دنیا کا کام ہے‘ ہر آن بدلنا۔ ہمارا کام ہے ہر اہم‘ قابلِ ذکر اور قابلِ قدر تبدیلی کا ساتھ دینا۔ جو ایسا کرے‘ وہ کامیاب‘ جو نہ کرے ‘وہ بھگتے۔ آج تک تو یہی ہوتا آیا ہے۔ وقت کا ساتھ نہ دینے والوں کو بالعموم معافی ملتی نہیں۔ یہ تو ہوتا ہے‘ یہ تو ہوگا۔ جب ہم وقت کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں‘ یعنی تبدیلیوں کی نوعیت کو سمجھنے سے گریزاں رہتے ہیں ‘تب معاملات کو بگڑنے سے بچانا دشوار ہو جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں سات دہائیوں سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ ہمارے لیے المناک نتائج پیدا نہ کرے۔ ان سات دہائیوں کے دوران دنیا اتنی بدل گئی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی اور ہم بھی اتنے بدل گئے ہیں کہ آئینہ دیکھیں تو اپنی ہی صورت پر یقین نہیں آتا۔ ہاں‘ بدلنے میں فرق ہے۔ دنیا نے بہت کچھ سیکھا ہے‘ سوچا ہے‘ جو کچھ سوچا ہے ‘اُس پر عمل کیا ہے اور یوں اصلاح کی گنجائش اس حد تک پیدا کی ہے کہ معاملات کو قابو میں رکھنا زیادہ دشوار نہیں رہا اور ادھر ہم ہیں کہ بدلنے کے نام پر بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ بگڑنے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ کسی بھی چیز کو خرابی سے بچانا ہو تو سو جتن کرنا پڑتے ہیں اور اگر ہم طے کرلیں کہ کسی چیز کو خراب ہونے دینا ہے تو بس یہ ہے کہ اُسے خراب ہونے دینا ہے‘ اس میں کون سے ہاتھی گھوڑے لگنے ہیں!وقت نے بار بار ہم سے بہت سے تقاضے کیے ہیں۔ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ‘تحرک۔ تحرک کے بغیر انفرادی سطح پر کامیابی ممکن ہے ‘نہ اجتماعی سطح پر۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ تحرک سے یوں دور بھاگتے ہیں گویا یہ کوئی خطرناک عارضہ ہو کہ لاحق ہوگیا تو سمجھو کام ہوگیا۔
وقت کا ایک اہم تقاضا ہے؛ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنا‘ تاکہ جہاں جہاں جتنی تبدیلی ضروری ہو یقینی بنائی جاسکے‘ جو لوگ اس تقاضے کو نظر انداز کرتے ہیں‘ وہ حتمی تجزیے میں ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہمارا بھی تو یہی معاملہ رہا ہے۔ سات دہائیوں میں ہم اتنے تبدیل ہوئے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے اور اسی دوران ہم نے ضرورت کے مطابق‘ تبدیل ہونے سے یوں گریز کیا ہے‘ گویا طے کرلیا ہو کہ جو کچھ ہمارے مفاد میں ہے‘ بس وہی نہیں کرنا‘ باقی سب کچھ کر گزرنا ہے!معیشت ہو یا معاشرت‘ ہمارا عمومی رویہ لاپروائی سے عبارت رہا ہے۔ معاشرے کو بدلنے‘ یعنی اصلاح کے ذریعے اس کی ویلیو ایڈیشن کا اہتمام کرنے کی خواہش رکھنے والوں نے سر توڑ کوشش کی ہے ‘مگر اب تک کوئی بھی ایسی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی ‘جس کی بنیاد پر پورے یقین سے کہا جاسکے کہ اب‘ معاملات درستی کی طرف جائیں گے۔
پاکستانی معاشرے میں چند ایک اچھے اوصاف بھی ہیں‘ جو اب تک نمایاں ہیں۔ اہلِ پاکستان کی اکثریت عمومی سطح پر زندہ دلی کا مظاہرہ کرنے کی عادی ہے۔ دل بڑے ہیں۔ کسی کو مصیبت میں دیکھ کر لوگ فوراً لپکتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر کسی کی مدد کرنے میں زیادہ دیر لگانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کسی کو پریشانی کی حالت میں زیادہ دیر برداشت نہیں کرتے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پریشانی کے دائرے سے باہر آجائے۔ بیواؤں‘ بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا بہت سے پاکستانیوں کے لیے عادت جیسا معاملہ ہوگیا ہے۔
مہمان نوازی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ دیگر ممالک کے لوگ جب پاکستان آتے ہیں یا بیرون ملک کسی پاکستانی سے ملتے ہیں ‘تو محسوس کرتے ہیں کہ پاکستانیوں میں عمومی سطح پر مہمان نوازی غیر معمولی حد تک ہے۔ یہ ایسا وصف ہے ‘جو لوگوں کو تادیر یاد رہتا ہے۔
پھر کیا سبب ہے کہ ہم اب تک پچھڑے ہوئے ہیں؟ پاکستانیوں میں پائے جانے والے اوصافِ حمیدہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی خوبیوں کو خرابیوں میں تبدیل ہونے سے نہیں روک پاتے۔ خوبیاں اُسی وقت پنپتی ہیں جب خرابیوں کو راہ نہ ملے۔ ہم خرابیوں کو اپنائے رہتے ہیں۔ ایک طرف تو ہم ایک دوسرے کی مدد کرنے پر تُلے رہتے ہیں اور دوسری طرف ایک دوسرے کا گلا کاٹنے سے بھی باز نہیں آتے۔
معاشی معاملات کی بات کیجیے تو معاملہ یہ ہے کہ جسے جہاں جتنا موقع ملتا ہے‘ اُسی کے بہ قدر بے انصافی سے کام لیتا ہے ‘یعنی اپنی جیب بھرنے کیلئے دوسروں کی جیب خالی کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ بُرے کام کا بُرا ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں اور ہم سب کیا‘ بچہ بچہ جانتا ہے‘ مگر پھر بھی روش تبدیل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ کیوں؟ اپنے آپ پر اختیار نہیں۔ دنیا نے ہمیں اس قدر جکڑ لیا ہے کہ آخرت کا تصور محض وہم و گمان کی منزل میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ بھری محفل میں آخرت کا ذکر چھڑ جائے تو لوگ اللہ کے خوف کی باتیں کرتے کرتے روہانسے ہو جاتے ہیں‘ گلا بھر آتا ہے‘ آنکھوں سے آنسو بھی چھلکتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ہر شخص یہ تاثر دے رہا ہوتا ہے کہ آخرت کے معاملے میں اُس سے زیادہ خشیّت کسی کے دل میں نہیں‘ مگر صاحب‘ یہ سب کچھ اضطراری ہوتا ہے‘ محض وقتی معاملہ ہوتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں‘ بلکہ چند ہی لمحات کے بعد سب کچھ ''نارمل‘‘ ہو جاتا ہے۔
معیشت اور معاشرت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک بگڑتی ہے تو دوسری کو بھی بگاڑتی ہے۔ معاشی سطح پر ملک گڑھے میں گِرا ہوا ہے۔ یہی حال معاشرت کا بھی ہے۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ اندر اچھی خاصی گڑبڑ ہے ‘مگر باہر ''سب اچھا ہے‘‘ کا بورڈ لگا رکھا ہے۔ ہم نے کیاری میں ببول کے پودے لگا رکھے ہیں اور خواہش یہ ہے کہ اُن پر گلاب اُگیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا۔ کنویں میں ڈول ڈالیے تو وہی پانی نکلے گا‘ جو کنویں میں ہوگا۔ یہ ہے عمل کی حقیقت اور خواہش یہ ہے کہ سب کچھ اچھا ہو جائے۔ ایسے میں خرابیوں کو تو راہ ملنی ہی ملنی ہے۔ یہ تو ہوگا۔