تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     13-05-2020

اِنچوں کو فٹوں پر فوقیت…

انصاف سرکار میں کچھ اور ہو نہ ہو‘ لیکن ایک بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ ہر روز موضوعات کا انبار لگا دیتے ہیں۔ لکھنے اور بولنے والوں کیلئے انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آج کس پر لکھا جائے اور کس پر بولا جائے۔آج بھی کچھ ایساہی معاملہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ چند خبروں نے کالم کا نہ صرف دھارا بدل ڈالا بلکہ اصل موضوع سے بھی بھٹکا دیا۔ یہ منتخب خبریں نہ صرف بری طرح ہانٹ کر رہی ہیں بلکہ بے چینی اور ڈپریشن میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ خبریں اور ان کے نتیجے میں طاری ہونے والی کیفیت قارئین سے شیئر کرنا تو بنتا ہے۔ 
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے وزرا کی کارکردگی رپورٹ طلب کر لی ہے جو پبلک بھی کی جائے گی۔ اس خبر پر تبصرہ کرنے کیلئے الفاظ کا انتخاب یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کونسی کارکردگی‘ کہاں کی گورننس اور کیا پبلک کیا جائے گا؟ روزمرّہ بیانات سے لے کرعملی اقدامات تک‘بد عنوانیوں سے بدانتظامیوں تک‘شعلہ بیانیوں سے تضاد بیانیوں تک‘عوام کی بے بسی سے ذلّت اور دھتکار تک‘ میرٹ کی نفی سے بدترین طرزِ حکمرانی تک‘ کیا پبلک کر سکیں گے؟ اس موقع مولانا جلال الدین رومی کا ایک قول بے اختیار یاد آرہا ہے کہ رونے دھونے اور شکوے شکایت کرنے کی بجائے اپنے اعمال پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ جب ہر کوئی کشتی میں اپنا سوراخ کر رہا تو پھر یہ ہرگز نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا تھا اس لیے کشتی ڈوب گئی۔ ویسے بھی کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ہی ڈوبتی ہیں اور اندر بھی پانی تب ہی آتا ہے جب اس پر سواروں کے درمیان سوراخ کرنے کا مقابلہ جاری ہو۔ تاہم اس خبر پر مزید تبصرہ کرنے کے بجائے احتیاط اور اختصار سے کام لینا ہی بہتر ہوگا اور مولانا رومی کے اس قول پر انحصار کرتے ہوئے الفاظ کے اسراف کے ساتھ ساتھ سنسر کے ریڈار سے بچنا بھی ضروری ہے۔ 
آٹے کا گھاٹا اور چینی کے ساتھ آئی پی پی کی رپورٹ نجانے کہاں بھٹک رہی تھی کہ انصاف سرکار کی لاعلمی اور سادگی کا ایک اور نمونہ سامنے آن کھڑا ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی آڑ میں دیگر ادویات کی بھارت سے درآمد کی منظوری کس نے دی اور کب دی؟ نہ کابینہ کے علم میں ہے اور نہ ہی مشیر صحت اس بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اس واردات پر وزیراعظم بھی حیران اور پوری کابینہ ''ہکابکا‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ ادویات سے مال بنانے کی واردات ہمارے ہاں پرانی ہے۔ابھی حال ہی میں ادویات کی قیمتوں میں من چاہا اضافہ کر کے اپنی دنیا سنوارنے والے سابق وزیر صحت عامر کیانی کی رخصتی کی وجہ بھی یہی ادویات بنیں۔ عامر کیانی تو گھر چلے گئے لیکن عوام ان کے ہاتھوں قیمتوں میں لگائی گئی اس آگ میں آج بھی جَل رہے ہیں۔ لاعلمی اور حیرانیوں کا یہ سفر ہنسی خوشی جاری ہے‘ لیکن عوام دن بدن زندہ درگور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ 
کورونا ایمرجنسی میں ایک دوڑ کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ ہر کسی پر لاک ڈاؤن کا خسارہ پورا کرنے کی دھن سوار ہے۔ ریڑھی بان سے لے کر آڑھتی تک‘دکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی اپنا گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال کر قیمتوں میں کورونا ٹیکس شامل کر چکے ہیں۔ ان چھوٹے بڑے کاروباریوں کی ہوسِ زرّ اور بے حسی کا رونا کیا کم تھا کہ اس دوڑ میں سرکار بھی شامل ہو چکی ہے۔ قرنطینہ سینٹرز کے قیام سے لے کر دیگر کورونائی اقدامات تک ہر مال بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ نمونے کے طور پر ایکسپو سنٹر لاہور میں قائم کیا گیا ماڈل قرنطینہ سینٹر پیش خدمت ہے جس میں انصاف سرکار کے سقراطوں بقراطوں نے 90کروڑ روپے جھونک ڈالے ہیں۔ اس خطیر رقم سے کھلواڑ کرنے والوں کی چند وارداتیں شیئر کرتا چلوں۔ ساڑھے چار کروڑ روپے صر ف لیمینیشن شیٹس کی صورت میں وہاں رُلتے نظر آتے ہیں۔ واجبی سے بیڈز پر اڑھائی کروڑ روپے کی شاہانہ خریداری کی گئی ہے۔ اس طرح آلات اور مشینری کے نام پر ایک کروڑ نوے لاکھ روپے جبکہ ادویات اور ڈسپوزایبل سرجیکل آئیٹمز پر تین کروڑ 30لاکھ روپے خرچ کر ڈالے۔ نرسز‘ وارڈ اٹینڈنٹ اور سویپرز کی سروسز کا خرچہ ایک کروڑ 30لاکھ روپے ‘جبکہ ماہانہ آپریشنل اخراجات ایک کروڑ 80لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ معمہ تاحال حل طلب ہے کہ انصاف سرکار کے طبّی کھلاڑی اس خطیر رقم سے کورونا کے مریضوں کو کونسی ادویات کھلا رہے ہیں اور ان کے کونسے آپریشن جاری ہیں۔ ممکن ہے کہ حکومتی چیمپئنز نے کوئی خفیہ علاج دریافت کر ڈالا ہو جو تاحال عوام سے پوشیدہ ہے۔ 
اسی طرح دیگر ناقابلِ فہم بھاری اخراجات بھی اچھے اچھوں کے ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ بنیادی سہولتوں سے عاری اس قرنطینہ سینٹر پر آئے روز ہونے والے مریضوں کے احتجاج کے ساتھ ساتھ دھتکار اور پھٹکار کے سارے مناظر انصاف سرکار کے کورونائی اقدامات کا پول تو کھول ہی چکے ہیں‘ اس سے بڑھ کر ظلم اور بے حسی کیا ہوگی کہ ہوا میں اربوں روپے لگائے جارہے ہیں‘ لیکن پہلے سے موجود سرکاری ہسپتالوں کی بدحالی اور مالی بحران پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ اس کورونائی ایمرجنسی میں کون اپنی دنیا سنوار رہا ہے اور کون ان ''نیک کمائیوں‘‘ سے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ اپنے مالی ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ 
شیخ زید ہسپتال کو مالی سال 2019-20ء کا بجٹ تاحال نہ مل سکا ہے‘ جبکہ مالی سال ختم ہونے میں بھی اب دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ قرنطینہ سینٹرز میں شاہانہ اخراجات کے بجائے یہی رقوم ان سرکاری ہسپتالوں کو اَپ گریڈ کرنے پر لگانے سے کچھ تو حلال ہوتا اور انہی ہسپتالوں کے وارڈز اور دیگر طبّی سہولیات کہیں بہتر طریقے سے کورونا مریضوں کے لیے استعمال کی جا سکتی تھیں۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ ایسے مواقع کہاں روز روز آتے ہیں‘ اگر ہسپتالوں کو بجٹ دیں گے تو بہتی گنگا میں ہاتھ کیسے دھوئیں گے۔ بات اگر ہاتھ دھونے تک ہی ہوتی تو شاید برداشت کی جاسکتی تھی یہاں تو انصاف سرکار کے اکثر سیاسی و انتظامی چیمپئنز تو اس بہتی گنگا میں ڈُبکیاں لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واردات صوبائی دارالحکومت میں قائم ایک ماڈل قرنطینہ سینٹر کی ہے جبکہ انصاف سرکار ایسے نجانے کتنے دیگر شاہکار منصوبوں پر نازاں اور اترائی پھر رہی ہے۔ وہاں کورونائی لوٹ مار کا کیا عالم ہوگا اس کا اندازہ اس ایک نمونے سے ہی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ 
لاک ڈاؤن میں مزید نرمی ہوتے ہی دکانداروں اور خریداروں نے حفاظتی پابندیوں کے چیتھڑے اُڑا دئیے ہیں‘ جبکہ نادرا کے دفاتر کے باہر جم ِغفیر‘ بینک میں ٹریفک چالان جمع کروانے والوں اور دیگر کھاتہ داروں کی طویل قطاریں دیکھ کر کورونا بھی عجیب شش و پنج کا شکار ہوگا کہ یہ کونسی مخلوق ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گورننس بھی کورونا کے خوف سے کہیں جاچھپی ہے‘ لیکن انتظامی ادارے اور پولیس کورونا خلاف ورزی کی قیمت بہرحال موقع پر وصول کر کے عوام کو من مانی کے ساتھ ساتھ ایس او پیز کی دھجیاں اُڑانے کی کھلی اجازت باآسانی دے رہے ہیں۔
چلتے چلتے ایک اور دہرا معیار بھی شیئر کرتا چلوں کہ تنگ بازار کھول دئیے گئے ہیں جبکہ کھلے کشادہ اور صاف ستھرے شاپنگ مالز تاحال پابندی کا شکار ہیں‘ جہاں پر ایس او پیز کے مطابق سماجی فاصلوں پر کافی حد تک باآسانی عمل کروایا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کھولے گئے تنگ بازاروں میں تو اِنچوں کا فاصلہ رکھنا بھی محال نظر آتا ہے۔اندیشہ ہے کہ ان انچوں کو فٹوں پر فوقیت دینے کی قیمت آج نہیں تو کل ضرور چکانا پڑے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved