تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     14-05-2020

نماز تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ

اکیسویں پارے کے مضامین
اس پارے کی پہلی آیت میں تلاوتِ قرآن اور اقامتِ صلوٰۃ کا حکم ہے اور یہ کہ نماز کے منجملہ فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ‘ اسی معیار پر ہر مسلمان اپنی نماز کی مقبولیت اور افادیت کا جائزہ لے سکتا ہے۔ رسول کریمﷺ کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ''نبی امی ‘‘ تھے ‘ یعنی آپ نے رسمی طور پر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ آیت نمبر48 میں فرمایا '' اور آپ نزولِ قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ باطل پرست شک میں مبتلا ہوجاتے ‘‘ یعنی کوئی منکر یہ کہہ سکتا تھا کہ پچھلی کتابوں کاکوئی ذخیرہ یا دفینہ ان کے ہاتھ آگیا ہے ‘ جسے پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔ آیت نمبر59میں فرمایا ''اور کتنے ہی جانور ہیں جو‘ اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے ‘ ان کو اللہ ہی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی ‘‘ یعنی اسباب کا اختیار کرنا بجا ‘ لیکن رازقِ حقیقی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے۔ آیت نمبر:62میں فرمایا کہ ''رزق کی کشادگی کو کوئی اپنے لیے معیار فضیلت نہ سمجھے‘‘۔ 
سورۃ الروم
قرآن کی حقانیت کی ایک قطعی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں مستقبل کی جو خبریں دی گئی ہیں‘ وہ ہمیشہ سچ ثابت ہوئیں۔ اہل روم اور اہلِ فارس میں لڑائیاں چلتی رہتی تھیں ‘ ایک بار اہلِ فارس‘ جو مشرک تھے‘ اہلِ روم پر غالب آگئے اور رومی اہلِ کتاب تھے؛ چنانچہ مشرکینِ مکہ اہلِ فارس کی فتح پر خوشیاں منانے لگے‘ تو قرآن نے فرمایا:یہ خوشیاں عارضی ہیں‘چند سال میں رومی فارس والوں پر غالب آجائیں گے؛ چنانچہ قرآن کی بشارت کے عین مطابق ساتویں سال میں رومیوں کو اہلِ فارس پر دوبارہ فتح نصیب ہوئی ۔ آیت نمبر9سے بتایا کہ لوگوں کو اپنی مادّی قوت وطاقت پر اِترا کر اللہ عزوجل کی غالب قدرت کو بھول نہیں جانا چاہیے ‘ ماضی میں کتنی ہی ایسی قومیں آئیں‘ جو مادّی قوت کی حامل تھیں‘ لیکن آج ان کے کھنڈرات ان کی مادّی قوت کی ناپائیداری کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔آیت نمبر17سے نماز کے اوقاتِ خمسہ کی طرف اشارہ فرمایا ''پس شام کے وقت اللہ کی تسبیح کرو اور جب تم صبح کو اٹھو اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں ۔آسمانوں اور زمینوں میں اور پچھلے پہر اور دوپہر کو ‘‘ صبح اور شام میں مغرب‘ عشا اور فجر کی نمازیں آتی ہیں‘ پچھلے پہر میں عصر کی نماز اور دوپہر میں ظہر کی نماز۔ آیت نمبر21سے بتایا کہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے انسان کیلئے اسی کی جنس میں سے جوڑے بنائے ‘تاکہ ان سے سکون حاصل کریں اور زوجین کے درمیان محبت اور ہمدردی کا رشتہ قائم کیااور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے زمین وآسمان کی تخلیق اور انسانوں کی بولیوں اور رنگوں کا تنوع ہے اور نیند کیلئے رات اور تلاش معاش کیلئے دن کا بنانا ہے اور اسی طرح آگے کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی متعدد نشانیوں کا ذکر ہے ۔ آگے چل کر فرمایا کہ آپ باطل ادیان سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو دین ِ فطرت پر قائم رکھیں۔ آیت نمبر33سے انسان کی فطری خود غرضی کو بیان کیا کہ تکلیف کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں ‘ لیکن راحت کے وقت اسے بھول جاتے ہیں ‘بلکہ شرک کرنے لگتے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجاتے ہیں۔ آیت نمبر38میں قرابت داروں ‘ مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دینے کا حکم فرمایا ۔آیت نمبر41میں فرمایا کہ بروبحر میں فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے بھڑادینا بھی ایک صورتِ عذاب ہے۔
سورہ لقمان
آیت نمبر12سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی اور حکم دیا کہ اللہ کا شکر ادا کرواور جو اللہ کا شکر ادا کرتاہے ‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتاہے اور جو ناشکری کرتاہے تو اللہ بے نیاز ہے اور تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کیں‘ وہ یہ ہیں:(1) شرک سے اجتناب(2)اللہ اور ماں باپ کا شکر گزار ہونا(3)والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا ‘ اس مقام پر قرآن نے اولاد کیلئے ماں کی مشقتوں کا بھی ذکر کیا(4)اگر خدانخواستہ کسی کے ماں باپ مشرک ہوں‘ تو ان کے دباؤ پر شرک میں مبتلا نہ ہونا ‘ لیکن اس کے باوجود دنیوی امور میں ماں باپ کے ساتھ بدستور نیک برتاؤ کرنا (5)پابندی سے نماز قائم کرنا (6)نیکی کاحکم دینا اور برائی سے روکنا(7)لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آنا (8)زمین میں اکڑ کر نہیں‘ بلکہ عاجزی سے چلنا(9)چال اور گفتار میں تواضع اختیار کرناوغیرہ ۔ حضرت لقمان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں‘ لیکن زیادہ واضح قول یہ ہے کہ وہ ایک حکیم اور دانا شخص تھے ‘ اللہ نے انہیں فکرِ سلیم عطا کی تھی۔ اگلی آیت میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت‘ تسخیر کائنات ‘ تسخیر شمس وقمر ‘ نظامِ لیل ونہار اور دیگر بے پایاں نعمتوں کا ذکر ہے۔ آیت نمبر27میں فرمایا کہ اگر زمین کے سارے درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر روشنائی اور اس میں سات سمندر کا اضافہ ہوجائے (اور یہ اللہ کے کلمات کو لکھنے لگیں) تو قلمیں ختم ہوجائیں گی ‘ سمندر خشک ہوجائیں گے ‘ لیکن اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے ۔ 
سورۃ السجدہ
آیت نمبر15میں فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان وہ لوگ لاتے ہیں کہ جب ان آیات کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں ‘ تکبر نہیں کرتے‘ ان کے پہلو (عبادت الٰہی میں مشغولیت کی وجہ سے ) بستروں سے دور رہتے ہیں ‘ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کا یقین رکھتے ہوئے اسے پکارتے ہیں ۔ مزید فرمایا کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے ‘ باعمل مومنین کیلئے جنت کی صورت میں اللہ نے مہمانی تیار کررکھی ہے‘ جبکہ فاسقوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ جب بھی جہنم سے نکلنا چاہیں گے انہیں واپس اسی آگ میں لوٹا دیاجائے گا۔ آیت24میں فرمایا: ''جن لوگوں نے صبروتحمل کو اپنا وتیرہ بنالیا‘ توہم نے اُنہیں لوگوں کے منصب ِ امامت پر فائز کردیا‘‘۔
سورۃالاحزاب
رسول کریم ﷺ کے عہد کی تمام باطل قوتیں مجتمع ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں۔ ''حزب‘‘ جماعت کو کہتے ہیں اور ''احزاب‘‘ کے معنی ہیں جماعتیں ‘ یعنی عہد رسالت میں مسلمانوں کے خلاف کفار اور مشرکین اور منافقین کی یہ اجتماعی یلغار تھی‘ جسے بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید ونصرت سے ناکام ونامراد فرمایااور یہی واقعہ اس سورت کا مرکزی موضوع ہے۔آیت نمبر4 میں فرمایا کہ اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ‘ یعنی کفر اور ایمان ‘ ہدایت اور گمراہی اور حق وباطل ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے‘ اسی آیت میں فرمایا کہ کسی کے منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹوں کے حکم میں نہیں ‘ یہ لوگوں کی خود ساختہ باتیں ہیں ‘ مزید فرمایا کہ لوگوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کرکے پکارو ‘ اللہ کے نزدیک یہی بات مبنی برانصاف ہے اور اگر ان کے حقیقی باپوں کا پتا نہ چلے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔
آیت نمبر6میں فرمایا کہ نبی مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں( اور بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نبی مومنوں کی جانوں کے مالک ہیں)اور نبی کی بیویاں مومنوں کی روحانی مائیں ہیں ۔ آیت نمبر8سے بیان کیا کہ غزوۂ احزاب (اسے غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں) کے موقع پر کفار ہر جانب سے جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے (شدتِ خوف سے) مسلمانوں کی آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اوردلوں میں اللہ (کی نصرت کے بارے میں) طرح طرح کے گمان پیدا ہونے لگے۔ اس موقع پر اہلِ ایمان کی آزمائش کی گئی اور انہیں شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا ‘ یہاں تک کہ منافق اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری تھی‘ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کر رکھا تھا ‘ وہ محض دھوکہ تھا‘ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے مومنو! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسے (غیبی) لشکر بھیجے ‘ جنہیں تم نے دیکھا نہیں اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے ۔ غزوۂ خندق کے موقع پر کفار ایک ماہ تک مسلمانوں کا محاصرہ کئے رہے ‘ ایک موقع پر مسلمانوں کی تین نمازیں(ظہر ‘ عصر ‘ مغرب) بھی قضا ہوئیں‘ بالآخر طوفانی آندھی آئی ‘ ان کے خیمے اکھڑ گئے ‘ ان کی دیگیں الٹ گئیں ‘ ان کے جانور رسیاں تڑا کر بھاگنے لگے اور ایسے عالم میں کہ بظاہر انہیں اپنی کامیابی کا یقین تھا ‘ انہیں ناکام اور نامراد ہوکر واپس جانا پڑا؛اسی کو نصرتِ الٰہی کہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved