تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     19-05-2020

ہمارا ناکام پارلیمانی نظام

9 اپریل کو ان کالموں میں میرے دوست محمد اظہار الحق صاحب کی مندرجہ بالا موضوع پر مدلل‘منطقی‘ مدبرانہ اور فکر انگیز تحریر شائع ہوئی‘اُسی دن میری نظر سے لندن میں شائع ہونے والے جریدوں میں سنجیدگی اور علمیت کے اعتبار سے سرفہرست New Statesmanکا ایک پرُانا شمارہ گزرا جس کے سر ورق پر برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت کا جانا پہچانا نقشہ جان بوجھ کر اُلٹا شائع کیا گیا تھا۔ مضمون کا عنوان ہے :نظام کی ناکامی اورپارلیمانی جمہوریت کا عروج و زوال۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ غلامانہ‘ دقیانوسی اور میکانکی ذہن رکھنے والے جس نظام کو مقدس سمجھ کر اُس کی اندھا دھند تقلیدکر رہے ہیں‘ اُس نظام کو معرضِ وجود میں لانے والے اُس کی افادیت اور عوام دوستی کے معیار پر پورا اُترنے کے سامنے سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔جمہوریت کا مطلب ہے سلطانیٔ جمہور‘ عوام کے تمام طبقات کی نمائندگی‘ عوامی اُمنگوں کی ترجمانی ‘بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکی جانے والی رعایا کی بجائے بااختیار عوام۔انصاف‘ مساوات‘ احتساب اور شفافیت کے چار ستونوں پر عوام دوست سیاسی بندوبست کی پائیدار عمارت کی تعمیر آسمان پر کہکشاں کی طرح چمکتی دمکتی تاریخی مثالوں کی زندہ حقیقت میں تبدیلی۔ 
کالم نگار کی زندگی کے 65 برس علمِ سیاسیات پڑھتے پڑھاتے گزری۔ دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی نہیں جانتا کہ رخشِ عمر کہاں جا کر تھمے گا‘ مگر غالبؔ کے برعکس میرے ہاتھ باگ پر اور پائوں رکاب میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ اُس نے باپ کو اپنے پانچ بیٹوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے (سات سال کی طالب علمی کے بعد) بیرسٹر بن جانے کی توفیق دی۔ میں اس احسانِ عظیم کا شکر اس طرح ادا کرتا ہوں کہ شب و روز وکالت کی طرف پہلے کی طرح توجہ دینے اور اپنی آمدنی میں اضافہ کیلئے بدستور سرگرم عمل ہونے کی بجائے اپنے آبائی وطن عزیز پاکستان کے مسائل پر مضامین اور کتابیں پڑھوں‘ اہلِ دانش سے سیکھوں۔ اسلام آباد میں جنرل (ر) نعیم خالد لودھی‘ کنور محمد دلشاد‘ ذوالفقار چیمہ‘ ڈاکٹر عابد سلہری لاہور میں راشد رحمان‘ خالد بھٹی‘ سید فیروز شاہ گیلانی‘ ڈاکٹر مبشر حسن (مرحوم)۔ کراچی میں ایاز لطیف پلیجو‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر شاہد احمد صدیقی‘شہاب اوستو‘ اقبال شفیق‘ ڈاکٹر ابوبکر شیخ اور ڈاکٹر جعفر احمد سے تبادلۂ خیال کروں۔ 
آپ جانتے ہیں کہ آپ جو تحریر پڑھ رہے ہیں وہ نہ کوئی علمی اور تحقیقی مقالہ ہے اور نہ کسی کتاب کا ایک باب۔ کالم کی جگہ بڑی محدود ہے اور وہ بجا طور پر اختصار کا تقاضا کرتی ہے۔ مجھے دریا کو کوزہ میں بند کرنے کا فن تو نہیں آتا مگر اپنے عمر بھر کے مطالعہ اورمشاہدہ کا نچوڑ ان الفاظ میں لکھتا ہوں کہ پاکستان میں جمہوری نظام کی مسلسل ناکامی کی وجوہ صرف دو ہیں اور وہ ہیں پارلیمانی نظام اور ناقص ترین طریقۂ انتخاب۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی لغت میں جسے Electable کہا جاتا ہے ‘وہ محنت کش تو کجا متوسط طبقے سے بھی دور کا تعلق نہیں رکھتا۔ وہ ارب پتی ہوتا ہے اور انتخابات پر بخوشی کروڑوں روپے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اُس کا واحد مقصد برسر اقتدار جماعت میں شامل ہو کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ تو تھا ہماری قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کا تعارف۔ اب یہ دیکھئے کہ موصوف نے ووٹ کتنے لئے؟ بہت کم اراکین اسمبلی ایسے ہوں گے‘ جنہوں نے 50 فیصد سے زائد ووٹ لئے ہوں۔ اگر چار افراد انتخاب میں حصہ لیں تو ایک 20 فیصد ووٹ لے‘ دوسرا 24فیصد ‘تیسرا 28 فیصد اور چوتھا 33 فیصد تو چوتھا شخص کامیاب ٹھہرایا جائے گا‘حالانکہ اس نے صرف ایک تہائی ووٹ لئے اور رائے دہندگان میں سے دو تہائی نے اُس کے خلاف ووٹ ڈالے۔ یورپ کے کئی ملکوں کے آئین کے مطابق انتخابات سے دو ہفتوں کے بعد پھر ووٹ ڈالے جاتے ہیں جس میں صرف سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو اُمیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جاتا ہے تاکہ ان دونوں میں سے جو بھی زیادہ ووٹ لے وہ اکثریت کی نمائندگی کر سکے۔ یہ وہ کڑا معیار ہے جس پر ہماری اسمبلیوں کا شاید ہی کوئی رُکن پورا اُترتا ہو۔ یہاں مجھے ضمناً ایک اور ضروری بات یاد آئی۔ اگر آسٹریلیا جیسے مہذب ملک میں ووٹ ڈالنا قانوناً لازمی ہے اور ووٹ نہ ڈالنے کی سزا دی جاتی ہے تو ہم یہ قانونی پابندی کیوں نہیں لگا سکتے؟
پارلیمانی نظام میں اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس اکثریت نہ ہو تو وہ مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسی مخلوط حکومت بنائے جو بھان متی کا کنبہ بن کر گزارا موافق ہونے کی شرط پوری کرے۔ وزیراعظم ہو یا وزیر اعلیٰ‘ وہ اسمبلی کے اراکین میں سے ہی اپنی کابینہ کے ارکان چُن لینے پر مجبور ہوتا ہے۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں‘اُن کا اقتدار ارکانِ اسمبلی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ ترقیاتی فنڈ کے نام پر اُنہیں کروڑوں روپے بطور رشوت دیتے ہیں اوروہ بھی کھلم کھلا ۔آپ نے یقینا بچپن میں وہ کہانیاں پڑھی یا سُنی ہوں گی جن میں کسی شہزادی پر قابض ہونے والے جن کی جان ایک طوطے میں ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارے ملک میں مافیا کی جان پارلیمانی نظام کے طوطے میں ہوتی ہے اور وہ بھی خصوصاً اس طرح کہ مافیا Electablesپر مشتمل ہوتی ہے اور وہی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار کی راہداریوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں‘ اگر آپ ہمارے سیاسی نظام پر مافیا کا قبضہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بلا توقف پارلیمانی نظام کو ختم کر کے صدارتی نظام کے نفاذ کی حمایت کرنا ہوگی۔ صدارتی نظام کے ساتھ ساتھ ہمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے بھی متناسب نمائندگی کے اصول کو اپنانا ہوگا۔ یہ بھی مکمل نہیں‘ بلکہ صرف دو تہائی اصلاح ہوگی۔ مکمل اصلاح کی طرف ہم صرف اُس صورت میں قدم بڑھائیں گے جب صدارتی نظام اور متناسب نمائندگی کے ساتھ ہم گائوں‘ تحصیل ‘ ضلع اور ڈویژن کی سطح پر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کریں۔ پارلیمانی نظام کی کامیابی کیلئے جو دو بنیادی شرطیں ہیں ہم وہ بھی ہر گز پوری نہیں کرتے‘ ایک ہے آبادی کے کم از کم نصف صد کا متوسط طبقہ پر مشتمل ہونا اور دوسری ہے خواندگی کی بڑی شرح‘مگر رائے دہندگان کا تعلیم یافتہ ہونا تو دور کی بات ہے ہمارے اسمبلی کے اراکین کی اکثریت خود اَن پڑھ یا نیم خواندہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب بی اے‘ بی ایس سی پاس ہونے کی شرط عائد کی گئی تو کئی سیاسی گھرانوں کو اتنی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا کہ اُنہیں اپنے گھرانے کی تعلیم یافتہ خواتین کو انتخابات کے میدا ن میں اُتارنا پڑا۔ اب آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کے تحت معرضِ وجود میں آنے والی ان اسمبلیوں کی کارکردگی کیا ہے؟ بہت لحاظ کریں تو اُنہیں تھرڈ ڈویژن سے زیادہ نمبر نہیں دیئے جا سکتے۔ اسمبلی کے اراکین کو ہر چیز میں دلچسپی ہوتی ہے‘ماسوائے قانون سازی کے۔ پاکستان اُن بدنصیب ممالک میں شامل ہے جہاںصدرِ مملکت کے پاس آرڈی نینس جاری کر کے قانون سازی کا اختیار بھی ہے‘ اس سے پارلیمانی نظام کی ناکامی کا اور کون سا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ 
کالم نگار اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے دو قوانین کے بارے میں قارئین کی رہنمائی کا طلبگار ہے۔ ایک ہے فیملی آرڈی نینس جو 1962 ء میں نافذ کیا گیا اور دوسرا ہے تحفظ عامہ کا آرڈی نینس۔ اگر یہ دونوں آرڈی نینس آج تک کسی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کئے گئے تو وہ اتنے سال گزر جانے کے بعد اپنی قانونی حیثیت سے محروم کیوں نہیں ہوئے؟ اگر اُنہیں پارلیمانی منظوری مل چکی ہے تو وہ ایکٹ کی بجائے آج تک آرڈیننس کیوں کہلاتے ہیں؟ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی‘ اگر وہ جمہوری ہے تو اُسے نا صرف آزاد پریس اور آزاد عدلیہ‘ بلکہ جمہوری معیار پر پورا اُترنے والی سیاسی جماعتیں درکار ہیں۔ کتنی اچھی بات ہے کہ ہمارے پاس مذکورہ بالا تین میں سے دو ادارے ہیں اور وہ ہیں؛ آزاد پریس اور آزاد عدلیہ‘ مگر تمام سیاسی جماعتیں ایک سے ایک بڑھ کر غیر جمہوری ہیں اور ایک عوام دُشمن نظام کی سب سے بڑی پیداوار ہیں‘ آپ اُن سے کسی اصلاح کی اُمید نہ رکھیں۔ آج نہیں تو کل وکلا ‘اساتذہ اور محنت کشوں کے اتحاد سے روشنی کی جو کرن پھوٹے گی وہی ہمارے نیم تاریک سیاسی اُفق کو روشن کرے گی‘ جس پر فیض ؔصاحب یقین رکھتے تھے کہ ہم دیکھیں گے۔ ضرور دیکھیں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved