تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-05-2020

کتبے‘ دشتِ بے کنار‘ خانہ پُری اور اقتدارؔ جاوید

کتبے
میاں نواز شریف
میاں نواز شریف اپنی معمول کی 500 میٹر کی دوڑ میں مصروف تھے کہ اس کے اختتام پر ان کی سانس پھول گئی‘ انہوں نے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنے کی کوشش کی‘ لیکن بیہوش ہو کر تین دن کومے کی کیفیت میں رہے ۔؎
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
سینیٹر سراج الحق
حسب ِ معمول روزوں کی تقریر میں مصروف تھے کہ اطلاع ملی حکومت نے تقریر پر فوری پابندی عائد کر دی ہے۔ تقریر یہ معلوم ہوتے ہی گلے میں پھنس گئی‘ جسے نکالنے کی کوشش کرتے رہے‘ لیکن۔۔۔؎
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مُرجھا گئے
دشتِ بے کنار
یہ شاداب صدیقی کا مجموعۂ نظم و غزل ہے‘ جسے ''بزمِ شاداب‘‘ کراچی سے انہوں نے خود ہی چھاپا ہے۔ انتساب سسر مرحوم اشفاق حسین صاحب کے نام ہے۔ دیباچے‘ اکرم کنجاہی‘ امین جالندھری اور خورشید بیگ میلسوی کے تحریر کردہ ہیں۔شاعر موصوف سفید بزرگ ہیں اور یہ ان کا تیسرا مجموعۂ کلام ہے۔ پہلی اور آخری بات تو یہ ہے کہ یہ بے وزن شاعر ی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ بات ان کے دباچہ نگاروں نے بھی انہیں نہیں بتائی۔ ان کے مجموعہ ایک ہی غزل کے کچھ اشعار:
یہ پیار محبت تو اک کھیل تماشا ہے
رویا ہے کوئی اس میں اور کوئی تڑپا ہے
میں ساتھ دمِ آخر اس کا ہی نبھاہوں گا
وہ جس نے مجھے ہر دم اپنا ہی سمجھا ہے
ہمدم میں نہیں اس سے دل اپنا واپس لوں
جو میں نے محبت میں خود گروی رکھا ہے
مجنوں ہے پاگل ہے دیوانہ ہے تو کیا
وہ عشق و محبت میں انسان تو سچا ہے
بے چینیٔ دل میں اب آئے گی کمی کیسے
ہر پل جو خیالوں میں وہ میرے آتا ہے
خانہ پُری
سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس محض ایک فراڈ ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کوروناوائرس کا اثر چرند پرند اور دیگر جانوروں پر کیوں نہیں ہوتا ہے؟ عام فہم بات یہ ہے کہ یہ وائرس ‘اگر ہے ہی انسانوں کے لیے تو جانوروں پر کیسے اثر انداز ہوگا؟ ماضی میں جب طاعون کی وبا پھیلی تھی‘ تو اس کی زد میں بھی صرف انسان ہی آئے تھے۔
...............
اک سکھ نوجوان کی تقریب منگنی برپا تھی کہ دونوں طرف کے والدین نے لڑکی لڑکے کو آپس میں چند منٹ بیٹھنے کا موقعہ بھی دیا‘ جس دوران لڑکے نے کہا: باجی! آپ کتنے بہن بھائی ہیں‘ جس پر لڑکی نے جواب دیا کہ پہلے چار تھے‘ اب پانچ ہو گئے ہیں۔
اور ‘ اب آخر میں اقتدارؔ جاوید کی غزل:
دیکھا نہ کسی نے تھا ستارے پر ستارہ
چمکا ترے خوش رنگ غرارے پہ ستارہ
اب کتنے ستارے مرے سارے پہ ہیں روشن
تھا ایک فیروزاں مرے سارے پہ ستارہ
میں کشف کے با وصف نہیں دیکھ سکا تھا
اس رنگ سے دریا کے کنارے پہ ستارہ
نکلا ہے اشارے پہ ستارہ سرِ افلاک
آفاق میں ڈوبے گا اشارے پہ ستارہ
آتا ہے نظر خواب کے تاریک جہاں میں
عاشق ہے کسی خواب کے مارے پہ ستارہ
گلیوں کو منّور بھی بہت کرتا ہے لیکن
سجتا ہے یہ رنگوں بھرے دھارے پہ ستارہ
چمکے گا سیہ رات کے سینے سے نکل کر
اس وقت نہیں عین نظارے پہ ستارہ
خود اپنے بھروسے پہ ابھرتا ہے ہر اک رات
کانپے نہ کسی اور کے پارے پہ ستارہ
یہ اور ممالک میں محبت نہیں ملنی
نگراں ہے اسی شہر ہمارے پہ ستارہ
آج کا مطلع
ویراں تھی رات‘ چاند کا پتھر سیاہ تھا
یا پردۂ نگاہ سراسر سیاہ تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved