''میرے صدر بننے سے پہلے ہی انہوں نے میرے خلاف سازشیں شروع کردی تھیں، ان سب کو جیل میں ہونا چاہئے، کم سے کم پچاس سال کے لیے، اب بھی یہ جیل جائیں گے، بچ نہیں سکیں گے، انہوں نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی فراڈ کیا‘‘ یہ جملے کسی تھرڈورلڈ ملک کے سربراہ کے نہیں جہاں سیاست الزام تراشی کا نام ہے، بلکہ یہ جملے اس دور کی واحد سپر پاور کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہیں۔ اس بیان نے امریکی سیاست کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ سیاسی ماہرین اس بیان کو تھرڈ ورلڈ کی سیاست کے طورپر ہی دیکھ رہے ہیں۔
امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کا یہ آخری سال ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے بھی امریکا کی عظمت رفتہ کی بحالی کے کوئی آثار نہیں تھے، کورونا وائرس کی وبا کے بعد تو عظیم معاشی بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ اب امریکی صدر کی ترجیح زندگیاں بچانا نہیں بلکہ سیاست اور کاروبار بچانا ہے، جس کے لیے وہ سابق صدر بارک اوباما اور سابق نائب صدر جو بائیڈن پر الزامات کی بھرمار کے ساتھ وبا پر قابو سے پہلے ہی ملک کو کھولنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ بیروزگاری کے شکنجے میں آئے امریکی بھی اب لاک ڈاؤن سے پریشان ہیں اور امریکی صدر ان بیروزگار امریکیوں کے ووٹ پکے کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کو ڈیموکریٹ پارٹی کے خلاف استعمال کر رہے ہیں جیسا کہ ہمارے ہاں کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کرایا۔
امریکی صدر نے اس مدرزڈے کے موقع پر ایک ہی دن میں ٹویٹر پیغامات کا اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیااور اوباما گیٹ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اوباما اور جو بائیڈن پر الزامات کی بھرمار کر دی۔ اوباما گیٹ سے عام قاری کو کیا دلچسپی ہوگی؟ اس کا اندازہ اوباما گیٹ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ اوباما گیٹ دراصل سیاسی الزام تراشی کی بالکل وہی کہانی ہے جو ہمارے جیسے ملکوں میں عام ہے اور احساس کمتری کے مارے معاشرے میں ہم امریکا اور یورپ کی مثالیں بیان کرتے نہیں تھکتے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ملک کی اور اپنی ہر پریشانی اور مسئلے کی وجہ اوباما کے جرائم کو بتاتے ہیں۔ اب اوباما کے مبینہ جرائم کو باقاعدہ اوباما گیٹ کا نام بھی دے دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر اوباما نے اپنی مدت صدارت کے آخری دنوں میں ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل مائیکل فلن کو ٹریپ کرنے کی سازش کی‘ اصل مقصد ٹرمپ کی صدارت کو خطرے میں ڈالنا تھا۔ اس سازشی تھیوری میں جان پچھلے ہفتے دوبارہ اس وقت پڑی جب امریکی محکمہ انصاف نے مائیکل فلن کے خلاف سابق روسی سفیر کے ساتھ گٹھ جوڑ کے الزامات پر مقدمہ چلانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ایف بی آئی 2016ء میں مائیکل فلن اور روسی سفیر کی گفتگو کی تحقیقات کی مجاز نہ تھی۔ مائیکل فلن اور روس کے سابق سفیر کے درمیان ہونے والی گفتگو ہی امریکی الیکشن میں روس کی مداخلت کے مقدمہ کی بنیاد بنی تھی‘ صدر ٹرمپ کو تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور معاملہ مواخذے کی حد تک چلا گیا تھا۔ امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے مائیکل فلن پر مقدمہ نہ چلانے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ صدر اوباما نے ان پر مقدمہ چلانے پر مشاورت کی تھی۔ اوباما دور میں مائیکل فلن پر مقدمہ چلانے کی بات نے صدر ٹرمپ کو سازشی تھیوری کے سچے ہونے کا یقین دلا دیا۔ مائیکل فلن اوباما دور میں ڈیموکریٹ پارٹی سے وابستہ تھے لیکن پھر وفاداری ٹرمپ کے ساتھ استوار کر لی تھی۔
صدر ٹرمپ سے پریس بریفنگ میں سوال کیا گیا کہ اوباما گیٹ کیا ہے؟ تو انہوں نے کوئی واضح بات کرنے کی بجائے یہ کہا کہ کچھ خوفناک باتیں ہوئی تھیں اور ہمارے ملک میں یہ دوبارہ نہیں ہونا چاہئے۔ٹرمپ نے آئندہ چند ہفتوں میں مزید انکشافات کا اشارہ دیا۔ ٹرمپ الیکشن میں اپنے حریف جو بائیڈن کو اگلے چند ہفتوں میں کسی مقدمے میں ملوث کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
اوباما گیٹ دراصل ایک پرانی کہانی ہے، مارچ دو ہزار سترہ میں ٹرمپ نے الزام لگایا تھا کہ صدر اوباما نے 2016ء کی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ ٹاور میں ان کے انتخابی دفتر کے فون غیرقانونی طور پر ٹیپ کئے۔ یہ ویسا ہی الزام ہے جیسے صدرنکسن کے دور میں مخالفین کے فون ٹیپ کرنے کا مقدمہ بنا تھااور واٹرگیٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ اوباما گیٹ میں مرکزی الزام یہ ہے کہ صدراوباما نے مائیکل فلن کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا اور ایف بی آئی کے پاس ان تحقیقات کا کوئی جوازنہ تھا۔ مائیکل فلن کے خلاف دوبار تحقیقات ہوئیں، پہلے 2016ء اورپھر 2017ء میں، پہلی تحقیقات ٹرمپ کی الیکشن مہم کا روس کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا، جبکہ دوسری تحقیقات روس کے سفیر کے ساتھ مائیکل فلن کی کئی بار ہونے والی گفتگو تھی‘ جس میں مائیکل فلن نے روس کے سفیر سے کہا تھا کہ وہ اوباما انتظامیہ کی طرف سے پابندیوں کا جواب نہ دیں کیونکہ ٹرمپ صدربن کر ان پابندیوں کونرم کر دیں گے۔
صدر اوباما نے اپنی صدارتی مدت کے اختتام سے پندرہ دن پہلے اوول آفس میں ایک میٹنگ کی، یہ میٹنگ ایف بی آئی کی طرف سے مائیکل فلن کے خلاف تحقیقات بندکرنے کے فیصلے کے ایک دن بعد 5جنوری 2017ء کو ہوئی۔ اس میٹنگ میں اعلیٰ انٹیلی جنس عہدیداروں نے اوباما کو ٹرمپ الیکشن مہم اورروس کے گٹھ جوڑ پر بریفنگ دی۔ میٹنگ کے بعد اوبامانے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر اورڈپٹی اٹارنی جنرل کورکنے کا کہا، بعد میں نائب صدر جو بائیڈن اور قومی سلامتی مشیر سوسن رائس ان کے ساتھ شریک گفتگو ہو گئیں۔ اس موقع پر اوباما نے مائیکل فلن اورروس کے درمیان رابطوں کا بتایا اورپوچھا کہ کیا اب مائیکل فلن کے ساتھ رویئے میں تبدیلی لائی جانی چاہئے؟ اوباما نے اس میٹنگ میں کہاکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کواپنے قوانین کے مطابق کارروائی کرنی چاہئے۔ مائیکل فلن اور روسی سفیر کی فون پر گفتگو معمول کی انٹیلی جنس کارروائی میں پکڑی گئی تھی۔ امریکی انٹیلی جنس روسی سفیر کا فون ٹیپ کررہی تھی جس میں مائیکل فلن کے رابطے بھی پکڑے گئے لیکن صدرٹرمپ اسے اپنے ساتھیوں کی جاسوسی قرار دے رہے ہیں۔
امریکی صدرکورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر شدید تنقید اور دباؤ کا شکار ہیں۔ امریکی معیشت کے حوالے سے ان کے دعوے پہلے ہی پورے نہیں ہو سکے تھے اور اب کورونا وائرس کی وبا نے مزید تباہی پھیر دی ہے۔ امریکا کی عظمت کی بحالی کے دعویدار ٹرمپ جب اقتدار میں آئے تو امریکا کے قومی قرضوں کا حجم 20 ٹریلین ڈالر تھا اور 4 برسوں میں 4 ٹریلین ڈالر بڑھ گیا ہے۔ امریکا میں وائرس پھیلنے سے پہلے بھی بیروزگاری کی شرح کم نہیں تھی لیکن اب کروڑوں امریکی بے روزگار ہیں۔ان حالات میں صدر ٹرمپ نے تھرڈ ورلڈ کی پولیٹیکل پلے بک سے استفادہ کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام کے روزگار پر کوئی جواب ہے نہ تباہ حال امریکی معیشت پر، اب ان کا سارا زور اپنے پیشرو کے جرائم پر ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر بھی صدر ٹرمپ نے ناکامی کا الزام اوباما پر دھرا اور کہا کہ ان کے دور میں ایسی کسی وبائی صورتحال سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی تھی۔ امریکی میڈیا اوباما دور کی پالیسی پربہت کچھ شائع کرچکا ہے۔ وائرس پر ریسرچ کے لیے دنیا بھر میں اداروں کو فنڈنگ بھی اوباما دور میں شروع ہوئی جو ٹرمپ نے آکر بند کردی تھی، لیکن اس کا بھی سادہ حل ہے، میڈیا کو جھوٹا کہو اور بار بار کہو تاکہ عوام میڈیا پر یقین کرنا چھوڑ دیں۔
امریکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں اگر ہمارے ہاں میڈیا کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کوششوں کو دیکھا جائے تو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ اب تو نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سچ بولنے والوں کو جھوٹا کہنے کا چلن عام ہے۔ اب سیاست اور صحافت کا معیار ترقی یافتہ دنیا اور تھرڈ ورلڈ میں ایک جیسا ہے۔ اس سے ایک فائدہ توہوا‘ اب کوئی مغرب سے مرعوب ذہنیت والا ہمیں وہاں کے قصے کہانیاں تو نہیں سنائے گا۔