تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-05-2020

ایک ہیرو‘ ایک ولن

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے شاید ہم انسانوں کے اندر اچھے لوگوں کی قدر نہیں ہوتی۔ شیکسپیئر یاد آتا ہے کہ انسان کے مرنے کے ساتھ ہی اس کی اچھائیاں دفن ہو جاتی ہیں جبکہ برائیاں پیچھے دنیا میں رہ جاتی ہیں۔ آپ کچھ بھی کر لیں لوگ پھر بھی بے پروا رہتے ہیں۔ انہیں فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے ان کی خاطر کیا قربانی دی‘ آپ نے سٹینڈ لیا‘ آپ نے بیوی بچوں اور خاندان کے مفادات پر معاشرے کے مفادات کو ترجیح دی۔ جن کے لیے آپ لڑ رہے تھے شاید انہیں پتہ ہی نہ ہو کہ کس وقت کون ان کے لیے کھڑا تھا اور اگر وہ سٹینڈ نہ لیتا تو شاید وہ سب مارے جاتے۔ جنہوں نے ان کی جانیں بچانے کے لیے سٹینڈ لیا وہ اپنے کیریئر تباہ کر بیٹھے‘ سزائیں بھگتیں اور نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 
یہ سب باتیں مجھے دوست کالم نگار سلیم صافی کا انکشاف پڑھ کر یاد آرہی ہیں کہ عمران خان صاحب الیکشن سے پہلے میجر عامر کے گھر چوہدری نثار علی خان کی گھنٹوں منتیں کرتے رہے کہ وہ ان کی پارٹی جوائن کر لیں۔ کتنے لوگوں کو یاد ہو گا کہ تین چار سال قبل اسلام آباد کے آئی جی آفتاب چیمہ اور ایس ایس پی محمد علی نیکوکارا نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خلاف سٹینڈ لیا تھا اور بدلے میں سزا بھگتی۔ چوہدری نثار کے دبائو کے باوجود دونوں افسران نے عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے شرکا پر تشدد کرنے اور گولیاں چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ دونوں افسران کا کہنا تھا کہ ہجوم میں بچے اور عورتیں بھی ہیں؛ چنانچہ کوئی بڑا نقصان ہو جائے گا‘ انہیں طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں‘ آپ ہم پر چھوڑ دیں۔ شاید ان دونوں افسران کے ذہن میں لال مسجد اور ماڈل ٹائون آپریشن کی یادیں تازہ تھیں۔ کسی کو یاد ہے ان دونوں افسران کے ساتھ چوہدری نثار علی خان نے کیا کچھ کیا تھا؟ آفتاب چیمہ کو فوراً آئی جی کی پوسٹ سے ہٹا دیا گیا‘ حالانکہ کسی بھی پولیس افسر کے لیے آئی جی کی پوسٹنگ اہم ہوتی ہے۔ تیس پینتیس برس کی سروس کے بعد وہ اس قابل ہوتا ہے کہ آئی جی لگ سکے۔ آئی جی اسلام آباد کی پوسٹ کو دائو پر لگانے کی ہمت ہر کوئی نہیں کر سکتا‘ یہ آفتاب چیمہ جیسے لوگوں کا کام ہے‘ یا پھر زبیر محمود جیسے لوگوں کا۔ زرداری صاحب نے میر زبیر محمود کو سندھ کا آئی جی لگانے کے لیے بلایا تھا۔ دونوں کی ملاقات ہوئی تو زرداری صاحب نے ان سے پوچھا: کچھ اپنے بارے میں بتائیں۔ میر زبیر محمود نے کہا: کوئی لمبا چوڑا تعارف نہیں‘ میں وہی افسر ہوں جس نے پاکستان سٹیل مل سکینڈل میں ایف آئی اے کی انکوائری کی تھی اور آپ کے قریبی دوست ریاض لال جی پر ہاتھ ڈالا تھا۔ اس کے بعد انٹرویو کیا ہونا تھا۔ میر زبیر نے سلام کیا اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ 
خیر‘ چوہدری نثار علی نے آفتاب چیمہ کو سزا کے طور پر ہٹا دیا جبکہ بقیہ غصہ محمد علی نیکوکارا پر اتارا‘ اور انکوائری آرڈر کر دی۔ انکوائری افسر فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری کو بنا دیا گیا۔ جی ہاں فارن سیکرٹری انکوائری کر رہے تھے کہ نیکوکارا نے عورتوں اور بچوں پر گولیاں کیوں نہیں چلائیں۔ کچھ دن بعد نیکوکارا کو اس انکوائری کی روشنی میں برطرف کر دیا گیا‘ یوں پولیس گروپ کا ایک شاندار افسر جو ہارورڈ یونیورسٹی سے پڑھ کر لوٹا تھا‘ عمران خان صاحب کے دھرنے پر تشدد نہ کرنے کی پاداش میں نوکری سے برطرف ہوا۔ آج کسی کو یاد ہے کہ وہ افسر کہاں ہے اور کیا کرتا ہے؟ جس کو یاد رکھنا چاہیے تھا‘ وہ بقول سلیم صافی‘ الیکشن سے پہلے میجر عامر کے گھر چوہدری نثار کی منتیں کر رہے تھے کہ تم نواز لیگ چھوڑو اور تحریک انصاف میں شامل ہو جائو‘ میرے بعد تم ہی پارٹی میں اہم ہو گے۔ 
ویسے اب اگر آفتاب چیمہ اور نیکوکارا کو پتہ چلے تو انہیں کیسا لگے گا کہ جس وزیر داخلہ کی گستاخی کے وہ مرتکب ہوئے اور نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ اسے تحریکِ انصاف میں لانے کے لیے عمران خان صاحب میجر عامر کے گھر منتیں کرتے رہے تھے۔ چوہدری نثار نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا شریف خاندان سے بہت پرانا تعلق ہے‘ مجھے اچھا نہیں لگے گا کہ جس جلسے کے سٹیج پر میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں‘ وہیں سے شریف خاندان کو بُرا بھلا کہا جا رہا ہو۔ ویسے میں نے کچھ سیاستدانوں کو دیکھا ہے کہ اپوزیشن میں جتنے مسکراتے اور ہنستے ملتے ہیں‘ وزیر بنتے ہی راتوں رات ایسے بدل جاتے ہیں کہ آپ انہیں پہچان نہیں سکتے۔ یوں لگتا ہے‘ آپ برسوں کسی جعلی بندے سے ملتے رہے۔ اصل بندہ تو یہ ہے جو اَب وزیر ہے۔ اپنے جیسے انسانوں سے ایسی نفرت ان کے چہرے پر اچانک کہیں سے آ جاتی ہے کہ آپ کا انہیں ملنے کو دل نہیں کرتا۔کسی نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا کہ جرنلزم کیسی چل رہی ہے؟ میں نے کہا: آدھا شہر مجھ سے نہیں ملنا چاہتا اور آدھے شہر سے میں نہیں ملنا چاہتا۔ اس لیے ایک ایک کرکے بہت سے سیاستدانوں سے ملنا چھوڑ گیا ہوں‘ جب یہ محسوس ہوا کہ اقتدار یا وزارت ان کے دماغ کو چڑھ گئی ہے۔ مزے کی بات ہے‘ وزارت جاتے ہی وہ دوبارہ وہی انکساری اور بھائی چارے کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور آپ دوبارہ ان کے ''بھائی‘‘ کا درجہ اختیار کر جاتے ہیں۔ 
اچھے پولیس افسران ہر دور میں زیر عتاب رہتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے آر پی او طارق قریشی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ ان چند افسران میں سے ہیں‘ جن کی تعریف کی جاتی ہے۔ پولیس کی نوکری میں رہتے ہوئے عزت کمانا مشکل کام ہے اور انہوں نے گوجرانوالہ جیسے مشکل علاقے میں عزت کمائی۔ ان سے پہلے ڈیرہ غازی خان کے آر پی او عمر شیخ نے اس علاقے میں جا کر بڑا نام کمایا۔ ڈیرہ غازی خان ایک مشکل علاقہ ہے کیونکہ وہاں مزاری‘ لغاری‘ کھوسے‘ دریشک ہیں اور سب کو خوش رکھنا مشکل کام ہے۔ عمر شیخ نے وہ کام وہاں کیا جو پہلے نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے پولیس افسران اور اہلکاروں کو ان کے خلاف عوامی شکایت درست نکلنے پر اپنے دفتر میں ہی ہتھکڑیاں لگا کر تھانے میں بند کرا دیا۔ یہ پہلی دفعہ ہو رہا تھا کہ اگر عوام کسی جرم پر گرفتار ہو رہے تھے تو پولیس اہلکار بھی گرفتار ہو رہے تھے۔ یوں چند ماہ میں علاقے کا ماحول بدل گیا۔ اب عمر شیخ کے ساتھ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے پر جو سلوک ہوا وہ الگ کہانی ہے۔
یاد پڑتا ہے‘ احسان صادق ورلڈ بینک میں نوکری کر رہے تھے کہ شہباز شریف اپنے انقلابی نعرے سمیت لندن سے سیدھے پنجاب اترے اور انہیں ڈالروں کی نوکری چھڑوا کر اوکاڑہ کا ڈی پی او لگا دیا۔ تین ماہ میں اوکاڑہ کا کرائم ریٹ ستر فیصد کم ہو گیا کیونکہ احسان صادق نے سفارش کی بجائے میرٹ پر ایس ایچ او لگا دیے۔ دو تین آزاد ایم پی ایز سفارشیں لے کر پہنچ گئے‘ احسان صادق نہیں مانے۔ وہ سیدھے شہباز شریف کے پاس گئے کہ جناب ہم نواز لیگ میں شامل ہونے کو تیار ہیں‘ اوکاڑہ کا ڈی پی او تبدیل کر دیں۔ شہباز شریف نے فوراً احسان صادق کے کیریئر کا سودا کرکے انہیں ہٹا دیا۔ایک اور سرکاری دوست بتا رہا تھا کہ ڈی ایم جی کے ایک افسر جو سی ڈی اے کے چیئرمین تھے‘ سے پوچھا گیا کہ بنی گالہ کی عمارتوں کا کیا کرنا ہے؟ اس افسر نے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی‘ اگلے دن اس افسر کو ہٹا دیا گیا ۔ میرا ذہن ابھی تک عمران خان اور چوہدری نثار کی میجر عامر کے گھر ملاقات کی خبر پر اٹکا ہوا ہے۔ اقتدار کی خواہش کتنی ظالم چیز ہے کہ جو آپ پر گولیاں چلوانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ آپ انہیں اپنی پارٹی میں لانے کے لیے منتیں ‘ ترلے کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک ہیرو وہ پولیس افسران نہیں جنہوں نے دھرنے کے شرکا پر تشدد یا گولی چلانے سے انکار کیا تھااور سزائیں بھگتی تھیں بلکہ وہ سیاستدان ہیرو ہے جس نے تشدد کا حکم دیا تھا۔ جن پولیس افسران نے انسانی اصولوں کے نام پر اپنے کیریئرز تباہ کیے اور نوکریوں سے برطرف ہوئے‘کیا وہ بیوقوف تھے؟ وہ کسی کھاتے میں نہیں تھے۔ وہ پولیس افسران ولن اور وزیر‘ سیاستدان ہیرو نکلے۔ واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved