظیم چھڑی تو یہ گھرانا واپس لندن آگیا۔ نور عنایت اور اُس کا بھائی نازی جرمنی کی فسطائیت کے سخت مخالف تھے ‘ اُنہوں نے اس کے خلاف لڑنے کیلئے برطانوی فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ مگر دونوں امن پسند اور وہ اسلحہ اُٹھا کر جنگ وجدل اور مار دھاڑ میں حصہ لینے کی بجائے ایک ایسا کردار ادا کرنا چاہتے تھے جہاں وہ کسی کی جان نہ لے سکیں۔ اس کا صرف ایک طریقہ تھا کہ وہ برطانوی فوج کے مواصلاتی شعبہ سے وابستہ ہو جائیں‘جو دشمن فوج کی نقل و حرکت کی مخبری کرنے کی وجہ سے سب سے خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ نور عنایت اسی شعبہ میں بھرتی کیلئے گئی تو اس نے انٹرویو لینے والے برطانوی فوجی افسر کو بتایا کہ وہ جو تجربہ دوسری جنگ عظیم کے دوران حاصل کرے گی وہ جنگِ عظیم ختم ہونے پر برٹش راج کے خلاف مسلح جدوجہد میں استعمال کرے گی ۔حیرت کا مقام ہے کہ نور عنایت کی خوبیوں کی وجہ سے (وہ فرانسیسی زبان پر مکمل عبوررکھتی تھی) اُسے اپنے مندرجہ بالا ارادوں کو دیکھتے ہوئے فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ جونہی ریڈیو کے ذریعہ خفیہ پیغام رسائی کی تربیت مکمل ہوئی اُسے رائل ایئر فورس کے ایک طیارہ نے رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سرزمین فرانس پر جرمن فوجوں کے عقب میں پیرا شوٹ سے اُتار دیا۔ وہ 17 جون1943 ء کی آدھی رات تھی نور عنایت نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جرمن فوجوں کے بارے میں اپنے ریڈیو پر مخبری شروع کر دی۔ ریڈیو بھاری بھر کم اور وزنی تھا۔ اسے چھپانا مشکل تھا اور اُٹھا کر چلنا اور زیادہ مشکل۔ ریڈیو کو ایک وقت زیادہ سے زیادہ 20 منٹ کیلئے استعمال کیا جا سکتا تھا ورنہ پکڑے جانے کا خطرہ یقینی بن جاتا تھا۔ اس قسم کی جاسوسی خطرات سے کتنی بھرپور تھی‘ آپ اس کاصرف اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ہر جاسوس کو اوسطاً چھ سے آٹھ ہفتوں کے درمیان جرمن فوج کا ریڈار پکڑ لیتا تھا اور پھر اُنہیں جرمن فوج کا شعبہ تفتیش ناقابل ِبیان تشددبتانے کے بعد ہلاک کر دیتا تھا۔نور عنایت بھی تین ماہ کے بعد پکڑی گئی ۔ نور عنایت نے جرمن قید سے فرار ہونے کی دوبار کوشش کی جو بدقسمتی سے دونوں بار ناکام رہی۔ اُسے دس ماہ قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اور سارا وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ وہ برطانوی فوج کے راز افشا کرنے پر مجبور ہو جائے‘ مگر وہ مرتے دم تک خاموش رہی۔ اُسےDacho کے عقوبت خانہ میں لے جا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا مگر نور عنایت نے اپنے سلے ہوئے ہونٹ ایک بار بھی نہ کھولے۔ ستمبر 1944ء میں نور عنایت نے جہانِ فانی سے رخصت ہوتے وقت صرف ایک لفظ کہا: Liberty (آزادی)۔ جونہی برطانوی اور فرانسیسی حکومت کو نور عنایت کے دلیرانہ کردار اور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں جان کی قربانی دینے کا پتہ چلا سرکاری اعتراف کیلئے اقدمات کئے گئے۔1946 ء میں نور عنایت کو برطانوی حکومت نے بہادری کا انعام جارج کراس دیا اور فرانسیسی حکومت نے Groix de Grave Guarge ۔ مگر یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں نور عنایت کی شہرت اُس وقت پھیلی جب Shrabani Basu نے اُس پر ایک بڑی اچھی کتاب لکھی جس کا نام تھاSpy Princess۔نور عنایت کا ایک کمال کا مجسمہ گارڈن سکوائر (وہی پارک جہاں نور عنایت نے برسوں پہلے چلنا سیکھا تھا اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلا کرتی تھی) میں نصب کیا گیا اور 2002 ء میں ملکہ برطانیہ کی بیٹی شہزادی این نے اپنے ہاتھو ں اُس کی رونمائی کی تقریب سرانجام دی۔ برطانیہ میں نور عنایت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس سے پہلے اس سرزمین پر کسی اور ہندوستانی نژاد مسلمان خاتون کا مجسمہ نصب نہیں کیا گیا۔ 
ان دنوں وائرس کی موذی وبا نے اپنے گھر میں قید کر رکھا ہے۔ کرو ڑوں اربوں لوگوں کی طرح میں سارا دن موسیقی سننے اور اچھی کتابیں پڑھنے اور اگر دھوپ نکلے توصحن میں سیر کرنے میں گزارتا ہوں ۔The Jewel in the Crownکے مصنف نے اپنی کتاب میں برطانوی راج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ کتاب کے ثانوی عنوان ہی مصنف کے نقطہ نظر کو بیان کرنے کیلئے کافی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان سپاہیوں نے برطانوی راج کیلئے لڑی جانے والی جنگوں میں اپنی بہادری کا سکہ جمایا۔قبل از تقسیم ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 27فیصدتھی مگردوسری جنگ عظیم میں لڑنے والی انڈین آرمی میں مسلمانوں کا تناسب 65فیصد تھا۔ آپ کو یہ پڑھ کر شاید اعتبار نہ آئے کہ دوسری جنگ عظیم میں انڈین آرمی 25 لاکھ سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل تھی اورتقریباً87 ہزار ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے اور تقریبا 70 ہزار جنگی قیدی بنے۔ چار ہزار ہندوستانی سپاہیوں اور افسروں کو بہادری کے تمغات دیئے گئے‘ جن میں 17 وکٹوریہ یا جارج کراس کے اعزازات بھی شامل تھے۔
برٹش انڈین آرمی کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل Claude Auchinleckتھے۔ میرے مرحوم دوست جنرل شاہد حامد اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے‘ مناسب ہوگا کہ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ جنرل شاہد حامد مرحوم نے نہ صرف اپنی بے حد دلچسپ آپ بیتی بلکہ Disastrous Twilightکے نام سے ایک اور اچھی کتاب بھی لکھی ۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت فیلڈ مارشل آکن لیک کو بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی فوجوں کا سپریم کمانڈر بنایا گیا۔ پاکستان معرض وجود میں آیاتو نہ صرف دفاعی افواج کے سربراہ انگریز تھے بلکہ پانچ سو کے قریب کمیشنڈ افسر بھی انگریز تھے۔ فوج کے پہلے کمانڈر انچیف کا نام Frank Messervyتھا‘اُس نے قائداعظم کا حکم نہ مانتے ہوئے کشمیر میں پاکستانی فوج کو بھیجنے اور وادی کشمیر کو ڈوگرہ مہاراجہ کے تسلط سے آزاد کرانے سے انکار کردیا۔ اُس کی دلیل یہ تھی کہ اسی فوجی کارروائی سے بھارت اور پاکستان کی افواج میں ملازم انگریز افسروں کو ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا جو کہ ہر لحاظ سے ناقابل تصور ہے‘ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کو پختونخوا کے آزاد علاقوں میں رہنے والے پشتون قبائل کی مدد لینا پڑی۔ اگر سری نگر کے سامان سے بھرے ہوئے بازار وہاں کے ہوائی اڈے سے (جغرافیائی طور پر) پہلے ہونے کی بجائے بعد میں ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آزاد قبائل کا لشکر ہوائی اڈے پر قبضہ کر کے وہاں بھارتی فوج کا اُترنا ناممکن بنا دیتا۔ یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جو Ifسے شروع ہو کر But پر ختم ہو جاتے ہیں۔کاش کہ ہمارے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف ایوب خان کی بجائے جنرل افتخار ہوتے یا جنرل اکبر خان۔ کالم نگار مورخ نہیں اس لئے وہ اپنے قارئین کو یہ نہیں بتا سکتا کہ ایوب خان کی فقید المثال ترقیوں اور بطور کمانڈر انچیف تعیناتی میں اُن کے بھائی بہادر خان نے کیا کردار ادا کیا۔ بہادر خان نہ صرف قومی اسمبلی کے ایک اہم رکن تھے بلکہ اُن کے وزیراعظم (اور وزیر دفاع) سے دوستانہ تعلقات بھی تھے۔ سیاسی بنیادوں پر لگائے جانے والے کمانڈر انچیف نے پہلا مارشل لا نافذ کیا۔ جنرل ایوب خان کا زوال آیا تو انہوں نے آئین دوسری بار توڑا اور اقتداریحییٰ خان کے سپر دکر دیا۔ بھٹو صاحب نے ضیا الحق کو اور میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو سپہ سالار بنایا تو انہوں نے مارشل لاء نافذ کیا۔ آپ بتایئے ہم اُسے کیا جواب دیں؟ اور اپنے اپنے محسنوں کے ساتھ جو سلوک کیا‘ وہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ذرا سوچئے۔ کیا یہ ہمارے لئے مقام ِعبرت نہیں؟ لندن کے ایک پارک میں ایک بہادر لڑکی کا مجسمہ مجسم سو ال بن کر ہم سے مخاطب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved