بڑا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ نئے منتخب وزیراعظم نے ابھی ذمہ داریاں سنبھالی بھی نہیں کہ ان کی انتخابی مہم کے سب سے بڑے نعرے ’’ڈرون حملے روک دیں گے‘‘ پر‘ امریکہ نے کاری ضرب لگا دی۔ خبروں میں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے دوسرے بڑے لیڈر ولی الرحمن ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ طالبان کی طرف سے بھی واضح تصدیقی بیان نہیں آیا۔ احسان اللہ احسان نے نہ تو خبر کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ موجودہ حالات میں ایسے ذرائع بھی موجود نہیں‘ جن سے ہلاکت کی تصدیق ہو سکے۔ طالبان کے اس گروپ میں طویل عرصے کے بعد ایک صفِ اوّل کا لیڈر نشانہ بنا ہے۔ اس سے پہلے بیت اللہ محسود ڈرون حملے سے ہلاک ہوا تھا۔ یہ خبر ضرور آ گئی ہے کہ مبینہ طور پر ہلاک شدہ ولی الرحمن کی جگہ سیدعرف سجنا کو طالبان کا نائب امیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے گزشتہ سال اپریل میں بنوں جیل پر حملہ کر کے400قیدیوں کو فرار کرایا تھا۔ ولی الرحمن اپنی تحریک کے امیرحکیم اللہ محسود کے مقابلے میں کم انتہاپسند تھے اور اپنے گروہ کی اندرونی کشمکش میں‘ عام شہریوں پر حملے کرنے کے خلاف تھے اور صرف ٹارگٹڈ آپریشن پر زوردیتے تھے۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو امریکہ نے اسے نشانہ بنا کرپاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ ولی الرحمن کی جگہ جو شخص لایا گیا ہے‘ وہ انتہاپسندی میں حکیم اللہ محسود کا پیروکار ہے۔ جو لوگ نئے ڈرون حملے پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ صدر اوباما نے ڈرون حملوں کے لئے کچھ شرائط کا اعلان کیا تھا‘ جس سے پاکستان کے خوش فہم میڈیا نے یہ تاثر لیا کہ ڈرون حملوں میں کمی یا ان کے خاتمے کا سگنل دیا گیا ہے۔ اگر آپ اس روز کی خبریں دیکھیں تو یہی تاثر دیا گیا تھا۔ لیکن روزنامہ ’’دنیا‘‘ کی سرخی واضح تھی کہ ’’امریکہ نے ڈرون حملے جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔‘‘ یہ خبر درست ثابت ہوئی۔ اس حملے کی ٹائمنگ اہمیت کی حامل ہے۔ گزشتہ تین مہینوں سے ڈرون حملوں کا سلسلہ بند تھا۔ 23مارچ کو صدر اوباما نے ڈرون حملوں کے متعلق اپنی پالیسی میں بعض بنیادی تبدیلیوں کا اعلان کیا۔ ان میں اہم ترین یہ تھی کہ جن ملکوں میں یہ حملے کئے جائیں گے‘ ان میں طویل مدتی پالیسیوں کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس وقت تین ملکوں میں ڈرون حملے ہوتے ہیں… صومالیہ‘ یمن اور پاکستان۔ صدر اوباما نے کہا تھا کہ ڈرون حملوں کا فیصلہ کرتے وقت‘ اس امر کا خیال رکھا جائے گا کہ متعلقہ ملکوں کی حکومتوں کی پوزیشن خراب نہ ہو۔ پاکستان میں ڈرون مسئلہ‘ اس وجہ سے زیادہ حساس ہے کہ ابھی ایک نئی حکومت قائم ہونے والی ہے۔ پہلے دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نوازشریف 5مئی کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وہ فیصلہ کن اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ دائیں بازو کی طرف نوازشریف سے زیادہ جھکائو رکھنے والے عمران خان کی تحریک انصاف‘ دوسرے نمبر پر ووٹ لے کر آئی ہے اور وہ خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ فاٹا کا علاقہ اسی صوبے سے ملحق ہے۔ ان قبائلی علاقوں میں ہی دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں‘ جہاں ڈرون حملے کئے جاتے ہیں۔ نوازشریف اور عمران خان‘ دونوں نے ہی اپنی اپنی انتخابی مہم میں ڈرون حملے رکوانے کے وعدے کئے ہیں۔ تحریک طالبان کی جانب سے‘ ان دونوں جماعتوں کی کامیابی کا خیرمقدم مذاکرات کی پیش کش سے کیا گیا۔ نوازشریف نے اس کا فوراً نوٹس لیتے ہوئے‘ مذاکرات کی کوششیں شروع کر دیں اور مولانا سمیع الحق کو ابتدائی رابطوں کے لئے نامزد کیا۔ عمران خان جو کہ براہ راست دفاعی اور خارجہ امور کے ذمہ دار نہیں‘ انہوں نے حکومت بننے سے پہلے ہی‘چوکا جڑتے ہوئے کہا کہ ’’نوازشریف ڈرون حملے بند کرائیں یا گرانے کا حکم جاری کریں۔‘‘ ظاہر ہے یہ سیاسی محاذ آرائی کا حصہ ہے۔ امورمملکت کا تجربہ رکھنے والے ‘ اقتدار کے ڈھانچے میں آنے کے بعد احتیاط سے کام لیا کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے اپوزیشن کا لہجہ اور انداز برقرار رکھتے ہوئے‘ یہ غیرمعمولی مطالبہ کر کے‘ پاکستان کو آزمائش میں ڈال دیا ۔ نوازشریف اس حساس معاملے پر نہ تو عوامی دبائو کا سامنا کر سکتے ہیں اور نہ ہی امریکہ سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ ادھر سے مذاکرات کی فضا ہموار کرنے پر مامور‘ مولانا سمیع الحق نے اچانک طالبان کی ترجمانی کرتے ہوئے‘ حکومت سے مطالبہ کر دیا کہ وہ ولی الرحمن کی ہلاکت پر طالبان سے اظہار تعزیت کرے۔ مولانا کی طرف سے یہ بیان‘ ان کی مذاکراتی ذمہ داریوں سے تجاوز کے مترادف ہے۔ دو فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے ذمہ دار حضرات کا کردار ثالثی کا ہو جاتا ہے اور کسی ثالث کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک فریق کی طرف جھکائو ظاہر کرے۔ مولانا کا یہ بیان طالبان کی طرف جھکائو کا واضح اظہار ہے۔ انہوں نے طالبان کا نشانہ بننے والے معصوم پاکستانیوں اور وطن کے دفاع کی جنگ لڑنے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادتوںپہ طالبان سے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ ان کے پسماندگان سے تعزیت کریں یا اپنے اقدام پر افسوس کا اظہار کریں۔ لیکن پاکستان کے باغیوں‘ فوج اور عوام کا خون بہانے والوں پر حملے کی بات آئی تو انہیں یاد آ گیا کہ حکومت پاکستان کو اس پر تعزیت کرنا چاہیے۔ اس بیان سے مولانا نے اپنی ثالثی کی حیثیت کو متاثر کر لیا ہے۔ انہیں یا تو اپنے مطالبے کو دوطرفہ کرتے ہوئے‘ طالبان سے بھی کہنا چاہیے کہ وہ شہید ہونے والے شہری اور فوجی پاکستانیوں کے پسماندگان سے بھی اظہار تعزیت کریں یا اپنے پہلے مطالبے کو واپس لیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پاکستانی میڈیا اور سٹریٹیجک ماہرین نے ‘ اوباما کے پالیسی بیان پر پوری توجہ نہیں دی تھی۔ اسے غور سے پڑھا جائے تو اوباما نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ وہ القاعدہ یااس کی پالیسیوں کے تحت دہشت گردی کرنے والوں کو امریکہ کا دشمن سمجھتے ہیں اورانہیں ڈرون حملوں کے نشانے پر رکھنے کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے۔ تازہ حملہ اس پالیسی کے عین مطابق ہوا۔ تحریک طالبان پاکستان کے رابطے القاعدہ سے ہیںاور وہ اسی کی بنائی ہوئی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے۔ ہم امریکی پالیسی پر تنقید کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اوباما نے اپنے اعلان کی خلاف ورزی کی ہے۔ 29مئی کا ڈرون حملہ ‘ نوازشریف کے لئے بہرحال مشکلات کا باعث بنے گا۔ داخلی طور پر بھی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں بھی۔ یہ بات امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ سے قائم ہونے والی حکومت کو مشکل میں ڈالے۔ اس کی اپنی ضرورت یہ ہے کہ افغانستان سے واپسی کے دوران‘ اسلام آباد کی مستحکم حکومت اس کی مدد گار ہو۔ یہ بھی اس کے مفاد میں نہیں کہ ڈرون حملوں کو جاری رکھ کر‘ طالبان لیڈروں کو نشانہ بناتا رہے اور پاکستانی حکومت انخلا کے دورمیں ‘ امریکہ کی مدد کرنے سے قاصر ہو جائے۔کیا پاکستان کے تعاون پر بڑے دہشت گرد لیڈروں کو نشانہ بنانے کی ترجیح ‘امریکہ کے لئے زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے؟ خصوصاً وہ لیڈر‘ جو القاعدہ سے تعلق رکھتے ہوں؟ امریکہ کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ ڈرون کے مس گائیڈڈ میزائلوں کا خطرہ مول لے کر ‘ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا ڈرون حملوں کے غلط نشانوں سے کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ بات امریکہ پہ واضح نہیں کہ ولی الرحمن ہلاک ہو گیا ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ نئی حکومت کے لئے اس ایک حملے سے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور پاکستان میں ایک ایسی بحث شروع ہو چکی ہے جس میں طوالت کا نقصان خود امریکہ کو اٹھانا پڑے گا۔ آخر میں سینیٹر طارق عظیم کا ایک خط پیش کر رہا ہوں جو انہوں نے 28 مئی کے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ محترم نذیر ناجی صاحب! السلام علیکم…آپ کا 28 مئی 2013ء کا کالم پڑھا۔ آپ نے لکھا ہے کہ عوام (حالیہ انتخابات میں) اپنا فیصلہ دے چکے مگر وہ فیصلہ تھا کیا اور کہاں گیا؟ ناجی صاحب…انتخابات کا فیصلہ نتائج کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ عوام کا یہی فیصلہ تھا جو انہوں نے ووٹ کے ذریعے کیا۔ اسی لیے تمام سیاسی جماعتوں نے چھوٹی چھوٹی شکایات کے باوجود اسے تسلیم کیا ہے۔ آپ نے مزید لکھا ہے ’’ حالیہ انتخابات میں اس سے کہیں زیادہ دھاندلی کی گئی ہے جس کا 1977ء میں الزام لگایا گیا تھا‘‘۔ میں گڑے مردے نہیں اکھاڑنا چاہتا لیکن ریکارڈ کی درستگی کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ 1977ء میں دھاندلی کاصرف الزام نہیں تھا‘ دھاندلی اس ڈھٹائی کے ساتھ کی گئی تھی کہ پوری قوم سڑکوں پر آگئی تھی اور صرف چند دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جن کا اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا تھا‘ پولنگ سٹیشنوں پر اُلو بول رہے تھے۔ اس دھاندلی کے خلاف عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے منتخب سول حکومت کے دعویداروں کو ملک کے پانچ شہروں میں مارشل لاء لگانا پڑا تھا۔ اس احتجاج میں درجنوں شہری ہلاک کیے گئے تھے۔ لیکن شہریوں نے ان انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ انتخابی دھاندلی کو ذوالفقار علی بھٹونے خود بھی تسلیم کیا تھا۔ جبکہ موجودہ انتخابات کے خلاف احتجاج کا یہ عالم ہے کہ اعلیٰ طبقے کی چند خواتین اور نوجوانوں نے گوچی کی عینکیں ، بیلکن کے بیگ لے کر اور برگر اور پیپسی کی بوتلیں پکڑ کر احتجاج کے نام پر ایک ایسا ناٹک کیا جسکی کوئی عوامی پذیرائی نہیں ہے۔ ناجی صاحب !آپ جیسے صاحب قلم کو درست حقائق قوم کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ خدارا! جوش تحریر میں موجودہ انتخابات کو 1977ء کے انتخابات سے نہ ملائیے۔ ان انتخابات پر عوام ہر جگہ خوشیاں منا رہے ہیں اور انتخابات کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ان انتخابات کے خلاف احتجاج میں عوام کی کوئی شرکت نہیں ہے۔ دعا گو سینیٹر طارق عظیم میں اپنے اور طارق عظیم صاحب کے موقف کو تاریخ کے سپرد کرتا ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved