مریم نواز
کیا دیکھتی ہوں کہ شہباز چچا اور حمزہ شہباز کو احتساب عدالت نے نااہل قرار دے کر دس سال کیلئے اندر کر دیا ہے اور اس طرح میرے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ دُور ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہو کر سیاست سے تائب ہو گئے ہیں اور مجھے وزارت ِعظمیٰ کا حلف اٹھانے کی دعوت دے دی گئی ہے‘ جس پر ملک بھر میں ایک جشن کا سماں ہے‘ مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں اور دیگیں چڑھا دی گئی ہیں‘ مبارکبادوں اور پھولوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ والد صاحب نے بھی سن کر دلی مسرت کا اظہار کیا ہے اور وہ ماشا اللہ پہلے سے بھی زیادہ تندرست ہو گئے ہیں۔ حلف اٹھانے کے بعد ان کی قدم بوسی کیلئے لندن جاؤں گی۔ حلف اٹھانے کی تیاریاں عروج پر ہیں‘ جس کیلئے صدر مملکت نے بھی طوعاً و کرہاً اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔ اس تقریب کیلئے تیار کردہ خصوصی لباس تو پہلے ہی سے موجود ہے ‘لیکن ایک بدمزگی ہو رہی ہے کہ صفدرصاحب نے بھی ساتھ ہی مردِ اوّل کا حلف اٹھانے کا مطالبہ ‘بلکہ ضد شروع کر دی ہے‘ جنہیں سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ حلف کے بغیر بھی تو مردِ اوّل ہی رہیں گے ‘لیکن وہ نہیں مان رہے؛ حتیٰ کہ ایک کارکن نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی تو اسے انہوں نے ایسا زناٹے دار تھپڑ رسید کیا کہ میری آنکھ کھل گئی۔
شاہ محمود قریشی
کیا دیکھتا ہوں کہ وزیراعظم نے بزدار صاحب کو الگ کر کے مجھے وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھانے کی دعوت دے دی ہے‘ جس سے میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے‘ جو اگرچہ بہت پہلے پوری ہو جانی چاہیے تھی‘ تاہم دیر آید درست آید‘ بلکہ میں تو پارٹی میں شامل ہی اس عہدے کو حاصل کرنے کیلئے ہوا تھا‘ کیونکہ وزارت خارجہ تو میں پہلے بھی بھگتا چکا تھا‘ جس کی حیثیت ایک سفیر سے زیادہ نہیں تھی‘ کیونکہ اصل حکومت تو یہ ہے اور وہ بھی ملک کے سب سے صوبے کی‘ کجا راجہ بھوج اور کجا گنگو تیلی؛ اگرچہ اس پر دیگر امیدواران نے سخت احتجاج کیا ہے ‘لیکن وزیراعظم نے کسی کی نہیں سنی اور اپنے اعلان پر ہمیشہ کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں‘ جس سے صوبہ بھر اور خاص طور پر ملتان میں بالکل ایک تہوار کا سماں ہے اور ہر طرف ڈھول ڈھمکے کی آوازوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ‘جس پر لوگوں نے کانوں پر مکعب الصوت کے آلے چڑھا لئے ہیں‘ جنہوں نے ماسک پہلے ہی پہن رکھے تھے اور اب اُنہیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں بھی دقت کا سامنا ہے‘ جبکہ کسی نے میرے کان کے قریب اتنے زور سے ڈھول بجایا کہ میری آنکھ کھل گئی۔
خواب سے آگے
یہ امداد ؔآکاش کا مجموعہ کلام ہے‘ جسے ''بک ہوم‘‘ لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب یار بے بدل محمود اسلم للہ کے نام ہے۔ کتاب کسی دیباچے کے بغیر ہے‘ جس سے شاعر کی خود اعتمادی کا اظہار ہوتا ہے۔ پیش لفظ بھی شاعر نے اشعار کی صورت میں لکھا ہے ‘جو پختگی اور ندرت کا امتزاج ہے‘اسی پیش لفظ کے چند اشعار:
پئے خود آشنائی آشنا پیدا کیا ہم نے
اکیلے تھے سو اپنا دوسرا پیدا کیا ہم نے
نمائش کو ہم اپنے آپ کے اندر ہوئے پیدا
پھر اپنے آپ کو خود سے جدا پیدا کیا ہم نے
خیال آیا کہ جایا جائے اپنی دوسری جانب
بہت مشکل تھا لیکن راستہ پیدا کیا ہم نے
بڑی فیاض تھی اور مہرباں تھی جنت ِ ارضی
یہاں چھوٹا بڑا‘ اچھا برا پیدا کیا ہم نے
اور اب آخر میں شعیبؔ زمان کی شاعری:
مجھے نہیں تھا گوارا‘ نہیں دیا میں نے
گلاب دے کے اشارہ نہیں دیا میں نے
میں رنج لے کے خوشی دینے والا بندہ ہوں
کبھی کسی کو خسارہ نہیں دیا میں نے
یہ ایک شخص کی جاں کا سوال تھا میری جاں
پتا خوشی سے تمہارا نہیں دیا میں نے
کسی کا راز نکالا نہیں گیا دل سے
ہوا کے ہاتھ شرارہ نہیں دیا میں نے
اکٹھے رہنے کی سازش ہوئی ہے
در و دیوار کی خواہش ہوئی ہے
یہ پیاسے کھیت آخر جی اُٹھے ہیں
بہت دن بعد جو بارش ہوئی ہے
سما سکتی ہے اس میں ساری دنیا
ہمارے دل کی پیمائش ہوئی ہے
ملے مجھ کو اگر اپنا پتا بھی
رہے گا گم شدوں سے رابطہ بھی
میں کھِلتے وقت کیوں مُرجھا رہا ہوں
دُعا بھی دیجئے اور مشورہ بھی
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں‘ ظفرؔ
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا