تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-05-2020

بھارت اور سٹیورٹ بیل رپورٹ

سٹیورٹ بیل کا نام کینیڈا اور یورپی ممالک سمیت سوشل میڈیا پر انتہائی معتبر سمجھا جاتا ہے اور ان کی ایک عرصہ سے معیشت‘ سیاست اور عالمی و دفاعی امور پر لکھی گئی تحقیقاتی رپورٹس انتہائی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی حال ہی میں سوشل میڈیا کی ایک ویب سائٹ پر لکھی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ نے کینیڈا بھر میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے‘ نیز اس کے ساتھ سٹیورٹ بیل کی اس رپورٹ کے سامنے آنے سے کینیڈا کا میڈیا اور سیا سی حلقے سمیت سکیورٹی سے متعلق ادارے تک حیران ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اس حد تک جانے لگی ہیں کہ وہ کینیڈا کے سیا سی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کرنے کا سوچنے لگی ہیں۔ کینیڈا کے سوشل میڈیا سمیت کینیڈا میں موجود سفارتی حلقے یہ سوچنے پر مجبو رہو گئے ہیں کہ اگر بھارت‘ کینیڈا میں اپنی ایجنسیوں اور ان کے فنڈز بروئے کار لا سکتا ہے‘ تو اپنے ارد گرد کے ممالک کی سیا ست اور دوسرے معاملات میں کہاں تک مداخلت نہیں کرتا ہو گا اور خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں ‘ جسے وہ بہتر برس گزرنے کے باوجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔
سٹیورٹ بیل کے مطا بق ‘کینیڈا کی سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کے افسران نے دو ایسے اشخاص کی نشاندہی کی ہے‘ جن میں سے ایک کا تعلق بھارت کی انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) اور دوسرے کا بھارت کی خفیہ ایجنسی '' راء‘‘ سے ہے ۔ان دونوں نے اپنے اپنے طور پر ایک بھارتی اخبار کے چیف ایڈیٹر کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہوئے اسے مالی ترغیب دی کہ وہ کینیڈا کے کچھ سیا ستدانوں کو اپنے ساتھ ملائیں‘ تاکہ وہ کینیڈا میں بھارتی مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے کام آ سکیں اور اس کیلئے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر کو ایک بھاری رقم بھی پیش کی گئی ‘ جس کی کینیڈین خفیہ ایجنسی کو خبر ہو گئی۔ بھارتی اخبار کے اس چیف ایڈیٹر کی ان دونوں سے ہونے والی ملاقاتیں ہو سکتا تھا کہ کینیڈین حکام کی نظروں میں نہ آتیں‘ لیکن مذکورہ ایڈیٹر کچھ عرصہ سے زیر نگرانی تھے‘ اس لئے جیسے ہی ان کی ان ہر دو اشخاص سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں شروع ہوئیں‘ تو یہ نگرانی مزید سخت کر دی گئی ‘کیونکہ جن سے ایڈیٹر صاحب کی گاڑھی چھننے لگی تھی ‘ان کا تعلق بھارت کی مذکورہ بالا خفیہ ایجنسیوں سے ثابت ہو جانے کی وجہ سے ان دونوں اہلکاروں کی مشکوک حرکات کو مانیٹر کرنے کیلئے کینیڈین سکیورٹی کیلئے ما مور ادارہ کچھ عرصہ سے ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
بھارتی اخبار کے چیف ایڈیٹر سے جب پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے یہ ماننے سے صاف انکار کردیا کہ اسے بھارت کے کسی ادارے نے یا ان کے ایجنٹ نے خفیہ ٹاسک دیا ہے؛ البتہ جب اس سے بار بار سوالات کئے گئے تو اس نے اتنا تسلیم کیا کہ وہ ان دونوں افراد جن کے متعلق اسے علم نہیں کہ ان کاتعلق ''راء‘‘ اور'' آئی بی‘‘ سے بتایا جاتا ہے‘ چند دفعہ ضرور ملا ہے‘ لیکن وہ بھی ایک اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے‘ لیکن جب اس کی ملاقاتوں کا ریکارڈ اس کے سامنے رکھا گیا‘ تو اس کے ہوش اڑ گئے‘ کیونکہ یہ چند نہیں ‘بلکہ کل25 ملاقاتیں تھیں۔ اخبار کے ایڈیٹر صاحب سے تفتیش کا دائرہ وسیع ہوا تو کینیڈین اتھارٹی یہ جان کر حیران رہ گئی کی بھارت‘ کینیڈا میں پاکستان کیخلاف عوامی اور سماجی حلقوں میں ناپسندیدگی اور نفرت انگیز جذبات بھڑکانے کیلئے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مقامی اور غیر مقامی لوگوں کو لاکھوں ڈالروں دے رہا ہے ۔ ایڈیٹرصاحب نے کینیڈین ایجنسیوں کی تفتیش میں حیرت انگیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں کینیڈا میں مقیم سکھوں کی نئی نسل کو جعلی قسم کے تاریخی حوالے دے کر پاکستان کیخلاف ابھارنا چاہتی ہیں۔گلوبل نیوز کو اس سلسلے میں  ملنے والی انتہائی خفیہ دستاویزات کے مطا بق‘ بھارت کافی عرصے سے کینیڈین سیا ستدانوں کو خریدنے کیلئے مالی پیشکشیں کرتا چلا آ رہا ہے اور گلوبل نیوز کے مطا بق ''راء‘‘ اور'' آئی بی‘‘ کے اہلکار‘ کینیڈین سیاستدانوں‘ جرنلسٹوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو خریدنے کا سلسلہ2009 ء سے شروع کئے ہوئے ہیں اور اب تک کروڑوں ڈالر اس مد میں خرچ کر چکے ہیں۔
کینیڈین سیاسی نظام میں بھارتی مداخلت کی رشوت پر مبنی یہ رپورٹ کوئی قصہ کہانی نہیں ‘بلکہ اس Operating Alleged International کو کینیڈا کی فیڈرل کورٹ میں سکیورٹی انٹیلی جنس سروس برائے جاسوسی نے ایڈیٹر موصوف کیخلاف فرد جرم عائد کی ‘ تو انتہائی خفیہ اور حساس قسم کی معلومات کی وجہ سے بھارت کو ان دونوں خفیہ ایجنسیوں کے اہل کاروں کے نام کورٹ کے سامنے دہرانے سے اجتناب کرتے ہوئے ان دونوں کا مسٹر اے اور بی کے نام سے تحریری طور پر حوالہ دیا گیا اور اخبار کے ایڈیٹر کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کی بیوی اور بیٹا دونوں کینیڈین شہری ہیں اور یہ کہ اخبار کا ایڈیٹر بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے ان دو اہلکاروں سے گزشتہ چھ برسوں میں کل25 بار ملاقاتیں کر چکا اور ان میں سے اکثر ملاقاتیں مئی2015 ء کے بعد اس وقت کی گئیں‘ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کینیڈا کا سرکاری دورہ کیا۔امیگریشن افسر کی جانب سے ایڈیٹر صاحب کوبھیجے گئے سوال نامے پر مشتمل خط میں پوچھاکیا گیا کہ '' تم نے اقرار کیا ہے کہ'راء‘ کے افسران نے ملاقات میں اس امر کا ٹاسک دیا کہ تم خفیہ طور پر کینیڈا کے حکومتی ذمہ داروں اور سیاستدانوں پر بھارتی مفادات کیلئے اثر انداز ہونے کی کوشش کروگے؟‘‘۔ خط میں دوسرا سوال پوچھا گیا کہ '' تم نے تسلیم کیا ہے کہ تمہیں کہا گیا کہ identify random Caucasian politicians ( لا پروا اور بکائو قسم کے سیاستدانوں اور اراکین ِ پالیمنٹ ) سے رابطے کر کے انہیں مالی پیشکش کرتے ہوئے بھارتی مفادات کیلئے کام کرنے کی ترغیب دو گے؟‘‘۔ تیسرا سوال پوچھا گیا کہ '' تم نے تسلیم کیا ہے کہ 'راء‘ کی جانب سے تمہاری رہنمائی کرنے کے علا وہ تمہیں نقد کیش اور پراپیگنڈا پھیلانے کیلئے مواد مہیا کیا جاتا رہا‘تاکہ اس قسم کے سیا ستدانوں کو اپنے زیر اثر لایا جا سکے۔ ''راء‘‘ اور ''آئی بی‘‘ کیلئے کام کرنے والے اس ایڈیٹرصاحب کو30 مئی 2018ء کو امیگریشن افسر کی جانب سے لکھے گئے خط میں پوچھا گیا کہ آپ کے کہنے کے مطا بق ‘ایک اہم ترین ٹاسک یہ بھی دیا گیا کہ تم کینیڈین سیاستدانوں کو قائل کرو کہ دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والی بھاری رقوم کینیڈا سے پاکستان بھیجی جا رہی ہیں ۔
کینیڈا کی مشہور دانشور اور دی نارمن پیٹرسن سکول آف انٹرنیشنل افیئر کی پروفیسر Stephanie Carvin نے فیڈرل کورٹ کی ابتدائی کارروائی پرکہا ہے کہ ''یہ مقدمہ اس بناء پر غیر معمولی ہے کہ انڈیا کینیڈین سیا ستدانوں کی خریدو فروخت میں ملوث ہے‘ جو ہمارے لئے بھی باعث شرم ہے ‘‘۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گلوبل نیوز نے جب اپنے پاس موجود دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کینیڈا کے پبلک سیفٹی منسٹر بل بلیئر سے رابطہ کیا ‘ توان کے حکم پر پبلک سیفٹی منسٹر کے دفتر کی جانب سے دستیاب معلومات کے بعد یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بھارت‘ کینیڈا تو کیا دنیا بھر کے ممالک کے اندر مبینہ مداخلت کر رہا ہے‘ جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے انتخابی اور سیاسی سیٹ اپ میں وہ کس حد تک مداخلت کرتا ہوگا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved