وفاقی حکومت آخرکار ''اشرافیہ‘‘ کی جانب سے کئے گئے لاک ڈائون میں نرمی کرانے میں کامیاب ہوہی گئی‘وزیراعظم عمران خان اوران کی کابینہ کے اکثرارکان جس طرح پہلے دن سے لاک ڈائون کے مخالف تھے اورپنجاب سمیت صوبائی حکومتیں ‘جس طرح سخت لاک ڈائون کی حامی تھیں‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سندھ میں اپوزیشن جمارت پیپلزپارٹی کی حکومت کو چھوڑ ہی دیں اورصرف پنجاب و خیبرپختونخوا میں کپتان کے اپنے کھلاڑیوں کی بات ہی کی جائے ‘تو بھی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وفاق اورصوبوں میں رابطے کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اوریوں لگتاہے کہ شاید وزیراعظم صاحب نے صوبائی حکومتوں کو ہی اشرافیہ قرار دیاتھا۔ لاک ڈائون میں نرمی کے حوالے پہلی بار بھی وفاقی کابینہ نے جو فیصلے کئے ‘ان میں سے کئی باتوں پر پنجاب نے بھی اختلاف کیا اور لاک ڈائون میں توسیع کی‘ صوبائی حکومتیں اورمقامی انتظامیہ شاید اس لئے لاک ڈائون میں فوری نرمی کے حق میں نہیں‘ کیونکہ انہیں ہی کورونا وائرس میں اضافے اوراموات کی شرح بڑھنے پر براہِ راست تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا‘ انہیں اس بات کا بھی تجربہ تھاکہ جب بھی پاکستانی قوم کو ڈھیل دی گئی‘ تو اس نے ہمیشہ نرمی کاناجائز فائدہ اٹھایا‘ بالکل اسی طرح لاک ڈاؤن میں نرمی کا عوام نے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے‘ جس سے کورونا وائرس کی وبا مزید پھیلنے کے خطرات بڑھنے لگے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاہے کہ اگرحالات بہتر نہ ہوئے ‘تو دوبارہ پابندیاں لگا دیں گے۔
عالمی ادارۂ صحت(ڈبلیو ایچ او)نے خبر دار کیا ہے کہ پاکستان میں 10 اپریل سے کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور یکم مئی سے پنجاب اور سندھ میں کیسز کی تعداد زیادہ تیزی سے بڑھی ہے ۔کورونا وبا کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کاکردار ادا کرنے والے ہمارے اپنے ڈاکٹرز بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈائون میں نرمی نہ کیاجائے ‘اس سے صورت ِ حال تشویشناک ہوسکتی ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہسپتال کم پڑجائیں گے ‘لیکن ان ساری باتوں اورزمینی حقائق کی پرواکئے بغیر وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے لاک ڈائون میں مزید نرمی کے فیصلہ پر اتفاق کیا ہے۔وزیراعظم صاحب کاکہنا ہے کہ میں پہلے دن سے ہی لاک ڈائون کے حق میں نہیں تھا‘ اب وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید نرمی لائیں گے‘ صوبوں سے اتفاق رائے کے بعد جلد ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں کی آمدورفت کھولیں گے‘ ہم نے لوگوں کو ایس او پیز کی پابندی اور احتیاطی تدابیر کی ترغیب دینا ہے۔
لاک ڈائون میں نرمی کے بعد بازاروں میں اچانک ہجوم میں بے تحاشا اضافہ ہوگیاہے ‘ مارکیٹوں اور دکانوں پر ایس اوپیز کو نظر انداز کرنے سے صورت ِ حال خراب ہو چکی ہے۔کورونا ایڈوائزری گروپ نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط اور سختی ہی کورونا سے بچنے کا واحد طریقہ ہے‘ لاک ڈائون کھلنے سے کیسز بڑھ چکے ہیں‘ کورونا علامات کے ساتھ گھر رہنے اور ٹیسٹ نہ کرانے سے اموات بڑھیں ‘جبکہ بازار کھلنے سے کورونا کی منتقلی کا عمل بڑھ گیا ہے‘ عیدالفطر تک کیسز بڑھیں گے۔ادھریونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر نے خبردار کیا ہے کہ عید تک کیسز میں ریکارڈ اضافہ ہو سکتا ہے‘ عید کے بعد حکومت کو دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔ مارکیٹوں اور دکانوں کو دن میں دو بار کلورینیٹ کیا جائے۔ فاصلے نہ رکھے گئے توشدید مشکل میں آ سکتے ہیں۔ بازارکورونا وائرس کے پھیلا ئوکا سبب بن رہے ہیں‘ وائرس کا کیریئر بننے سے گھروں میں بزرگ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ جولائی تک کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ محفوظ رہنے کیلئے پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے صوبے میں کورونا کے بڑھتے کیسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے لاک ڈائون میں نرمی کے فیصلے پر نظر ثانی اور مکمل لاک ڈائون کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سختی کی جائے ‘ لیکن جہاں ایک ہی جماعت کی وفاق اور صوبوں میں قائم حکومتوں کے درمیان ہی رابطے کافقدان پایا جاتاہے اور وزیراعظم کی زیرصدارت روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اجلاسوں کے باوجود مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوں میں فرق موجود ہے ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جس حکومت کے اپنے کئی وزراء اور ارکان اسمبلی خود حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں کرتے‘ جبکہ اکثر وفاقی وزراء اوراپوزیشن لیڈر سمیت ممبران اجلاس میں شریک ہونا ہی پسند نہیں کرتے تو باہمی مشاورت کاعمل کیسے آگے بڑھ سکتاہے اور کسی اہم ایشو پر اتفاق رائے ہوسکتاہے؟ کابینہ ارکان کی لاک ڈائون بارے سوچ بھی یکساں نہیں‘ کوئی وزیراعظم کی حمایت میں نرمی کی بات کرتاہے تو کوئی اس کے خطرناک نتائج کے پیش نظر مکمل لاک ڈائون کامطالبہ دُہرا رہاہے۔ وزیرریلوے شیخ رشیداحمد ‘وزیراعظم کی طرح کاروبار کے حامی ہیں تو اسدعمر ایس اوپیز پر سختی سے عمل درآمد چاہتے ہیں ‘جبکہ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کہتے ہیں کہ کورونا وبا کا حل لاک ڈائون نہیں‘ بلکہ ویکسین ہے۔
عوامی مشکلات میں کوئی شک نہیں اورکاروبار کی بندش کے نتائج بھی نقصان دہ ہیں‘ لیکن یہ بات بھی تو سبھی جانتے ہیں کہ ''جان ہے تو جہان ہے‘ ‘پھر قیمتی انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کاروبار یا خریداری پر زور دینا عقلمندی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کم مریض سامنے آنے کی اکلوتی قباحت صرف کورونا ٹیسٹوں کی کم تعداد ہے‘ ورنہ جس بھی علاقے‘ ادارے یا شہر میں لوگوں کے ٹیسٹ کئے گئے وہیں سے متاثرہ افراد سامنے آئے ہیں اورجن لوگوں کے کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر متاثرین میں بظاہر اس بیماری کی کوئی علامات دکھائی نہیں دیتی تھیں‘ لیکن بیماری لاحق ہوچکی تھی ‘لہٰذا شہریوں کو احتیاط کادامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور ڈبلیو ایچ او کی ہدایات پر مکمل عمل پیرا ہوکر اپنی اوردوسروں کی جان کومحفوظ بنانا ہوگا‘کیونکہ معمولی سی لاپروائی بھی خدانخواستہ کسی بڑے نقصان اکا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور حالات بے قابو ہوسکتے ہیں‘ لہٰذا احتیاطی تدابیر پر عمل ناگزیر ہے۔