تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     13-05-2020

اٹھارہویں ترمیم

پاکستانی تھیٹر کے ناقابل فراموش اداکار امان اللہ خان مرحوم ایک سٹیج ڈرامے میں ایسے فقیر کا کردار کررہے تھے جو اپنی جھوٹی امارت کے قصے سنا کر ایک لڑکی کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ فقیر (امان اللہ ) کہتا ہے‘ '' میں تو اتنا امیر آدمی ہوں کہ لاہور کی مال روڈ بھی خریدنے والا تھا بس چھوٹی سی بات پر سودا نہیں ہوسکا‘‘۔ لڑکی حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پوچھتی ہے‘ 'کیوں‘۔ فقیر کہتا ہے‘ ''میرا مطالبہ تھا اشارے (ٹریفک سگنل)بھی سودے میں شامل ہوں گے‘ حکومت نے کہا: نہیں‘ میں نے کہا ‘ فیر رہن دیو(پھررہنے دیں)۔ پنجابی میں ہونے والا یہ مکالمہ پنجاب میں ایک لطیفے کی طرح مقبول ہوا پھر عام بول چال میں ''مال روڈ خرید لیتا ‘لیکن اشاروں پر بات رہ گئی‘‘ کی صورت میں محاورے کی طرح بولا جانے لگا۔' ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘ یا' نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ‘ جیسے اردو محاوروں کا یہ پنجابی ورژن عام آدمی کی زبان پر کچھ عرصہ تو رہا‘ پھرزبان سے اتر کر ذہن کے اُس حصے میں چلا گیا جہاں پڑی یادداشتیں اس وقت اچھل کر باہر آجاتی ہیں جب کوئی واقعہ دہرایا جائے یا کسی نئی شکل میں سامنے آجائے۔ آج کئی سال بعد امان اللہ خان مرحوم کا یہ مکالمہ تحریک انصاف کے دستور میں اٹھارہویں ترمیم پر اعتراضات دیکھ سن کر یاد آیا ہے۔ اعتراضات سن کر دو باتیں پتا چلتی ہیں‘ ایک یہ کہ حکومتی جماعت میں شاید ایسا ایک بھی نہیں جسے دستور یا اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں کچھ پتا ہو‘ اور دوسری یہ کہ حکومت کی ناکامیوں کی وجہ نالائقی نہیں بلکہ اٹھارہویں ترمیم ہے۔ گویا اٹھارہویں ترمیم نہ ہوتی تو بائیس ماہ میں دودھ اور شہد کی نہریں پاکستان میں بہہ رہی ہوتیں‘یعنی امان اللہ کی طرح مال روڈ خرید لیتے‘ بس اشاروں پر بات رہ گئی۔ 
پاکستان کے دستور میں صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارات اور وسائل اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے از سرنو تقسیم کیے گئے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اس ترمیم نے تئیس مارچ انیس سو چالیس کی قراردادِ پاکستان کے مطابق پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک وفاق بنایا ہے۔ اس ترمیم سے پہلے وفاق کے نام پر جو کچھ ہمارے پاس تھا‘ اسے جمہوری کہا جاسکتا ہے نہ منصفانہ۔ وفاقِ پاکستان دراصل صوبوں نے اس شرط پر تشکیل دیا تھا کہ انہیں مکمل داخلی خود مختاری دی جائے گی اور مرکزدفاع ‘ کرنسی اور خارجہ امور تک ہی محدود رہے گا۔ اگر یہ اصول پاکستان بننے کے بعد دستور کا حصہ بن جاتا تو شاید مشرقی پاکستان بھی الگ نہ ہوتا۔ مضبوط مرکز کے شوق میں ہم اتنا بڑھ گئے کہ صوبائی خودمختاری کی بات کرنے والوں کو غدار کہا گیااور مرکز کے اختیارات سے تجاوز کی نشاندہی کرنے والا ملک دشمن قرار پایا۔ مرکز ایسا ماما بن گیاجو یتیم صوبوں کا مال کھا کر انہی پر دھونس جماتا۔ اٹھارہویں ترمیم نے مرکز کایہ ''مامے‘‘ والا کردار ختم کرکے پہلی بار صوبوں کے وجود کو عملی طور پر تسلیم کیا اور صوبائی حکومتیں اپنے طور پر کچھ کرنے کے قابل ہوئیں۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی پہلی حکومت کی کامیابی کی وجہ بھی یہی ترمیم تھی اور اسی کارکردگی کے زور پر آج یہ جماعت مرکز اور تین صوبوں میں حکمران ہے۔ 
یہ بات درست ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے مالی وسائل کا کم و بیش اٹھاون فیصد حصہ لے جاتے ہیں اور وفاق کے پاس بس چالیس فیصد کے لگ بھگ بچتا ہے جس میں سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد کچھ نہیں بچتا یوں مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو اعتراض کی شکل میں بیان کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وسائل صوبوں کو دیے گئے ہیں تو کام کی ذمہ داری بھی انہی کو ملی ہے۔ مرکز کو صحت‘ تعلیم‘ صاف پانی کی فراہمی ‘ امن و امان یا مال پٹوار جیسا کوئی کام نہیں کرنا۔ اسلام آباد کو جو کچھ کرنا ہے وہ دستور کے چوتھے شیڈول میں صاف صاف لکھ رکھا ہے۔ اس شیڈول کو دیکھیں تو اس میں مرکز کے حوالے ہونے والے بنیادی شعبے دفاع‘ کرنسی‘ خارجہ‘ ریلوے‘ ہوا بازی‘ سمندری جہاز رانی ہیں یا پھر وہ کام جو پورے ملک میں ایک سے ہوتے ہیں مثلاً ناپ تول کے پیمانے مقرر کرنا یا ایجادات کو پیٹنٹ کرنا وغیرہ۔ اب‘ اگر مرکز اپنی شوقین مزاجی میں تعلیم کی وزارت ‘ صحت کی وزارت‘ ثقافتی ورثے کا ڈویژن جیسے اللے تللے کرنا چاہتا ہے تو کرے‘ لیکن اس حماقت کا خرچہ صوبوں پر تو نہ ڈالے۔ اسی طرح وفاقی سڑکوں‘ ریلوے ‘ ہوابازی اور سمندری جہاز رانی کو الگ الگ وزارت بنا کر الگ الگ وزیر لگانے ہیں تو ان کا خرچہ صوبے کیوں اٹھائیں؟ بہت سے کام جو کیبنٹ سیکرٹری یا وزیر اعظم کے دفتر کا ایک اہلکار کرسکتا ہے اس کے لیے الگ وزیر رکھنا مرکز کا فیصلہ ہے‘ اس میں صوبوں کا کوئی قصور نہیں۔ وزارت خارجہ میں جہاں ایشیا کا ایک ڈیسک ہوا کرتا تھا ‘ اسے درجن بھر ٹکڑوں میں بانٹ کر اور بڑے بڑے افسروں کو لگاکر خرچے بڑھانے کی غلطی صوبوں کی تو نہیں۔ ہمارے سفارتخانوں نے کیا تیر چلا لینا ہے ‘لیکن کوئی یہ بھی تو بتائے دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بڑے بڑے سفارتخانوں سے ہمیں کیا فائدہ مل رہا ہے۔ ان سفید ہاتھیوں کواگر مرکز پالنا چاہتا ہے تو ضرور پالے اس میں صوبوں کا کیا قصور ہے؟ واپڈا‘ بجلی اور گیس کمپنیوں کی چوری اگر اسلام آباد نہیں روک سکتا تو انہیں صوبوں کے حوالے کرنے سے کس نے اسے روکا ہے؟ اب تو دستور کے مطابق بجلی کی تقسیم کا نظام بھی صوبائی حکومتوں کو دیا جاسکتا ہے تو اس کا خسارہ برداشت کرنے کی بجائے بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صوبوں کے حوالے کر دیں تاکہ انہیں بھی علم ہو کہ کس بھاؤ بکتی ہے۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے کی بحالی کے نعرے لگانے والوں سے اگر ان اداروں کا کچھ نہیں ہو سکاتو خاموشی سے یہ ادارے بند کرکے اپنا دامن چھڑائیں یقین مانیں کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ اسی طرح وفاقی بجٹ پر سرکاری ملازمین کی پنشن کا بوجھ ختم کرنے کے کئی طریقے دنیا نے اختیارکر لیے ہیں جس سے پنشن تو جاری رہتی ہے لیکن حکومت پر اس کا بوجھ نہیں آتا۔ یہ کام کسی اور نے نہیں مرکز نے کرنا ہے‘ اگر یہ نہیں کرپارہا تو اس کا الزام اسی پر ہے۔ یہ درست ہے کہ ان میں سے کئی کام پچھلی حکومت کو کرنے تھے‘ لیکن تبدیلی کی نقیب موجودہ حکومت بھی اپنے ان فرائض کی ادائیگی سے کیوں گریز کررہی ہے؟ 
تحریک انصاف کے وزیرو ں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے پاس کرنے کو بامعنی بات ہونہ ہو الفاظ وافر ہوتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم پر ان کے اعتراضات کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ یہ معنی سے بالکل خالی ہیں۔ صوبوں پر اصل اعتراض قومی وسائل میں ان کے حصے پر نہیں بلکہ ان کے آمرانہ اندازِ حکمرانی پر ہونا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مرکز سے دستیاب اختیارات و وسائل نچلی ترین سطح پر ایک طاقتور بلدیاتی نظام کے ذریع منتقل ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بلدیاتی اداروں کو باقاعدہ پروگرام کے تحت برباد کیا۔ تحریک انصاف بلدیاتی اداروں کی سب سے بڑی حمایتی بن کر ابھری لیکن عمل اس کا یہ کہ اقتدار میں آتے ہی اس نے پہلے بلدیاتی اداروں کو ختم کیا اور اس کے بعد اپنے دو صوبوں میں طویل سوچ بچار کے بعد نہایت بودا سا ایک بلدیاتی قانون بنایا اور اس کے تحت بھی الیکشن نہیں کرا سکی۔ اب تو کورونا کا بہانہ بھی میسر ہے اس لیے بلدیاتی اداروں کا قصہ تو پاک ہی سمجھیں۔ اقتدار میں آتے ہی اگر بلدیاتی انتخابات کرادیے جاتے تو شاید عزت میں کچھ اضافہ ہوجاتا لیکن تجربے میں یہی آیا ہے کہ حکومتوں کو عزت کچھ زیادہ عزیز ہوتی نہیں۔ 
سیاسیات میں کہا جاتا ہے کہ قانون ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوتا ہے‘ جسے روایات خوبصورت چہرہ دیتی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم ہو یا کوئی اور قانون‘ اصل میں ڈھانچے ہیں؛ نہایت بدنما لیکن زندگی کی اہم ترین ضرورت۔ فرض کرلیتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو مزید وسائل کی ضرورت ہے‘ تو اس کے لیے اسے سیاسی روایت کے مطابق صوبوں سے بات کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے حلق شگاف نعرے اسی نے لگائے تھے۔ اب اسے کام کرکے دکھانا ہے‘ رو کر نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved