''دکانیں فجر کے بعد کھلیں گی اورکورونا سحری کرکے نیند پوری کرے گا‘پانچ بجے کورونا افطاری کیلئے اٹھے گا تو فوراََ دکانیں بند ہو جائیں گی۔پیر‘ منگل‘ بدھ اور جمعرات تاجر کام پر جائیں گے‘ کورونا چھٹی کرے گا۔جمعہ‘ ہفتہ اوراتوار کورونا کام پر جائے گا اورتاجر چھٹی کریں گے۔‘‘ویسے تو یہ ایک لطیفہ ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر زیرگردش ہے لیکن اگرپنجاب حکومت کی جانب سے لاک ڈائون میں نرمی کے نام پر مارکیٹیں کھلنے اور بند ہونے کے لئے جاری نوٹیفکیشن پر غور کیاجائے تو ہفتے میں چار دن کاروبار اورتین روز بندش کے نظام الاوقات کی تیاری میں بھی کچھ ایسی ہی سوچ کارفرما دکھائی دیتی ہے‘ اگر تو یہ سوچ کر چار دن کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ لوگ دفاتر میں مصروف ہوں گے اور بازاروں میں رش کم ہوگا جبکہ جمعہ‘ ہفتہ اوراتوار چھٹی کے باعث ہجوم زیادہ ہوسکتا ہے تو بھی یہ کوئی معقول دلیل نہیں کیونکہ آج کل تعلیمی ادارے اورمتعدد کاروبار بند ہیں‘ خواتین اوربچے تو پہلے سے ہی چھٹیوں پر ہیں اور لاک ڈائون نرم ہوتے ہی کاروباری مراکز میں اس قدر رش بڑھا کہ اس میں اتوار یا سوموار کی کوئی تمیز نہ رہی اورپنجاب سمیت ملک بھر میں کورونا متاثرین کی تعداد و اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو ا ہے ۔
محکمہ صحت پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق رمضان المبارک میں کورونا کے نئے کیسز و اموات میں تین گنا تک اضافہ ہوا ۔پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 36ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے‘ جبکہ لگ بھگ 800اموات سرکاری طور پر رپورٹ ہوئی ہیں۔ کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے رکن پروفیسر اسد اسلم کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی سے عید تک کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا کورونا علامات کے ساتھ گھر رہنے ‘ ٹیسٹ نہ کروانے سے اموات بڑھ رہی ہیں‘ بازار وں میں لاک ڈائون کھلنے سے لوکل ٹرانسمیشن مزید بڑھ رہی ہے جس سے کیسز اور اموات میں اضافہ ہو گا۔ادھر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں فیصلے اتفاق رائے سے ہو رہے ہیں‘ بڑی مارکیٹس کھولنے کا فیصلہ بالکل آخر میں کیا گیا تھا اوراب مالز اور فلائٹس کھولنے پر بھی بات چیت ہو رہی ہے‘ ایک دو روز میں فیصلہ ہو جائے گا‘ اگر کیسز تیزی سے بڑھنے شروع ہوگئے تو مجبوری میں ہم فیصلے پر نظر ثانی کریں گے‘ پچھلے دو روز میں جس طرح عوام گھروں سے باہر نکلے ہیں ایسا ہی معاملہ رہا حالات خراب ہوسکتے ہیں‘ ہم عوام کے اوپر لاٹھی نہیں برسا سکتے ایس او پیز پر عمل درآمد کی زیادہ ذمہ داری کاروبار چلانے والوں پر ہے۔اسدعمر صاحب کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حکومت اچھے کاموں کاکریڈٹ تو کود لیتی ہے تو پھر حالات کی خرابی کی ذمہ داری سے کیسے بری الذمہ ہوسکتی ہے‘ اگر خدانخواستہ حالات بے قابو ہوئے تو اس کے ذمہ دار بھی وہی مشیر ہونگے جو لاک ڈائون میں نرمی اورکاروبار کھولنے کیلئے بضد تھے۔ وفاقی وزیر کے مطابق کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں چین رول ماڈل ہے‘ ہمیں اپنے ملک کے نظام کو دیکھتے ہوئے آگے چلنا ہے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے وفاق اور صوبے ساتھ مل کر نہ چلیں تو کام نہیں بن سکتا‘ کورونا کے معاملے پر پاکستان میں وفاق‘ صوبے اور فوج ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ڈاکٹرز کی رائے بہت اہم ہے مگر فیصلے صرف اس بنیاد پر کرنا غلط ہو گا۔ملک بھر میں لاک ڈائون میں نرمی کا عوام بھرپور ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں جس پر سندھ حکومت نے ایس او پیز کی خلاف ورزی پر متعدد مارکیٹوں کو سیل کر دیا گیا۔سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ دکانداروں کو دو دن تک وارننگ دی تھی لیکن عمل درآمد نہ ہوا جس کے بعد کارروائی شروع کی گئی‘ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ایس او پیز کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں‘ تاجروں نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہائی کرائی تھیں جس پر مارکیٹس کھلیں عمل درآمد نہ ہوا تو کارروائی کی جائے گی۔ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں محدود فضائی آپریشن کی بحالی کابھی فیصلہ کیاہے جبکہ وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید احمد بھی کہہ چکے ہیں کہ عیدالفطر سے قبل کم ازکم دو یاتین ٹرینیں چلائی جائیں گی‘ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ طویل عرصہ تک سب کچھ بند بھی نہیں رکھاجاسکتا لیکن اس بات کی بھی کیاگارنٹی ہے کہ ٹرینوں میں مارکیٹوں جیسی صورتحال پیش نہیں آئے گی اور لوگ سماجی فاصلے سمیت تمام ایس اوپیز پر عمل کریں گے۔ عیدالفطر پر پردیسیوں نے اپنے آبائی علاقوں میں بھی جانا ہے جبکہ ہماری روایات کے مطابق تو عید کے موقع پر سماجی فاصلے کاخیال رکھنا اورلوگوں کاگھروں تک محدود رہنا ایک مشکل امر دکھائی دیتاہے اور اگر لوگوں نے ہدایات پرعمل نہ کیاتو خدانخواستہ انتہائی خطرناک صورتحال پیش آسکتی ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ عیدکے بعد حکومت کو دوبارہ سخت لاک ڈائون کی طرف جانا پڑے گا‘ لہٰذا عوام نرمی چاہتے ہیں تو ایس اوپیز پر عمل کریں ‘ خصوصاََ بازاروں میں سماجی فاصلے کا خیال رکھاجائے۔
حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بڑاقدم اٹھاتے ہوئے کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی میتیں وطن لانے کی اجازت دے دی ہے۔یہ ایک اچھافیصلہ ہے کیونکہ اوورسیز پاکستانی نہ صرف دیارغیر میں رہ کر اپنے خاندان کاپیٹ پالنے کے لئے سخت محنت ومشقت کرتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کومضبوط کرنے اورہرمشکل گھڑی میں ریڑھ کی ہڈی کاکردار ادا کرتے ہیں لہٰذا قوم کافرض ہے کہ اگر کوئی ہم وطن بیرون ملک انتقال کرجائے تو اس کی میت لانے میں تعاون کیاجائے تاہم اگر کسی کے عزیز کی کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد موت واقع ہوئی ہو تو اس کی میت آنے پر ممکن حد تک احتیاطی تدابیر پر عمل کیاجائے‘ تاکہ اس وباء کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔