تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     18-05-2020

روحوں کا احتجاج

آج ہمارا اصل موضوع اُن روحوں سے متعلق ہے جو عرشِ معلی پر بارگاہِ الٰہی میں یقینا سراپا احتجاج ہوں گی۔ زمینی خداؤں کی وجہ سے آسمانوں پر یہ روحیں کس بے تابی سے روزِ محشر کا انتظار کرتی ہوں گی کہ کب یومِ حساب آئے اور کب اُن گریبانوں کو پکڑ کر ربِ کائنات کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکیں‘لیکن انصاف سرکار کے اقدامات ایک بار پھر اصل موضوع سے بھٹکانے کے لیے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ کوشش تھی کہ اصل موضوع پر ہی رہوں‘ مگر کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات جزوی طور پر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے‘ یعنی کالم کا ابتدائی حصہ ان اقدامات کے ماتم کی نذر کرنا ہی پڑا۔ سرکار نے کہیں کورونا سے لڑنے کے لیے تو کہیں کوروناکی صورتحال کے اثرات سے عوام کو بچانے کے لیے نجانے کیا کچھ کر ڈالا۔ کہیں افادیت پر سوالات کھڑے ہوئے تو کہیں شفافیت کٹہرے میں کھڑی نظر آئی ‘کہیں اہلیت کا مسئلہ ہے تو کہیں قابلیت سرنگوں دکھائی دیتی ہے‘کہیں گورننس شرمسار ہے تو کہیں میرٹ تار تار ہے‘اربوں روپے کورونا سے لڑنے اور عوام کو اس موذی وائرس سے بچانے کے لیے لگا ڈالے‘ لیکن سارے اقدامات سوالیہ نشانات کے گھیرے میں دکھائی دیتے ہیں‘ جبکہ عوام اور سرکاری وسائل کو چونا لگانے کے واقعات بھی تواتر سے دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ جن قرنطینہ سینٹرز کو ماڈل فیلڈ ہسپتال ثابت کرنے پر حکومت بضد ہے ان کے قیام سے لے کر انتظام و انصرام تک سبھی معاملات کی قلعی کھل چکی ہے۔ یہ سبھی اقدامات طبّی ماہرین اور دیگر پروفیشنلز کے بجائے ان ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہیں جو ہر دور میں ہر کام کا ٹھیکہ باآسانی اٹھاجاتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے چند لاڈلے ٹھیکے دار ہرفن مولا ہیں‘ مویشی منڈی لگوانی ہو یا اتوار بازار‘پی ایس ایل میچز کروانے ہوں یا شہری استقبالیہ دینا ہو‘خیر مقدمی بینرز‘ ہورڈنگز اور فلیکسز شہر بھر میں لگوانی ہوں یا جشنِ بہاراں کے انتظامات‘دیگیں پکوانی ہوں یا کرسیاں لگوانی ہوں‘حکمرانوں کے افتتاحی دوروں کے انتظامات کرنے ہوں یا سرکاری ریلیوں کا بندوبست‘ یہ سبھی کام چند مخصوص اور منظورِ نظر ٹھیکیدار ہی انجام دیتے ہیں۔ ان ٹھیکیداروں کو ایکسپو قرنطینہ سینٹر پر بھی ہاتھ صاف کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ لاک ڈاؤن کے خسارے پورے کرنے ہوں یا اربابِ اختیار کے نخرے اٹھانے ہوں یہ ٹھیکیدار ہمہ وقت تیار اور آنکھ کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ اگر ان ٹھیکیداروں پر انحصار کرنے کے بجائے میڈیکل پروفیشنلز کی نگرانی میں یہ قرنطینہ سینٹر قائم کیا جاتا تو شاید ہنگامہ آرائی اور مظاہروں سمیت کئی بدنامیوں سے بچا جاسکتا تھا۔ افادیت اور شفافیت پر اٹھنے والے سوالات ہوں یا دیگر الزامات‘ یہ سبھی اس گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جو ہر دور میں سیاسی اشرافیہ‘ انتظامیہ اور ٹھیکیداروں کے درمیان ایک روایت کی بن چکا ہے۔ کس بے دردی اور بے حسی سے کیسے کیسے اقدامات کر کے ان کی کیسی کیسی توجیہات لیے پھرتے ہیں۔ 
اب چلتے ہیں کالم کے اصل موضوع کی طرف‘ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے ایک فرمان کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ بولنے سے پہلے الفاظ انسان کے غلام ہوتے ہیں اور منہ سے نکالنے کے بعد انسان اپنے ہی الفاظ کا غلام بن جاتا ہے۔ منہ سے نکلے الفاظ ہی انسان کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور یہی الفاظ اسے ذلت اور بدنامیوں کے گڑھے میں جا دھکیلتے ہیں۔ منہ سے نکلے الفاظ کسی عوامی لیڈر کے ہوں یا حکمران کے‘ عوام ان الفاظ سے نجانے کیسی کیسی اُمیدیں وابستہ کر لیتے ہیں‘کیسے کیسے خواب سجا لیتے ہیں اور اسی آس پر جیتے ہیں کہ وہ کب اپنے الفاظ کا پاس کرتے ہیں‘کب ان کے دعوے اور وعدے پورے ہوں گے اور کب ان کے دن پھریں گے۔ ہمارے ہاں سیاسی اشرافیہ عوام کو بہلانے اور پھسلانے سے لے کر جھانسہ دینے تک نا صرف الفاظ کا بے دریغ گورکھ دھندا کرتی ہے بلکہ الفاظ کی حرمت مجروح کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی اور بتدریج اس کے الفاظ اس قدر بے وقعتی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں کہ نہ تو ان میں کوئی اثر باقی رہتا اور نہ ہی برکت۔ یوں عوام ایک ہذیانی کیفیت کا شکار رہتے ہوئے روز ایک نئے کرب سے گزرتے ہیں اور بالآخر اپنی نااُمیدیوں‘ ناکامیوں اور بربادیوں سمیت نجانے کون کون سے درد دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہوکر قصہ ٔپارینہ بن جاتے ہیں۔ ان کی روحیں دکھائے گئے سنہری خوابوں کی تعبیرکی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ یہ روحیں عرشِ بریں پر کہیں احتجاج بھی کرتی ہوں گی اور بارگاہِ الٰہی میں فریاد بھی یقینا کرتی ہوں گی کہ اے ربِ کائنات‘ ہمارا اس دنیا میں جانا کیا یونہی رائیگاں جائے گا‘ان زمینی خداؤں کی تیرے جاہ و جلال اور شان کبریائی کے آگے کیا حیثیت ہے‘ یہ اپنے ظلم کی کھیتی کب کاٹیں گے؟ 
سانحات اور حادثات میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سانحہ کے ذمے داروں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے ہمیشہ ہی حادثے کا رنگ دیا جاتا ہے۔ نجانے کتنے سانحات کو حادثہ قرار دے کر فائلوں میں دفن کیا جا چکا ہے۔ گزرتے وقت کی گرد اِن فائلوں کو قبر میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس دوران قوم نے نجانے کتنے ہی سانحات جھیلے ہیں۔ ابھی چند روز قبل سانحہ 12مئی میں ناحق مارے جانے والوں کی 13ویں برسی تھی۔ ان سبھی کی روحیں بھی خلدِ بریں میں یقینا سراپا احتجاج ہوں گی کہ کہاں گئے وہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر شعلہ بیانیاں کرنے والے۔ وزیراعظم عمران خان کو 12 مئی 2007ء کا وہ دن یاد تو ہوگا جب دن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔اُنہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ وہ خون کی یہ ہولی کھیلنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بڑے زور و شور سے کیا کرتے تھے۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی‘جس نے بھی وطنِ عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا‘نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ مطلق العنان حکمران ہوں یا مفاہمت کے بادشاہ‘نواز شریف ہوں یا الطاف حسین‘ کون کہاں کس حال میں ہے؟ کراچی کے عوام 12مئی کی قتل وغارت اور سانحۂ بلدیہ ٹاؤن سمیت نجانے ایسے کتنے ہی واقعات کے ذمے داروں کے انجام کے آج بھی منتظر ہیں۔ اس بربریت کے ذمہ داروں سے لے کر سہولت کاروں تک سب کو سبھی جانتے ہیں۔ قوم آپ سے بے تحاشا اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے‘ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ اس مفاہمت کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر‘تمام مجبوریوں اور سیاسی مصلحتوں سے بالا تر فیصلے ہی سانحہ 12مئی میں ناحق مارے جانے والوں کو انصاف دلوا سکتے ہیں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بربریت کا شکار ہونے والوں کی روحیں بھی یقینا انصاف کی تلاش میں بھٹکتی اور پوچھتی پھرتی ہوں گی کہ کہاں رہ گیا وہ انصاف جس کے بلند بانگ دعوے وزیراعظم کرتے رہے ہیں۔ 
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے ہم کلام ہوتے ہوئے پوچھا تھا کہ یا رب جب تُو ناراض ہوتا ہے تو ہمیں کیسے پتہ چلے کہ تُو ہم سے ناراض ہے؟ پروردگار ِ عالم نے فرمایا: جب میں ناراض ہوتا ہوں تو نکموں‘ بیوقوفوں اور نااہلوں کو حکومت اور بخیلوں کو پیسہ دے دیتا ہوں‘اور پھر بے موسم اور بے وقت بارشیں برساتا ہوں۔ ہمارے ہاں بے موسمی بارشوں کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے اور کھڑی فصلوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘گرانی‘ بدحالی اور مہنگائی کی تباہی کے سواعوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یا اﷲ رحم‘یاخدایا رحم‘حکمرانوں سے لے کر بدحالی اور بے برکتی تک یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے نمونے ہیں‘ تو پھر کون سی اصلاحات‘کون سے اقدامات‘کیسی پالیسیاں‘اور کون سی گورننس۔جب ہمارا رب ہی ہم سے ناراض ہے تو پھر ہماری تقریریں اور تدبیریں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک‘ زرداری سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘ یہ سبھی ہماری اعمالیوں کی سزاہیں اور عذاب ہیں جو ہمارے رب نے اس قوم پر نازل کیا۔ بے شک یہ توبہ اور استغفار کا مقام ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved