انسانی تاریخ میں جس قدرخون رنگ، نسل، زبان اور زمین کے تعصب کی بنیاد پر بہا یا گیا ہے اس کی مثال کسی اور نفرت کے جذبے میں نہیں ملتی۔ رنگ ،نسل اور زبان تو ایسے تعصبات ہیں جو انسان اپنے وجود کے حصے کے طور پر ساتھ لیے پھرتا ہے لیکن جس تعصب کی گواہی ایک بدترین مادی اور کاروباری تعلق کے طور پر تاریخ میں ملتی ہے وہ وطن ہے۔ زمین، مادرِ وطن، دھرتی ماتا، ہوم لینڈ اور اس جیسے دوسرے تصورات موجودہ دور کی تخلیق ہیں۔ یہ دنیا کبھی تمام انسانوں کا مشترکہ گھر ہوتی تھی۔ جس کا جو جی چاہتا، جس طرف اس کو رزق، سکون اور امن میسر آتا، کوچ کر جاتا۔ نہ قومی ریاستیں تھیں اور نہ ہی ان پر قابض افراد اور گروہ جو اس زمین کے ایک ایک انچ کا تحفظ ہزاروں جانوں کے نذرانے سے کیا کرتے ہیں۔ قومی ریاستوں کا وجود گذشتہ صدی بلکہ صرف ایک سوسال پہلے کی بات ہے۔ پوری دنیا جسے اللہ اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے اسے ’’الارض للہ‘‘ یعنی زمین اللہ کی ہے۔ فرماتا ہے‘ انسان نے اس کے وجود پر لکیریں کھینچ کر ، ٹکڑوں میں تقسیم کر کے انسانوں کی ملکیت قرار دیا اور پھر کہا یہ تمہارا وطن ہے، دھرتی ماں ہے، اس کے ایک ایک کونے کا تحفظ تمہاری ذمہ داری ہے‘ اس سے غداری سب سے بڑا طعنہ قرار دیا گیا اور زمین یا مادرِ وطن سے غداری کو دنیا کے ہر خطے میں موت کا سزاوار قرار دیا گیا۔ قومی ترانے لکھے گئے۔ مضبوط افواج ترتیب دی گئیں جو زمینی ،فضائی اور سمندری حدود کی حفاظت کریں۔ زمین کو ماں کا درجہ دیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس سے مضبوط رشتہ دنیا میں وجود ہی نہیں رکھتا۔ لیکن تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو آپ حیران اور ششدر رہ جاتے ہیں کہ دھرتی ماں یا مادرِ وطن سے کمزور اور بودا رشتہ شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔ انسانی تہذیب کے ارتقا پر تحقیق کرنے والے ماہرین بہت حیران کن انکشافات کرتے ہیں۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے تک انسانوں کے پتھرائے ہوئے ڈھانچوں (Fossils)، اوزاروں، طرز رہائش اور دیگر شواہد سے انسان کے ارتقائی سفر تک پہنچا جاتا تھا۔ ڈارون بیچارہ پوری دنیا کا سفر کرتا رہا اور ایسے ثبوت اکٹھے کرتا رہا‘ پھر ان سب کو جوڑ کر بندر سے انسان تک مختلف مدارج کی ایک کہانی بنا ڈالی۔ جب اس کی کتاب(Origin of Species) آئی تو مذہب سے متنفر سیکو لر لوگ بہت اچھلے اور سائنس کے علم کو الہامی علم سے غالب قرار دے دیا گیا۔ لیکن جب سے ان انسانی ڈھانچوں میں موجود ڈی این اے کو ٹیسٹ کر کے انسانوں پر تحقیق کا آغاز ہوا تو سائنس دان اس بات پر متفق ہوگئے کہ انسان کا سب سے پہلا وجود افریقہ کے وسط میں پایا گیا اور یہیں سے انسان پوری دنیا میں پھیلے۔ لیکن جو مقام حیرت ہے وہ یہ کہ تمام انسان ایک عورت اور ایک مرد کی اولاد ہیں جو ایک لاکھ پچاس ہزار سال قبل افریقہ میں تھے۔2001ء میں ڈی این اے کے ماہرین کی ٹیم‘ جس کا سربراہ بہت بڑا ماہر انسانی جینیات ونسنٹ میکالے(Vincent Macaulay) تھا، اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام انسان ایک مرد اور ایک عورت کی اولاد ہیں جنہیں وہ جینیات کی زبان میں Mitochondria EVE اورY-chromosome Adam کہتا ہے۔ ان دونوں کی اولاد کئی ہزار سال تک افریقہ میں آباد رہی۔ یہ اس نسل کی مادرِ وطن اور دھرتی ماں تھی۔ انسان نے سب سے پہلے اس دھرتی ماں کو ایک لاکھ بیس ہزار سال پہلے چھوڑا۔ جب خشک سالی اور قحط نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو جس زمین کے ترانے ہمارے شاعر گاتے ہیں اور جس ماں پر مرنے کے لیے افواج کو تیار کیا جاتا ہے، انسان نے اس پر لعنت بھیجی۔ اپنے بچوں، ڈھور ڈنگروں حتیٰ کہ چھوٹے موٹے ہتھیاروں کو اٹھایا اور کسی اور زمین، کسی اور دھرتی ماں پر جا کر آباد ہو گیا۔ اور یہ سرزمین نیل اور دوسرے دریائوں کے قریب اور بحیرۂ قلزم کے ساحل تھے جہاں شام اور لبنان وغیرہ واقع ہیں۔ تنزانیہ کے قریب لائی ٹولی(Laetoli) میں آتش فشاں کے خشک لاوے نے انسانی ہجرت کے پائوں کے نشان محفوظ کر لیے تھے جو1978ء میں دریافت ہوئے۔ حبشہ ، شام، لبنان اور دیگر افریقی علاقوں کو ماہرین آثارِ قدیمہ ’’لیونٹ (Levant) کا علاقہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی 60ہزار سال تک یہ علاقہ انسان کی مادرِ وطن کے طور پر پہچانا جاتا رہا۔ پھر جب اس ماں نے جانوروں کے لیے گھاس اگانی اور انسان کے لیے پانی دینا ختم کر دیا‘ وہاں کے سوتے خشک ہوگئے تو انسان نے اس ماں کو بھی خیر آباد کہہ دیا اور جزیرہ نمائے عرب کے اردگرد سمندر کے ساتھ ساتھ آباد ہوگیا۔ یہیں مدینہ، مکہ، عادوثمود اور دوسرے انسانوں کی بستیاں ملتی ہیں۔ یہیں پر انسان نے ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ دھرتی ماں تھوڑی خوراک کم کردے تو انسان اس سے محبت کا دم بھرنا چھوڑ دیتا ہے اور سرسبز و شاداب میدانوں، جھرنوں، چشموں اور دریائوں والی نئی ماں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ پچاس ہزار سال قبل یہ سمندر کے ساتھ سفر کرتا ہوا ایران،پھر بھارت میں دکن اور گھومتا ہوا آسٹر یلیا اور نیوزی لینڈ جا کر آباد ہو گیا۔ بہت سے ایسے تھے جنہوں نے ماں کو چھوڑ کر ایشیا ئے کو چک اور چین کا رخ کیا۔تقریباً45 ہزارسال قبل سپین اور اٹلی کے راستے یورپ کی سر زمین کو اپنا وطن بنایا اور اُس کی محبت کے گیت گانے لگا۔ امریکہ کے ساحلوں پر یہ ا نسان کوئی پندرہ ہزار سال قبل پہنچا اور الی نائے(ILINOIS) یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق خواتین کے ڈی این اے جسے(HT DNA) کہتے ہیں ثابت کیا ہے کہ امریکہ کے یہ افراد اسی افریقی مرد اور عورت کی اولادیں ہیں۔ کہا جاتا ہے‘ بلکہ اب تو سائنس کی تحقیق اس بات پر متفق ہے‘ کہ ہزاروں سال کے موسمی تغیرات اور حالات نے انسانوں کے رنگ اور نسلی ڈی این اے میں تبدیلی تو کردی لیکن اُس کا خمیر ایک ہی رہا۔ اس نے اپنے حساب سے زبان تو اپنی بنالی اور ایک علاقے پر قابض ہو کر اسے اپنا وطن قرار دے دیا لیکن یہ سب ایک آدم اور حوّا کی اولاد تھے۔ موجودہ تاریخ میں بھی اس مادرِ وطن کے تصور کی نفی انسان نے عملی طور پر کی۔ آ ریا اقوام نے جب اپنا وطن چھوڑا تو وہاں بھوک اورننگ کے سوا کچھ نہ ملتا تھا اور آج وہ آدھی دنیا کو اپنا وطن بنائے بیٹھے ہیں۔ سامی نسل(Semites)بھی یہی کوئی ایک ڈیڑھ ہزار سال پہلے دنیا میں نکلی اور ہرسر زمین کو ماں قراردے کر اُسے وطن بنا لیا اور اس کے بعد انسان اس زمین پر اپنی ہی کھینچی گئی لکیروں پر کروڑوں لوگوں کو قتل کرتا رہا۔ دنیا کے مذاہب کے درمیان ہونے والی تمام لڑائیوں میں مارے جانے والے افراد کی تعداد اگر جمع کی جائے تو وہ جنگ عظیم اوّل میں مارے جانے والے افراد کے برابر نہیں بنتی۔ یہ جنگ خالصتاً رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر لڑی گئی تھی اور اس کے بعد انہی تعصبات کی بنیاد پر جنگ عظیم دوم میں کروڑ قتل ہوئے‘ پھر ویت نام سے جنوبی امریکہ اور آج تک لڑی جانے والی جنگوں کی خونریزی ہے۔ یہ ہیں انسان کے وہ تعصبات جو اس نے اس انتہائی بودے نظریے کی بنیاد پر قائم کیے اور ایک دوسرے کا خون بہایا۔ اسی لیے میرے اللہ نے جب بھی مخاطب کیا ’یاایھاالناس‘ (اے انسانو) اے ایمان والو، اے مسلمان اور پھرامت کے الفاظ استعمال کیے۔ نہ کسی علاقے کا ذکر کیا اور نہ کسی ملک کا۔ ہم وہ بدقسمت ہیں کہ زمین کے ٹکڑے کو ماں کہتے ہیں، اس کے لیے کروڑوں اولادوں کی قربانی دیتے ہیں اور پھر اسی ماں کو اجڑتا دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved