تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-05-2020

گزر تو جائے گی‘ مگر …

زندگی کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ سرسری نوعیت کا یا قدرے اضطراری ہوتا ہے۔ عام آدمی زندگی یوں بسر کرتا ہے گویا کسی عارضی کیمپ میں ہو اور وہاں سے نکل کر باقاعدہ زندگی شروع کرنے کا منتظر ہو۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر غیر معمولی سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے‘ مگر ہم اس تقاضے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ بہت کچھ ہے‘ جو ہم دیکھتے اور جانتے ہیں ‘مگر پھر بھی اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ زندگی کے حوالے سے ہمارا عمومی رویہ کبھی معتدل اور مستحکم نہیں ہو پاتا۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم زندگی کو مفت کا مال سمجھ کر قبول کرتے ہیں‘ جو کچھ اللہ کی طرف سے ہمیں عطا کیا گیا ہے ‘اُس کی قدر و قیمت کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ اب‘ یہی دیکھیے کہ ہمیں اللہ نے جو جسم عطا فرمایا ہے‘ اُس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی جاتی‘ جو ہاتھ مفت ملے ہیں وہ اگر ٹوٹ جائیں تو جوڑنے میں بہت محنت لگتی ہے اور بہت کچھ خرچ بھی ہوتا ہے۔ تکلیف الگ سہنی پڑتی ہے۔ 
یہی حال دیگر تمام معاملات کا بھی ہے۔ ہم خلائی تحقیق کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ نظامِ شمسی میں کسی ایسے سیارے کی تلاش ہے‘ جس پر زندگی پائی جاتی ہو یا اُس کے پنپنے کا امکان ہو‘ اگر ایسا کوئی سیارہ مل جائے تو دل کی کلی کِھل جائے۔ سوال یہ ہے کہ زندگی کے حامل واحد سیارے یعنی زمین پر زندگی کی قدر کتنی کی گئی ہے۔ زمین پر اللہ نے ہمیں صرف زندگی نہیں دی ہے‘ بلکہ اُسے پروان چڑھاتے رہنے کیلئے درکار وسائل بھی عطا فرمائے ہیں۔ جہاں زندگی ہے اور بھرپور انداز سے ہے ‘وہاں تو معاملات درست کرنے پر ہم متوجہ نہیں ہو رہے اور فکر یہ ہے کہ کائنات میں کہیں اور بھی زندگی ہے یا نہیں؟ یہ تو ایسی ہی بات ہوئی کہ اشیائے خور و نوش تلاش کی جارہی ہیں اور کھانے پینے کے لیے جو کچھ پہلے سے موجود ہے‘ اُس سے استفادہ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہو رہی! دوسرے سیاروں پر الگ زندگی پائی جاتی ہوگی ‘تو وہاں زندگی کی حامل مخلوق بھی سوچتی ہوگی: ع 
تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تو 
زندگی کے حوالے سے ہم اس قدر لاپروا اور بے احساس کیوں واقع ہوئے ہیں؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے ‘وہ سب کا سب غور و فکر اور محنت ِ شاقّہ کا نتیجہ ہے‘پھر وہ کیفیت کیوں ہے ‘جس کے لیے مرزا غالبؔ نے کہا تھا: ؎ 
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد 
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی 
آج کا انسان لایعنی اور لاحاصل افکار و اعمال کا اسیر ہے۔ ایک بھول بھلیاں ہے‘ جس میں کھوئے رہنے کو بہت کچھ‘ بلکہ زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ زندگی عظیم ترین نعمت ہے ‘جس کا حق ادا کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہونا لازم ٹھہرا ہے ‘مگر ہم سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں۔ خواہشیں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہیں اور ہم ہیں کہ ہر خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُسے پورا کرنے کی تگ و دَو میں بہت کچھ داؤ پر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ عمل رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ دل کے بارے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرنے اور سرسری انداز اختیار کرنے کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ ہم جب سے ہوش سنبھالتے ہیں یہی سُنتے رہتے ہیں کہ بھلی یا بُری سب گزر جائے گی۔ بے شک‘ گزر جائے گی ‘مگر اس طور گزرنے سے ہماری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہم گوارا ہی نہیں کرتے۔ ہمیں روئے ارض پر جو سانسیں عطا کی گئی ہیں ‘وہ اس لیے ہیں کہ بامقصد انداز سے گزاریں‘ ڈھنگ سے جئیں‘ خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کے لیے بھی سکون کا سامان کریں۔ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب زندگی کے بارے میں سرسری انداز سے سوچنے کا آپشن نہیں رہا۔ یہ آپشن تھا ہی کب؟ فطری علوم و فنون کے حوالے سے شدید پس ماندگی کا دور بھی انسان سے سنجیدگی ہی کا متقاضی رہتا تھا۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سے چیلنج لاتا ہے‘ جن کا سامنا کرنے کیلئے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ بھرپور تیاری کے بغیر ڈھنگ سے جینا کسی کیلئے کسی بھی دور میں ممکن نہیں رہا۔ قدرت نے ایسی کوئی رعایت رکھی ہی نہیں۔ کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جنہیں بظاہر کچھ کیے بغیر بہت کچھ مل جاتا ہے‘ انہیں سب کچھ برقرار رکھنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ زندگی کے میدان میں منہ کے بل گرتے ہیں اور پھر اُٹھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ 
زندگی کا حق ادا کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ سوچ ترک کرنا پڑتی ہے کہ جیسے تیسے وقت تو گزر ہی جائے گا۔ وقت کا کام گزرنا ہے‘ وہ گزر ہی جاتا ہے۔ ڈھنگ سے نہ گزارا جائے تو وقت بہت سے زخم لگا جاتا ہے‘ جن کے مندمل ہونے میں زمانے لگتے ہیں۔ ہر دور نئے چیلنجز کے ساتھ آتا ہے۔ اکیسویں صدی کے بھی نئے چیلنج ہیں اور ہر چیلنج ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ایسے میں انسان کیلئے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ زندگی کے بارے میں سرسری اور اضطراری نوعیت کا رویہ ترک کرکے غیر معمولی سنجیدگی اختیار کرے۔ مزاج میں شگفتگی کا ہونا بھی ضروری ہے‘ مگر یہ شگفتگی بھی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے‘ جب ہم اپنے وجود کے مقصد کو ذہن نشین رکھتے ہیں اور اس حوالے باعمل رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب انسان واقعی سنجیدہ ہوتا ہے تو ہر معاملے کی اصل پر غور کرتا ہے اور پھر زندگی کے بارے میں اپنایا جانے والا عمومی رویہ معتدل‘ متوازن اور حقیقت پسندانہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ حقیقت پسندی ہی انسان کو ڈھنگ سے جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔ زندگی کے بارے میں یہ رویہ رکھنا زندگی پر سب سے بڑے ظلم اور اپنے وجود سے سب سے بڑی نا انصافی ہے کہ بھلی یا بُری سب کسی نہ کسی طور گزر ہی جائے گی۔ اس سوچ کے ساتھ جینا محض حیوانی سطح پر جینا ہے۔ انسان پر فرض کردیا گیا ہے کہ اپنی بھی اصلاح کرے اور اپنے ماحول کو بھی بہتر بنائے۔ 
الغرض ہر دور میں لاکھوں‘ کروڑوں انسانوں نے بہتر زندگی کو آپشن کے طور پر اپنایا اور اُسی کے نتیجے میں ہر سطح پر ارتقاء ممکن ہوسکا۔ ہمیں اُن کا شکر گزار رہتے ہوئے کچھ ایسا کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ آنے والی نسلیں ہماری شکر گزار ہوں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved