افغانستان کا سوچتا ہوں تو اپنا 1992ء کا واحد سفر یاد آجاتا ہے۔خوست کا اجڑا بازار‘پہاڑی نالے‘ جنہیں لوغاٹ کہا جاتا ہے۔گہرے گڑھوں والے راستے جنہیں سڑک کہنا مشکل ہے‘گردیز کے نواحی باغات‘مقامی جنگجو کمانڈر‘جہازوں کی بمباری‘نجیب اللہ فوج کی نظر میں آجانے سمیت بے شمار خطرات والا سفر۔میرے تصور میں وہی افغانستان ہے ‘ لیکن یہ ایک بڑی طویل کہانی ہے ‘پھر کبھی اے دوست!
افغانستان کے باب میں ایک بات نے مجھے ہمیشہ حیران اور پریشان رکھا۔پشتونوں اور افغانوں کی اپنی روایات ہیں‘ جن سے وہ دست بردار نہیں ہوا کرتے۔ہم سب ان صدیوں پرانی ان روایات سے واقف ہیں ۔انہی میں جذبۂ احسان مندی بھی ہے اور جذبۂ انتقام بھی ۔جس شخص گروہ‘قوم نے ان پر کچھ احسان کیا ہو‘وہ اس کو بھولتے بھی نہیں اور اس کابدلہ بھی اتارتے ہیں ۔نسل در نسل اور سال در سال ‘لیکن اسی طرح اس کے برعکس بھی یاد رکھتے اور ا س پر تا عمر عمل کرتے ہیں۔مجھے یہ بات ہمیشہ حیران اور پریشان کرتی رہی کہ پاکستان کے معاملے میں افغانوں کا‘خواہ وہ پشتون ہوں‘تاجک ہوں ‘ ہزارہ ہوں یا کسی اور قومیت سے تعلق رکھتے ہوں ‘ یہ جذبہ ٔ احسان مندی کہاں چھپ جاتا ‘بلکہ دشمنی میں کیوں بدل جاتا ہے؟
اور پرویز مشرف کے چند سالہ زمانۂ اقتدار میں طالبان حکومت کے ساتھ چند ناخوشگوار واقعات اور پالیسییوں کو چھوڑ دیں کہ اس میں عالمی طاقتوں کا بے پناہ دباؤ بھی تھا‘لیکن پاکستان نے ہمیشہ انفرادی اورحکومتی سطح پر افغانوں کے ساتھ جو حسن ِسلوک‘مہمان نوازی ‘اور ایک بڑے بھائی کا رویہ رکھا ہے ‘ افغانوں کی طرف سے عام طور پر اس کا جواب مخالفت میں کیوں ملتا رہا ہے۔ مجھے اس کاتشفی بخش جواب کبھی نہیں ملا ؛چنانچہ جب افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر برادرم سید ابرار حسین نے اپنی تازہ کتاب'' افغانستان۔ملا عمر سے اشرف غنی تک‘‘ مجھے عنایت کی تو میں نے بڑے اشتیاق کے ساتھ پڑھی ۔یہ کہنا مشکل ہے کہ سوال کا جواب مل گیا‘ تاہم تمام گتھیاں نہ سہی ‘کچھ ضرور کھلیں اورکچھ نئے واقعات اور کچھ سوالوں کے جواب بھی شعور کا حصہ بنے ۔
سید ابرار حسین قیمتی آدمی ہیں ۔جو شخص ہم عمر بھی ہو ‘ رشتے دار بھی ہو‘عمدہ شاعر بھی ہو‘عروض دان بھی ہو ‘ہنس مکھ دوست بھی ہو ‘سفارت کار بھی ہو ‘منکسر المزاج بھی ہو اسے بیش قیمت کیسے نہ سمجھا جائے۔ابرار نے وزارت خارجہ میں 35سال گزارے۔بطور سفارت کار جدہ ‘ کویت‘پراگ میں بہت وقت گزارا ‘لیکن وہ زیادہ اہم عرصہ اسے جانتے ہیں ‘جو بطور قونصل جنرل پاکستان قندھار میں اور بطور سفیر کابل میں گزرا۔یہ لگ بھگ پانچ سال کی مدت ہے‘ جس کی یا دداشتیں انہوں نے اس کتاب میں رقم کی ہیں ۔
کتاب میں مصالحے دار داستانیں ‘ چٹ پٹے قصے‘ سنسنی خیز کہانیاں یا اندر کی باتیں تلاش کرنا مشکل ہے ‘یعنی وہ چیزیں جو ایک صحافی کی تلاش ہوا کرتی ہیں۔ابراراپنے مزاج کے مطابق‘ شخصیات اور پالیسیوں سے متعلق تیز و تند جملوں اور تبصروں سے بچ کر گزرے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس دور میں پاکستانی مؤقف‘مسائل ‘افغان حکومت کے بدلتے رنگ بہت اچھی طرح واضح کردئیے ہیں ۔اسی طرح امریکہ اور ہندوستان کے اپنے اپنے مفاد کے کھیل بھی پورے پس منظر میں اچھی طرح سمجھ میں آتے ہیں ۔چند اقتباسات سے اندازہ ہوسکے گا:
'' دو سال بعد میں جب الوداعی ملاقات کرنے گیا ‘تو ملا عمر جو ایک برآمدے میں کھڑے لوگوں سے محو گفتگو تھے۔وہیں زمین پر اپنی چادر بچھا کر بیٹھ گئے اور میرے لیے نائب وزیر خارجہ ملا جلیل نے اپنی چادر بچھا دی ۔یہ کسی بھی سربراہ مملکت سے میری سادہ ترین ملاقات تھی ‘‘۔
'' یہ ڈرامہ(بھارتی ہوائی جہاز کے اغوا کا واقعہ ) تو ختم ہوگیا ‘لیکن بہت سے تحقیق طلب سوالات کو جنم دے گیا ۔کہا جاتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی راء کا ایک افسر ششی بھوشن سنگھ تومر جو نیپال کے بھارتی سفارت خانے میں افسر تھا‘اس جہاز میں سفر کر رہا تھا۔اور اس کا برادر نسبتی نند کشور سنگھ وزیر اعظم واجپائی کا سیکرٹری تھا؛چنانچہ این کے سنگھ نے اپنے بہنوئی کی جان کو خطرے میں ڈالنا گوارا نہیں کیا اورامرتسر میں کمانڈو ایکشن کی اجازت نہیں دی ۔ اس وقت کے راء کے چیف اے ایس دولت نے اپنی کتاب Kashmir:the Vajpayee yearsمیں اس جہاز کے اغوا کی تفصیلات تو دی ہیں‘ مگر اپنے افسر تومر کا ذکر گول کر گئے ہیں ‘ یعنی کچھ تو ہے ‘جس کی پردہ داری ہے‘‘ ۔
'' سعود ی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل پاکستان سے ہوتے ہوئے قندھار آئے اور ملا عمر سے ملاقات کی ۔شہزادہ ترکی کا کہنا تھا کہ ان سے پچھلی ملاقات میں ملا عمر نے وعدہ کیا تھا کہ اسامہ کو سعودی عرب کے حوالے کردیا جائے گا۔ملا عمر نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔جب ترکی الفیصل نے اصرا ر کیا تو ملا عمر کو اتنا شدید غصہ آیا کہ وہ اٹھے اور دوسرے کمرے میں جاکر اپنے سر پر ٹھنڈے پانی کا برتن انڈیل لیا ‘پھر واپس آئے تو سر کے بالوں اور کپڑوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور آکر کہا کہ میں جھوٹا نہیں ہوں ۔اس ملاقات میں اتنی بد مزگی ہوئی کہ شہزادہ ترکی فورا ًاٹھ کر واپس چلا گیا‘‘ ۔
مشہور ہے کہ حالیہ زمانے میں (شاید 1970ء کی دہائی میں )محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی ‘اسے ٹھیک کرنے کے لیے پورا کھولا گیا تو ہزار سال پہلے مرنے والے سلطان کی میت بالکل ایسے پڑی تھی ‘ جیسے تازہ دفن کیا گیا ہو‘اسی ذیل میں جناب ابرار حسین نے سومنات کے مندر‘وہاں ہونے والی جنگ اور دروازہ اکھاڑکر غزنی لے جانے کی کہانیوں کو بھی دلائل کے ساتھ غلط قرار دیا ہے۔یہ پوری بحث لائقِ مطالعہ ہے :
'' کابل میں یہ زبان زد خاص و عام تھی کہ صدر بننے سے پہلے جناب اشرف غنی کو غصے پر قابو پانے کے لیے دو مہینے کا کورس بھی کروایا گیا تھا‘جو شاید بہت کارگر ثابت نہیں ہوا‘‘۔
اس کتاب سے ہی یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان نے افغانستان جیسے تباہ حال ملک کی بہت بڑی رقم سے کیسی فراخ دلانہ مدد کی ۔ابرار بتاتے ہیں کہ ایک ارب ڈالر کی رقم پاکستان نے صحت ‘ تعلیم اور مواصلات کے شعبوں میں امداد کے طور پر دی۔کابل میں عظیم الشان جناح ہسپتال‘جلال آباد میں عبد الرب نشتر برائے امراض گردہ‘لوگر میں امین اللہ خان لوگری ہسپتال۔14 موبائل ہسپتال‘145 ایمبولینسیں‘میڈیکل کیمپس اس کے علاوہ ہیں ۔ کابل جلال آباد اور بلخ کی جامعات میں آرٹس فیکلٹی سائنس فیکلٹی ‘ انجینئرنگ فیکلٹی تعمیر کی گئیں ۔2000طلبہ کے لیے رحمان بابا ہوسٹل‘ہزاروں سکالر شپس‘50 لاکھ نصابی کتب اور پاکستان کی جامعات میں افغان طلبا کے داخلے الگ ہیں ۔مواصلات میں طورخم سے جلال آباد تک 75کلومیٹر لمبی شاہراہ‘جلال آباد شہر کی اندرونی سڑکیں ‘100 بسیں ‘200 ٹرک اور تعمیراتی مشینری وغیرہ اس کے علاوہ ہے ۔سوچتا ہوں کہ یہ سب مدد ان ادوار میں دی گئی جب پاکستان خود شدید مالی مشکلات سے گزرتا رہا ہے۔قوم نے اپنی اکلوتی روٹی کا ایک حصہ ہمسایوں کو دے دیا تو کیا یہ بڑی قربانی نہیں تھی۔اور یہ بات الگ ذہن سے نہیں نکل سکتی کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کا بوجھ اور ان کی وجہ سے معاشرتی مسائل ایک الگ طرح کا بوجھ ہے‘ جو پاکستان مسلسل برداشت کرتا رہا ہے ۔
تو وہ سوال لوٹ کر آجاتا ہے جو میں نے اس کالم کے شروع میں ذکر کیا ہے ۔ ابرار نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانوں میں بھی دوسری اقوام کی طرح اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہیں ۔ کچھ لوگ آپ کی خوبیوں کو یاد رکھتے ہیں اور کچھ خامیوں کو ‘مگر انفرادی سطح پر دوستی کی بہت قدر کی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر سید ابرار حسین نے جناب رحمت اللہ نبیل ‘جنرل رازق کے واقعات درج کیے ہیں ‘اسی طرح حامد کرزئی کے بھی ایک دو واقعات کتاب میں درج ہیں ۔ اس سے سوال کی شدت کم ضرور ہوتی ہے‘ لیکن ختم نہیں ۔
ابرار ! بہت بہت مبارک باد کہ ایک اہم دستاویز آپ کے قلم سے نکلی۔میری درخواست یہ بھی ہے کہ پورے سفارتی دور کی یادداشتیں بھی قلم بند کیجیے ۔شخصیات‘واقعات‘پالیسیوں سے متعلق کھل کر لکھئے‘جو آپ کو جانتے ہیں‘ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان باتوں سے آپ کا مقصدصرف حقائق ریکارڈ پر لانا یا ریکارڈ درست کرنا ہوگا۔