تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-05-2020

پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا

حالات کا کرم ہے کہ بدلتے رہتے ہیں اور اُن کے بدلتے رہنے سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ حالات کی تبدیلی انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی تحریک دیتی ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہر انسان کیلئے لمحۂ فکریہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہر تبدیلی کوئی نہ کوئی پیغام لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اس پیغام کو بروقت سمجھنا لازم ہے‘ تاکہ اُس کے مطابق اپنے معمولات اور مزاج میں تبدیلی لائی جاسکے۔ حالات اور معاملات کی تبدیلی خواہ کسی سطح پر ہو‘ ہمارے لیے کچھ کرنے کا اشارا ہوتی ہے۔ ہمیں فکری اور عملی سطح پر متحرک ہونے اور متحرک رکھنے کے معاملے میں حالات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ زندگی معاملات کے نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ہمارے ماحول میں ہر وقت بہت کچھ بدلتا رہتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل ہمارے وجود پر بھی غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم جب بدلتے ہوئے معاملات کے بارے میں سوچنے پر مائل ہوتے ہیں تب اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر بھی نظر جاتی ہے اور یوں اصلاحِ احوال کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اس کے لیے ذہن کا وسیع ہونا لازم ہے‘ اگر انسان ذہنی طور پر بند گلی میں کھڑا ہو‘ یعنی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو کہ اُس میں بھی کوئی خامی اور کمزوری ہوسکتی ہے‘ تب معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ 
معاملات انفرادی سطح کے ہوں یا اجتماعی سطح کے‘ ہم سے سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی حوالے سے مکمل سنجیدہ ہوکر مختلف امور کا جائزہ لیتے ہیں تب ہی ہم پر اپنی اور دوسروں کی خامیاں اور کمزوریاں کُھلتی ہیں اور ہم اصلاحِ احوال کی گنجائش پیدا کر پاتے ہیں۔ ہر انسان کی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں ؛ انفرادی اور اجتماعی۔ دونوں ہی اہم ہیں۔ ہم اجتماعی زندگی پر انفرادی زندگی کو قربان نہیں کرسکتے۔ اور کبھی انفرادی زندگی کو بھی اتنی اہمیت نہیں دی جاسکتی کہ باقی سب کچھ داؤ پر لگ جائے‘ معاملات کے درست کیے جانے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ اصلاً تو انفرادی پہلو ہی ہم سے زیادہ توجہ کا طالب رہتا ہے۔ جب ہم اپنے انفرادی یا نجی معاملات کو درست رکھ پاتے ہیں تب ہی اجتماعی بہتری کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ کوئی کتنا ہی پڑھا لکھا یا اَن پڑھ ہو‘ ہنر مند ہو یا بے ہنر‘ سنجیدہ رہتا ہو یا کھلنڈرے مزاج کا حامل ہو‘ قوتِ برداشت کا حامل ہو یا بات بات پر پھٹ پڑتا ہو ‘ انفرادی سطح کے معاملات کو نظر انداز کرکے ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں ذہن یکسر بے سکون ہو رہتا ہے۔ جب ذہن پُرسکون نہ ہو تب کام کی بات کم ہی سُوجھتی ہے۔مرزا خاں داغؔ دہلوی نے کہا ہے ؎ 
نہ رونا ہے طریقے کا‘ نہ ہنسنا ہے سلیقے کا 
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا 
فی زمانہ لازم سا ہوکر رہ گیا ہے کہ انسان اپنے انفرادی یا نجی معاملات کو درست رکھنے پر خاطر خواہ توجہ دے‘ اس حوالے سے لاپروائی کا مرتکب نہ ہو۔ ہر طرف تبدیلیوں کا بازار کچھ اس انداز سے گرم ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود مکمل طور پر محفوظ یا غیر متعلق رہنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ دنیا اُس مقام پر آگئی ہے جہاں ہر چیز الجھ کر رہ گئی ہے۔ ایسا فطری ہے ‘کیونکہ اب کم و بیش تمام معاملات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ کسی ایک معاملے میں خرابی پیدا ہو تو اُس سے جُڑے ہوئے تمام معاملات میں خرابی صرف پیدا نہیں ہوتی‘ بلکہ اُس کا گراف بلند بھی ہوتا جاتا ہے۔ مختلف شعبوں میں ترقی اور پیش رفت کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے کیونکہ اب کچھ کر دکھانے کے لیے انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ مسابقت کا معاملہ دن بہ دن شدید سے شدیدتر ہوتا جارہا ہے۔ کل تک جہاں بہت سی مشکلات تھیں وہیں ایک بڑی آسانی یہ تھی کہ لوگ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے حوالے سے زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرتے تھے۔ اب ‘کسی بھی شعبے میں بنیادی فطری صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے مواقع تو بہت ہیں مگر کچھ کر دکھانا‘ کوئی مقام پیدا کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ 
عمومی سطح پر کسی بھی تبدیلی یا حالات کے متعارف کرائے ہوئے کسی بھی چیلنج کو سامنے پاکر لوگ صرف پریشان ہوتے ہیں۔ کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے غور و فکر اور اُس کے مطابق عمل ناگزیر ہے‘ مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ پریشان ہوتے رہنے میں زیادہ عافیت محسوس کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ایسی حالت میں کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ محض پریشان ہو رہنا تو کسی بھی مسئلے حل نہیں۔ ہر صورتِ حال ہم سے فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ اب کورونا وائرس ہی کی مثال لیجیے۔ کورونا کی وبا نے ہمیں ایک عجیب دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دنیا بھر میں معیشتی سرگرمیاں کورونا کی وبا کے ہاتھوں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں معاملات الجھتے ہی جارہے ہیں۔ کمزور معیشتوں کا بہت برا حال ہے۔ ایشیا اور افریقا میں درجنوں ممالک انتہائی خرابی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ دو ڈھائی ماہ میں کورونا وائرس نے جو قیامت ڈھائی ہے اُس کے شدید منفی اثرات سے نمٹنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ سبھی کچھ تو الجھ کر رہ گیا ہے۔اب‘ کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں دنیا بھر میں معیشتوں کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا ہے۔ طاقتور ممالک بھی کورنا وائرس کے شدید منفی اثرات سے محفوظ رہنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن ممالک کی معیشتیں پہلے ہی کمزور تھیں اُن کا کیا حال ہوا ہوگا؟ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو ستم کورونا نے ڈھایا ہے‘ اُس کے اثرات سے نمٹنے میں کئی ماہ لگیں گے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث ایس او پیز بھی یکساں نہ رہے اور اُن پر عمل کے حوالے سے بھی جامع اور ہم آہنگی پر مبنی سوچ اپنائی نہ جاسکی۔‘اگر ہم کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کا صرف ماتم کرتے رہیں اور پریشانی سے دوچار رہنے پر اکتفا کرلیں تو سمجھ لیجیے رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی۔ کیونکہ ہمیں داغؔ دہلوی کا مشورہ یاد رکھنا ہے ع 
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved